... loading ...
پولیس میں کافی مثبت تبدیلیاں آرہی ہیں دیانتدار اور چھی شہرت کے مالک آفیسرز کی اہم عہدوں پر تعیناتی سے پولیس کا امیج بہتر ہورہا ہے اور لوگ اب یقین کرنے لگے ہیں کہ پولیس اسٹیشنوں میں انصاف ہوگا عام لوگوں کے دلوں میں سے پولیس کا ڈر اور خوف بھی کم ہوا ہے اسی وجہ سے لڑائی جھگڑے اور دیگر جرائم کی درخواستیں دینے میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو پولیس پر بڑھتے عوامی اعتماد کا مظہر ہے قبل ازیں کوئی جرم ہوتا تولوگ درخواست دینے کی بجائے یہ سوچ کر صبر وشکر کر لیتے کہ جو نقصان ہو ناتھا ہوگیا ہے درخواستیں دے کرکیوں نقصان کرائیں کیونکہ پولیس کاروائی کے نام پر درخواست دہندہ کو کنگال کر نے میں خوب ماہر تھی اِس لیے چوری یا ڈکیتی کے نقصان سے دوچار ہونے والے پولیس سے رجوع کرنے کی بجائے ذیادہ تر خود ہی تلاش کرنے کی کوشش کرتے مگر اب صورتحال بدل رہی ہے پولیس پر اعتماد بڑھنے سے لوگ بلا جھجک رجوع کرتے ہیں کیونکہ اب ایس ایچ او اگر نہیں سنتا تو ڈی ایس پی تک رسائی بھی سہل ہے اگر ڈی ایس پی نہ سُنے تو ایس پی اِنویسٹی گیشن اور ڈی پی او تک اپروچ بھی کوئی مشکل نہیں رہی روزانہ لگنے والی کُھلی کچہریوں میں عام لوگوں کی شنوائی ہوجاتی ہے رشوت خور آفیسر یا اہلکار محاسبے یاتادیبی کاروائی کے خوف سے بدعنوانی میں احتیاط کرنے لگے ہیں ویسے بھی بدعنوان یابھاری توند کے مالک روایتی پولیس آفیسر وں کو اہم عہدوں سے دورہی رکھا جارہا ہے لیکن اتنی بہتری اور تبدیلی کے باوجود کوئی ایک آدھ کہیں نہ کہیں سفارش یا چاپلوسی سے تعینات ہو ہی جاتا ہے جو اپنے محکمہ اور آفیسرز کی بدنامی کا باعث بننے کے ساتھ عام لوگوں کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے حالانکہ جس شخص سے اپنی بھاری توند ہی سنبھالی نہیں جاتی اُس نے کسی چور یا ڈاکوکا خاک پیچھا کرنا ہے ایسے بھاری بھرکم لوگ فیلڈ کی بجائے دفاتر میں بیٹھ کر جانے کیسے سب اچھا ہے کی رپورٹ جاری کرتے ہیں ؟سوال یہ ہے کہ جہاں انتہائی مہربان ،ایماندار اور نیک نام پولیس آفیسران تعینات ہوں وہاں بداخلاق ،رشوت خور اور سہل پسند کیسے تعیناتیاں حاصل کر لیتے ہیں ممکن ہے کوئی مجبوری یا تگڑی سفارش کا کرشمہ ہو لیکن کسی کو پولیس اسٹیشنوں میں آنے والے سائلین سے بداخلاقی کا پروانہ تھمانا ٹھیک نہیں۔
گجرات پولیس کی تحسین کرنا حقیقت کا اعتراف کرنے کے مترادف ہے ڈی پی او عمر سلامت اور ایس پی انویسٹی گیشن عمران رزاق نے روایتی پولیس کی بجائے مستعداور نیک نام چہروں کو آگے لاکر انصاف کی فراہمی کو سہل بنایا ہے روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی کی بابت پوچھا جاتا ہے ملزمان کی عدم گرفتاری اور مالِ مسروقہ کی برآمدگی میں کوتاہی کے مرتکب آفیسروں کا محاسبہ ہوتا ہے اِس لیے تساہل کا مظاہرہ کرنے والے جلد ہی پولیس لائن میں بیٹھے نظر آتے ہیں لیکن اتنی احتیاط کے باوجود کوئی ایک آدھ بدعنوان چہرہ تعینات ہو ہی جاتا ہے جو سارے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کا باعث بن جاتا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ پولیس کا امیج بہتر رکھنے کے لیے بدعنوان اور بداخلاق چہروں کو تعیناتیاں دینے کی بجائے تجربہ کار اور مستعد کو آگے لایا جائے جو محکمے اور آفیسران کی ساکھ کے محافظ بنیں کیونکہ ساکھ بنانا بہت آسان لیکن بحال رکھنا مشکل ہو تا ہے لیکن یہ مشکل آسان ہو سکتی ہے جب فیصلے کرتے ہوئے روایتی تھانیدار لگانے کی بجائے اہلیت اور صلاحیت کو مدِ نظر رکھ کر تعیناتیاں کی جائیں۔
لالہ موسیٰ سٹی جیسے ماڈل تھانے میں مبارک شاہ کی تعیناتی دودھ کی رکھوالی پر بلے کو تعینات کرنے کے مترادف ہے بھاری توند کے ساتھ موصوف اخلاقی گراوٹ کا بھی شکار ہیں جب سے سٹی لالہ موسیٰ بطور ایس ایچ او تعینات ہوئے ہیں سائلین کی تھانے میں بے عزتی روز کا معمول ہے گشت کرنے کی بجائے قبضہ گروپوں کی سرپرستی ترجیح ہے اور اگر کوئی سفید پوش تھانے آجائے اور پیسے دینے کی بجائے جائز کام فری کرانے کی کوشش کرے تو ٹیلی فون پر بات کرنے کے بعد لاکھوں کا قیمتی سیٹ توڑ نے کی حماقت ضرورکرتے ہیں اور اُٹھتے ہوئے یہ ضرورباور کراتے ہیں کہ میں ایس ایچ اوہوں کوئی کانسٹیبل نہیں جو ہر ایراغیرا نتھو خیرا میرے دفتر آکر ہمکلام ہونے کی کوشش کرے بلکہ سائلین پہلے محرر سے ملیں اور مسلہ بتائیں وہ مجھ سے ملاقاتی کی اجازت لیں پھر میرے دفتر آیاجائے جیب بھاری رکھنا نہ بھولاجائے مبارک شاہ خباثت دکھاتے ہوئے کسی اخلاق یا عہدے کی زمہ داریوں کا رتی بھر خیال نہیں کرتے یہ ایک روایتی پولیس آفیسر ہیںجن کی بھاری توند ہے چہرے سے ہی خباثت اور نحوست ٹپکتی ہے یہ بات سُنتے ہوئے سائل کی جیب میں کیا ہے نظروں سے ہی بھانپ لیتے ہیں اگر کوئی عام اورغریب بندہ ہتھے چڑھ جائے تو سائل کی بجائے ملزم بناتے ہوئے ایک منٹ نہیں لگاتے دفتر کی ڈیوٹی سے یکدم ایس ایچ او کیسے تعینات ہوا ہے ناقابلِ فہم ہے امن وامان کے قیام کی بجائے شہر میں قبضہ گروپوں کی سرپرستی میں کیا رمز پوشیدہ ہے ؟آیا یہ تھانہ لیز پر ہے یا بھاری جثے والا ایک بدعنوان ماتحت اپنے دیانتدار اور نیک نام آفیسرز سے شاید ذیادہ رسوخ کا مالک ہے یہ اِتنا کیوں خود سر ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔
کیا ون فائیو پر کال کرنے کی اتنی سزا ہے کہ شہری کو ہتھکڑیاں لگا کر چارپائی سے باندھ دیا جائے اور جوتے لگائے جائیں کیا کوئی شہری ٹیلی فون پر بات کرائے تو اُس کی اِتنی سزا بنتی ہے کہ لاکھوں کی مالیت کا قیمتی ٹیلی فون سیٹ پھینک کر توڑ دیا جائے یاکسی ایس ایچ او کا اِتنا ہی فرض ہے کہ متنازعہ زمین کی رکھوالی تک محدود ہو کر رہ جائے کیا ایس ایچ او کی ذمہ داریوں میں جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی شامل نہیں ؟کیا خراب رویے کی بابت ملنے والاشوکاز بھی اِتنا سرسری ہوتا ہے کہ کوئی ایس ایچ او جواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتا نہ ہی مبارک کی خباثت پر رتی بھر اثر انداز ہوتاہے پولیس کا کام مجرم پکڑنا ہے کسی سیاسی کے کہنے پر مجرموں کی سرپرستی وتحفظ فرائض کا حصہ نہیں مگر جب یہ فرائض کاحصہ نہیں تو مبارک کو خباثت کا مظاہرہ کرنے کی چھٹی کیوں ہے ؟ ایسے لوگوں کے پولیس اسٹیشنوں کا انچارج لگنے سے جرائم کم نہیں ہوسکتے بلکہ مجرموں کو سازگارماحول ملتاہے دودھ کی رکھوالی پر بلے کو بٹھانا دانشمندی نہیں اگر دودھ کو بچانا ہے تو بلے کوپہلے قابورکھنا ہوگاتاکہ خباثت کا مظاہرہ نہ کر سکے لالہ موسیٰ سٹی میں قبضہ گروپوں کا لگام دینی ہے، مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے اور سائلین کو خوش ااخلاق عملہ مہیا کر نا ہے تو مبارک کی خباثتوں کو قابو کرنا ہوگا وگرنہ قبضے بھی ہوتے رہیں گے مجرم دناتے اور شہریوں کی تھانوں میں تذلیل ہوتی رہے گی اِس طرح پولیس کا امیج کتنا اچھا ہوگا اور نیک نام اور فرض شناس آفیسرز کی ساکھ کتنی بہتر ہوگی سمجھنا دشوار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔