... loading ...
جب سے کورونا وائرس کا عذاب آیاہے ایک لفظ باربار سننے کو ملتاہے جسے قرنطینہ کہاجارہاہے کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی یہ ہے کیا؟ دراصل یہ بھی ایک طرح کا طریقہ علاج ہے ،یہ اصطلاح کسی مہلک چھوت کے مرض میں،مبتلا، متاثرہ یا مشتبہ مریضوں کو سہولیات سے آراستہ ایک خاص مقام میں رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ مرض کے پھیلائو کے خطرے کو روکنے کے لیے انتہائی احتیاط کی جائے اس میں متاثرہ یا مشتبہ مریض پرکہیں اور آنے جانے پر مکمل پابندی ہوتی ہے ،مریض کو قرنطینہ میں رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس مہلک مرض کے پھیلائو کو روکا جائے ۔ آ پ کویہ جان کر خوشگوارحیرت ہوگی کہ یہ شہرہ آفاق ایجادمسلمانوں کی ہے جس سے پوری دنیا فائدہ اٹھارہی ہے یہ بنی نوع انسانیت کی گراںقدر خدمت ہے ۔تاریخی اعتبار سے اموی خلیفہ الولید بن یزید نے دنیا کا پہلا قرنطینہ بنایا تھا جس نے صدیوں تک متعدی امراض میں مبتلا انسانیت کو اپنی آغوش میں لیکر موت کا لقمہ بننے سے بچائے رکھا۔اہل ِعلم یقینا جانتے ہوں گے کہ قرنطینہ کا اولین تصور اسلام نے دیا ہے۔۔ پیغمبر برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوںکو وبا ئوںسے متاثر ہ بستیوں میں داخل ہونے یا وہاں کے باشندوں کو باہر نکلنے کی ممانعت فرمائی ہے جو قرنطینہ کاپہلا فلسفہ ہے ،اسی فلسفے سے دنیا رہنمائی حاصل کررہی ہے قرنطینہ اطالوی زبان کا لفظ ہے quaranta giorni جس کے معنی چالیس دن کے ہیں یعنی مریضوںکو ایک ماہ ایک عشرہ عام لوگوںسے الگ تھلک کردیا جائے تاکہ صحت مندافراد چھوت کی بیماری سے بچ سکیں۔
لاطینی میں اسے quarantine کہا گیاہے جب سے کورونا وائرس نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر کے بہت سے ممالک میں جس کے باعث میڈیا پر قرنطینہ کا لفظ بہت زیادہ سننے اور پڑھنے میں آرہا ہے ہم میںبہت سے افراد اسے کسی علاقے کا نام خیال کررہے ہیں جبکہ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں اس عمل پر بھی بعض لوگوں کو اعتراض اورتشویش ہے اوراسے اسلامی تعلیمات سے متصادم عمل خیال کررہے ہیں ایسا مگر نہیں ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے دنیا کے تمام مسائل کا حل اس میں موجود ہے بس ہمیں اس کا ادراک نہیں ۔ اگرچہ یہ لفظ قرنطینہ یورپین زیادہ استعمال کررہے ہیں اور یوں لگ رہاہے جیسے آج کے عرب اس لفظ کو نہیں جانتے۔۔ جدید اعلامی عربی میں قرنطینہ کے لیے الحجر الصحی (بفتح الجیم وسکون الجیم ) کی مصطلح مستعمل ہے۔ قرنطینہ کے تصور پر عمل خلیفہ ثانی حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا جب انہوں نے ایک مہلک وباء کے باعث شام کا سفر سرغ نامی علاقے میں ترک کرنے کا ارادہ کرکے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قرنطینہ کو حکومت کی جانب سے عوام پر لازمی قراردینے کا پہلا کریڈٹ مشہور اموری خلیفہ الولید بن یزید نے کے سر ہے۔ جنہوںنے 706 ء میںجذام (کوڑھ ) کی وباء پھیلنے کے بعد دمشق میں ہسپتال بنوایا جس میں دنیا کا پہلا باضابطہ قرنطینہ بھی بنا یاگیا جہاں جذام کے مریض کو رکھا جانے لگا۔۔ان کے علاج کے لیے انہوں اپنے وقت کے ماہر ڈاکٹرز (اطبا) کی خدمات حاصل کیں اس وقت خلیفہ نے تمام متاثرین کو علاج معالجہ کی بہترین سہولیات فراہم کیں ان کے گھروالوں کے لیے وظائف بھی جاری کروائے ریاست کی جانب سے متاثرین کو مفت علاج معالجہ،ضروریات اورکھانے پینے کی تمام سہولیات فراہم کی گئیں۔ الحجر الصحی مغربی دنیا کو بے حد پسند آیاگیا اس کے باوجود مغرب نے کئی صدیاں بعد یعنی 1377ء میں کروشیا کے شہر دوبرونیک میں پہلا قرنطینہ بنا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب چین سے شروع ہونے والی طاعون کی وباء بحری جہازوں کے ذریعے سے یورپ کے ساحلی شہروں میں پہنچ گئی۔۔ اس وبا ء سے 1347ء تا 1350 ء کے دوران یورپ کے 30 فیصد باشندے لقمہ ٔ اجل بن گئے کروشیا کے شہر دوبرونیک کی اٹلی سے قربت کے سبب اطالوی سینیٹ نے قرنطینہ کے قیام کافیصلہ کیا جس کے تحت اٹلی کے ساحل جانے والے تمام بحری جہازوں کو سمندر کے اندر چالیس روز تک انتظار کرنے کا پابند کیاگیا ۔کیونکہ اس وقت کے ڈاکٹرز نے مرض کے آغاز سے موت تک کے لیے 37 روز کا دورانیہ بتایا تھا۔ جس کے لیے اٹلی نے quaranta giorni یعنی چلہ کی اصطلاح رائج کردی۔ مغرب کے تیز ترین نشریاتی اداروں نے اسے اپنے طبی قاموس کا حصہ بنا لیا۔۔ جبکہ الحجر الصحی کے موجد ہونے کے باوجود وقت کی دھول میں گم گشتہ مسلمان اپنی اس قیمتی متاع سے بے خبر ہوتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کئی جگہ قرنطینہ سے لوگوں کے فرار ہونے کی اطلاعات آتی رہی ہیں جبکہ بعض افراد اسے شرعی نقطہ نگاہ سے غلط خیال کرکے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔حالانکہ آج کے مسلمان کو فخر ہونا چاہئے کہ انسانیت کے بچائو کے لیے سب سے اہم ٹھکانہ قرنطینہ ہے۔۔ اپنی عریق تاریخ پر نازاں ملک کے تمام دینی مدارس کے منتظمین کو بھی اپنے ہاں الحجر الصحی کے قیام کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ انسانیت کے بچائو میں ان کا بھی حصہ شامل ہو۔ حکومت نے متاثرہ افراد کے لیے بہترین سہولیات کے ساتھ کئی شہروں میں قرنطینہ کا انتظام کیا ہے متاثرین کو اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہیے کورونا وائرس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں اس مرض کے خلاف لڑناہوگا چین کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں کے شہری اخوت کی بہترین مثالیں قائم کرکے کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔دعاہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ پوری انسانیت کو وبائوںکے عذاب سے محفوظ و مامون رکھے اور دنیا بھر کے متاثرین کو جلد صحت یاب فرمائے آمین ۔