... loading ...
(مہمان کالم)
نکولس کرسٹوف
وہ ایک عالمی ڈاکٹر ہے اور پچھلے کئی مہینوں سے کورونا جیسی مہلک عالمی وبا کے خلاف نبرد آزما ہے جبکہ نجی زندگی میں وہ ایک شدید اذیت سے گزر رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈراس اپنا ذاتی دکھ خفیہ رکھے ہوئے ہیں اور عوام کے سامنے اپنی اذیت کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں مگرجب میں نے انہیں تھوڑا سا کریدا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ڈاکٹر ٹیڈراس کا تعلق ایتھوپیا کے علاقے ٹیگرے سے ہے‘ یہ وہی علاقہ ہے جہاں نومبر سے ایتھوپیا اور اریٹیریا کے فوجی انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ان مظالم کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا ہے مگر دنیا نے عمومی طور پر اس المیے پر صرفِ نظر سے کام لیا ہے۔ ٹیگرے میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، مردوں کو ڈنڈوں سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی بڑے پیمانے پر اجتماعی آبروریزی کی جا رہی ہے۔ ایتھوپیا کی اپوزیشن جماعتیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ اب تک پچاس ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں مگر اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ پچھلے چند مہینوں میں تشدد، بھوک، قتل و غارت اور تباہی کے بدترین مناظر دیکھے گئے۔
ڈاکٹر ٹیڈراس کہتے ہیں ’’یہاں بھوک کا ہتھیار استعمال کیا گیا، ا?بروریزی کا ہتھیار استعمال ہوا، اندھا دھند قتل وغارت جاری ہے۔ پورے علاقے میں بھوک کا راج ہے۔ یہ اتنا تکلیف دہ اور اذیت ناک المیہ ہے کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں‘‘۔ ان کی 68 سالہ کزن کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ ایک چرچ میں جان بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان کے ایک اور عزیز کو‘ جو سولہ سالہ سکول طالبعلم تھا‘ سڑک پر گولی مار دی گئی۔ انٹرنیٹ اور فون کے تمام کنکشن بند کر دیے گئے؛ چنانچہ ڈاکٹر ٹیڈراس ٹیگرے میں اپنے ان فیملی ممبرز کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ کرنے سے قاصر ہیں جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے یا شاید موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر ٹیڈراس ایک معروف پبلک سرونٹ ہیں‘ ورنہ وہ بھی اب تک ایک مہاجر بن چکے ہوتے۔ اس وقت وہ جینیوا میں ورلڈ ہیلتھ ا?رگنائزیشن کے ہیڈ کوارٹر میں مقیم ہیں اور اگر انہوں نے ٹیگرے واپس جانے کی کوشش کی تو ان کے تحفظ کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ ایتھوپیا کے آرمی چیف انہیں ایک مجرم قرار دے چکے ہیں۔
نیویارک ٹائمز میں میرے ایک ساتھی ڈیکلن واش نے اپنی ایک رپورٹ میں ان مظالم کی نشاندہی کی ہے جن میں ایک چھبیس سالہ عورت کو شراب کی بوتلوں سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، آٹھ سال سے بھی کم عمر لڑکیوں کو جنسی درندگی کا سامنا کر پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چیف مارک لوکاک نے ایک عور ت کا واقعہ سنایا جس کے شوہرکو قتل کر دیا گیا تھا اور اس عور ت کا بچہ اس کے پیٹ میں ہی دم توڑگیا اور اسے اس کے بچوں کے سامنے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ میں پچھلے پندرہ برس سے ڈاکٹر ٹیڈراس کو جانتا ہوں اور ان کا مداح بھی ہوں مگر جب وہ آمروں کی حمایت کرتے تھے تو ہمیں حیرانی ہوتی تھی۔ میں نے ڈاکٹر ٹیڈراس سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے ٹیگرے کے مکینوں کا قتل عام روکنے کے لیے ایتھوپیا پر کوئی عالمی دبائو ڈالنے سمیت ہر کسی قسم کی سیاسی گفتگو کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ شدید الجھن میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک عالمی تنظیم میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے غیر جانبدار نظر آئیں‘ اس لیے وہ اپنے ہی لوگوں کی نسل کشی کے خلاف کسی قسم کا اظہارِ خیال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ٹیگرے میں ان انسان دشمن اقدامات کے پیچھے ایتھوپیا کے وزیراعظم ایبی احمد نظر آتے ہیں جو 2018ء میں برسر اقتدار آئے تھے اور شروع میں انہیں ایک عظیم اصلاح پسند لیڈر قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے 2019ء کا امن کا نوبیل پرائز بھی حاصل کیا تھا۔ ٹیگرے کے بحران کی جڑیں نسلی تنازعات اور اقتدار کی رسہ کشی میں پیوست نظر آتی ہیں۔ پچھلے تین عشروں تک ٹیگرے کے لوگ مرکزی حکومت میں چھائے رہے۔ اس عرصے کے دوران ڈاکٹر ٹیڈراس پہلے وزیر صحت اور پھر وزیر خارجہ کے طور پر خاصی شہرت کما چکے تھے۔ ٹیگرین لوگوں کی اکثریت پر مشتمل اس حکومت نے اقتدار پر اپنی موثر گرفت قائم رکھی جس میں لوگوں کا معیارِ زندگی بلندی کی طرف مائل رہا مگر یہ ایک جابر حکومت تھی جو اپنے ناقدین کو تشدد کا نشانہ بناتی تھی‘ صحافیوں کو قید میں ڈال دیتی تھی۔ اس سے ایتھوپیا کے دیگر گروہوں میں خاصی بے چینی پائی جاتی تھی۔ برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم ایبی احمد نے ٹیگرین لوگوںکو نکیل ڈالنا شروع کی اور نومبر میں اس علاقے میں نام نہاد بغاو ت کچلنے کے نام پر فوج بھیج دی۔ مگر اس کے نتیجے میں ٹیگرین جنگجوئوں کے ساتھ ایک خانہ جنگی شروع ہو گئی تو ایتھوپیا کی فوج کی مدد کے لیے اریٹیریا کی فوجیں بھی علاقے میں داخل ہو گئیں۔ اگر یہ خانہ جنگی زیادہ پھیلی تو اس میں سوڈان کے شامل ہونے کا بھی خطرہ موجود ہے۔ اس تنازع میں شامل تما م فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف ظلم اور جرائم کا ارتکاب کیا ہے مگر سب سے سنگین الزام ایتھوپیا اور ایریٹیریا کی فورسز اور ان کے اتحادیوں پر عائد کیے جا رہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ کے طور پر ڈاکٹر ٹیڈراس نے پوری کوشش کی کہ کووڈ کی ویکسین تمام ممالک کے درمیان منصفانہ طریقے سے تقسیم کی جائے، عوامی سطح پر ڈاکٹر ٹیدراس کی پوری توجہ کووڈ پر مرکوز ہے اور وہ ٹیگرے میں ہونے والے مظالم پر اکثر خاموش ہی رہتے ہیں۔ مائونٹ سینائی سکول ا?ف میڈیسن کی پروفیسر ڈاکٹر اینی سپیرو جو ڈاکٹر ٹیڈراس کی مشیر بھی رہ چکی ہیں‘ کا کہنا ہے ’’لوگ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر ٹیڈراس ہر وقت کووڈ کی مہلک وبا کے انسداد میں ہی مصروف نظرااتے ہیں مگر اپنی نجی زندگی میں وہ ہر وقت ٹیگرے کی حالتِ زار پر اپنا دکھ سمیٹنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ٹیڈراس یہ انٹرویو دینے سے بھی گریز کر رہے تھے مگر جب انہوں نے یہ انٹرویو دیا تو وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ انہوں نے انٹرویو شروع کرتے ہوئے کہا ’’ہمیں کووڈ کا سامنا ہے اور ہم اس کے خاتمے کے لیے اپنی بہترین کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ اور پھر دکھوں کو چھپانے والا پھٹ پڑا اور ایک منٹ سے زیادہ وقت وہ کوئی بات نہ کر سکے اور سسکیاں ہی لیتے رہے۔ جو شخص جنگی جرائم پر بات کرتے ہوئے خود پر قابو نہ رکھ سکے‘ میں ہمیشہ اس کا احترام کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ صدر جو بائیڈن اور دیگر عالمی لیڈر ٹیگرے کے اس سانحے پر وہاں کے باسیوں کے مصائب پر توجہ دیں گے جو اس وقت بھوک سے مر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔