... loading ...
رمضان میں پکوڑے کس سن میں فرض ہوئے، اس حوالے سے ماہرین کی مختلف آرا ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ امت مسلمہ پر یہ سعادت مغلوں کے دور میں نازل ہوئی۔ جنہیں نرم ، گرم اور لذیذ سوغاتوں سے دستر خوان کو آراستہ کرنے کا شوق تھا۔اس لیے یہ نیکی کا کام مغلوں کے دور میں رواج پایا ، ذائقہ منفرد اور چٹ پٹا ہونے کی بنا پر تھوڑے ہی عرصے میں یہ سوغات واجب اورپھرافطاری میں ’فرض‘ ہوگئی۔ فرض اس لیے کہا جاتا ہے کہ برصغیر کے گھروں میں افطار میں جس دن پکوڑے نہ ہوں،چاہے دنیا بھر کی سوغات ہوں،لیکن طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔کچھ ہو یا نہ ہو پکوڑے ضرور چاہئیں۔
ویسے سچ بھی یہی ہے کہ افطاری میں بھلے، دس اشیا موجود ہوں لیکن ہاتھ پہلے پکوڑے ہی کی طرف اٹھتا ہے۔
کچھ ماہرین پکوڑے مغلوں کے دور میں فرض ہونے سے اختلاف کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ پکوڑے اپنی اس موجودہ شکل میں چکی کی ایجاد کے بعد وجود میں آئے۔بیسن عام ہوا اور روزہ داروں کو نئی نئی ریسپیاں سوجھنے لگیں۔
کچھ عرصہ قبل بڑا سانحہ ہوگیا، لیکن مولویوں کو اس کی خبر نہ ہوئی ورنہ برطانوی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کردیتے۔ ہوا یہ ایک برطانوی انسائیکلو پیڈیا نے پکوڑوں کو ہندوستانی ڈش قرار دے دیا، غضب خدا کا، اب تو پاکستان وجود میں آچکا ہے، اور پکوڑوں کی وراثت کے حق دار تو ہم ہی تھے۔ لیکن وہ گستاخ انسائیکلو پیڈیا لکھتا ہے کہ “انڈین پکوڑے‘‘۔۔ ہائے ہائے ظالم کی زبان کسی نے کیوں نہ پکڑی۔ آگے لکھتا ہے کہ یہ پکوڑے گوبھی، بینگن،آلو یا دیگر سبزیوں پر مشتمل تیل میں تل کر بنائے جاتے ہیں۔ کوئی اس ناہنجار کو یہ بھی بتا دے کہ پکوڑے مرچوں کے بھی بنائے جاتے ہیں اور پالک کے بھی پکوڑے بنتے ہیں اور تو اور انڈوں اور چکن تک کے پکوڑے تیار کیے جاتے ہیں۔ ہم صدیوں سے بناتے آرہے ہیں۔ اس لیے ہمارا انسائیکلو پیڈیا سے مطالبہ ہے کہ ہم پاکستانی پکوڑے یا اسلامی پکوڑے کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا نام قبول نہیں کریں گے۔
رمضان میں پکوڑے اس قدر لازم ہوچکے ہیں کہ ، ملک کے پورے سال کی چنے کی پیداور ایک ماہ میں چٹ ہوجاتی ہے۔ لیکن رمضان کے گزرنے کے بعد یہ قوم پکوڑوں کو اس طرح بھول جاتی ہے، جیسے ہم اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں۔ سوچ کربتائیں آپ نے کبھی رمضان کے بعد ، یعنی عید پر پکوڑے بنتے دیکھے ہیں؟ یا کبھی آپ نے شادی بیاہ یا کسی اور خوشی یا غم کے موقع پرکبھی پکوڑے بنوائے ؟ یا کبھی منی کی سالگرہ پر اس سے کیک کے بجائے پکوڑا کٹوایا ہو؟ نہیں نا ؟ یہی وہ تاریخی بے وفائی ، ظلم اور ناانصافی ہے جو ہم پورا سال پکوڑوں سے روا رکھتے ہیں۔ایسا تو دشمن بھی اپنی باندیوں سے نہیں کرتا۔ روایت ہے کہ برصغیر میں ایک انگریز سپاہی نے گشت لگاتے ہوئے کچھ روزہ داروں کو دیکھا جن کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔انگریز نے ان سے کہا کہ کس چیز نے تم کو یوں بھوکا رہنے پر مجبور کیا۔ روزہ داروں نے اسے افطار کے وقت کچھ پکوڑتے تھما دیئے، جنہیں کھاتے ہی گورے پر رقت طاری ہوگئی۔آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔اس نے دو پکوڑے اور مانگے اور جاتے جاتے بولا میں تم لوگوں کے اس کشت کی وجہ سمجھ گیا ہوں۔۔
گھر ہو یا دفتر یا افطار پارٹی حتی کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی، جب افطاری کا وقت ہوجائے تو وہاں مینو میں پکوڑوں کا شامل ہونا لازم ہوتا ہے۔ایک مولانا پارلیمنٹ میں افطار کے دوران کچھ ڈھونڈ رہے تھے، ایک ممبر نے انہیں کھجور پیش کردی اور وہ دانت پیس کر بولے پکوڑے ڈھونڈ رہا ہوں خبیث۔(خبیث وہ پیار سے کہتے ہیں) اور پھرپارلیمنٹ میں مصاحبین کی دوڑیں لگ گئیں ، مولانا کو پکوڑے پیش کیے گئے ورنہ افطارپارٹی سے اتحادیوں سمیت مولانا کے واک آؤٹ کا خدشہ تھا۔
ابھی ابھی خیال آیا کہ پکوڑوں کو بارش سے بھی جوڑا جاتا ہے۔جہاں ساون رت چلی ،من میں پکوڑوں کی پکاس اٹھنے لگی۔ (جس طرح پانی کی پیاس ہوسکتی ہے تو پکوڑوں کی پکاس بھی ہوسکتی ہے۔) بادل نظر آتے ہی باجی نے منے کو بیسن لینے کے لیے دوڑا دیا، حلوائی نے بھی دکان میں چھوٹے کو آواز لگائی کہ بیسن گھول لیبارش کے آثار لگ رہے ہیں۔ پکوڑے بنانے کے لیے بارش کا انتظار جاری ہے، اتنے میں ٹی وی پرخبر چلی کہ بارش برسانے والا سسٹم گزر گیا ہے، وہیں جیسے ارمانوں پربجلی سی گرگئی۔ پکوڑے رکوا دیئے گئے۔ ظالمو ایسا بھی کیا ہے، کبھی پکوڑے بارش کے بنا بھی کھا لیا کرو۔ گزشتہ دنوں ایک ڈاکٹر کچھ احتجاجی مظاہرین کے ڈنڈوں سے بچ نکلا ، کم بخت ڈاکٹرپکوڑوں کی توہین کررہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ آدھا کلو پیسن سے بنے ہوئے پکوڑے ایک پاؤ تیل چوس جاتے ہیں اور معدے کے لیے انتہائی وبال جان بن جاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں جب چٹنی میں ڈبو لیا جاتا ہے تو پیٹ میں جاکر یہ پکوڑے پٹاخوں کی طرح کا کیمیائی عمل پیدا کرتے ہیں۔اتنا سننا تھا کہ مظاہرین کا پارہ ہائی ہوگیا، بولے کم بخت سموسے تیرے کیا چاچے مامے لگتے ہیں؟ وہ تیل نہیں چوستے ؟ وہ معدے میں ہلچل نہیں مچاتے؟ ڈاکٹر کچھ کہنے کے لیے منہ ہی کھولنا چاتا تھا کہ مظاہرین نے ڈنڈے بلند کیے اور ڈاکٹر کو فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایک بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ پکوڑے اسٹریٹ فوڈ کہلاتے ہیں لیکن فوڈ اسٹریٹ پر اگر آپ پکوڑے ڈھونڈتے پائے جائیں تو لوگ آپ کی دماغی حالت پر شک کرنے لگتے ہیں ، کراچی کی ایک مشہور فوڈ اسٹریٹ پر ایک صاحب پکوڑے ڈھونڈ رہے تھے۔ ایسی شاہراہ جہاں کباب ، بریانی، قورمے ، حلیم ، قیمہ ، تکے، نہاری ، زردہ اور ربڑی سے کم بات ہی نہ ہوتی ہو، وہاں انہیں دکانداروں سے سوائے دلچسپ مشوروں کے اورکچھ نہ ملا، بالاآخر انہوں نے ایک ٹھیلے سے دہی بڑے کھا کر من کی پیاس بجھائی۔
پکوڑوں کی تاریخ کے حوالے سے ایک گھسا پٹا واقعہ لیاری کے مکرانیوں سے بھی منسوب ہے۔ لیکن وہ واقعہ اتنے پرانے لطیفے کی مانند ہوگیا ہے کہ اب وہ آپ کو سنا کر ہنسانے کے بجائے رلانا نہیں چاہتا۔۔
اس لیے اس پکوڑے نامے کو یہیں پر ختم کرتے ہیں۔اجازت دیجئے۔خدا ہی حافظ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔