... loading ...
(مہمان کالم)
رام پنیانی
مغربی بنگال کے انتخابات میں ترنمول کانگریس اور بی جے پی‘ جو بڑی دعویدار جماعتیں ہیں‘ نے انتخابی مہم میں غیرمعمولی طور پر شدت پیدا کی۔ نتیجتاً مغربی بنگال کا سیاسی درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ گیا۔ خاص طور پر بی جے پی نے اس ریاست میں اپنی تمام تر طاقت جھونک دی اور بقول ممتا بینرجی، بھاجپا اختیارات کے بے جا استعمال میں مصروف ہے۔ بی جے پی ہی نہیں بلکہ اس کی ملحقہ تنظیمیں اور سنگھ کے نظریات سے متفق دیگر گروپ بھی پوری طرح سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ترنمول کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں مختلف سطحوں پر سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی وقت بہ وقت جانبداری کا مظاہرہ کیا جس کی کئی بدترین مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بی جے پی امیدواروں یا ان کے رشتہ داروں کی گاڑیوں میں لے جائی گئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی بنگال میں الیکشن کمیشن کس طرح کی پالیسی پر عمل پیرا رہا اور وہ کس طرح اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ اس گہماگہمی اور انتخابی مہم کے نقطہ? عروج پر پہنچنے کے بیچ سابق چیف منسٹر بنگال ممتا بینرجی نے تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں بشمول کانگریس، ا?ر جے ڈی، سماج وادی پارٹی، این سی پی، ڈی ایم کے اور شیوسینا وغیرہ کے قائدین یا سربراہوں کے نام خطوط روانہ کیے جس میں تیکھے متن کا استعمال کیا گیا اور واضح طور پر کہا گیا کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو یہ چاہتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا تحفظ ہو اور دستور برقرار رہے تو پھر انہیں اس معاملے میں سنجیدہ طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ اپنے مکتوب میں ممتا بینرجی نے اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ ا?ج جمہوریت اور دستور پر بی جے پی کے حملوں کے خلاف متحدہ اور موثر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ملک کے عوام کے لیے ایک مستحکم متبادل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ممتا بینرجی کے مکتوب میں بی جے پی حکومت میں اختیارات کے بے جا استعمال خاص طور پر دفتر گورنر، سی بی ا?ئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسی مرکزی ایجنسیوں کے بے جا استعمال پر روشنی ڈالی گئی۔ اپوزیشن قائدین کے نام مکتوب میں یہ بھی بتایا گیا کہ مرکزی حکومت ریاستوں کے فنڈز روک رہی ہے۔ قومی ترقیاتی کونسل اور منصوبہ بندی کمیشن جیسے اداروں کو ختم کررہی ہے۔
بی جے پی یہی چاہتی ہے کہ غیربی جے پی جماعتوں کے لیے اپنے دستوری حقوق اور حق آزادی کا استعمال ناممکن ہوجائے۔ ممتا بینرجی نے اپنے مکتوب میں یہ بھی تحریر کیا کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں کے اختیارات کو سلب کرنے اور انہیں کم سے کم کرتے ہوئے بلدیہ کے اختیارات تک محدود کرنے کی خواہاں ہے۔ مختصراً یہ کہ بی جے پی بھارت میں یک جماعتی حکمرانی قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی نے دہلی میں جو کچھ کیا، اسے تازہ ترین مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ دہلی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کے اختیارات گھٹا کر تمام اختیارات لیفٹیننٹ گورنر کو تفویض کردیے ہیں۔ نتیجہ میں منتخب حکومت بے بس و مجبور دکھائی دے رہی ہے۔ ممتا بینرجی نے ایسے مختلف نکات پیش کیے جن سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح مرکزی حکومت منتخب حکومتوں کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ ملک میں جمہوری اقدار ملیامیٹ ہورہے ہیں اور ملک کے ہر حصے میں عوام کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ پچھلے 6 سال سے زائد عرصہ کے دوران ہمارے ملک نے اچانک نافذ کردہ نوٹ بندی کا مشاہدہ کیا جس نے کئی زندگیوں کو خطرہ میں ڈال دیا۔ بیروزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور متوسط طبقات کی معاشی حالت روبہ زوال ہوئی۔ حکومت نے جب جی ایس ٹی پر عمل آوری کی، اس سے خاص طور پر تاجرین وغیرہ کے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا۔ جس طرح کورونا وائرس وبا کے منظر عام پر آنے کے بعد اچانک لاک ڈائون نافذ کیا گیا، اس سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجر مزدور شہروں سے اپنے گائوں کی طرف چل پڑے۔ ان کی المناک کہانیاں پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔مودی حکومت کے ان چھ برسوں کے دوران سارے ملک نے شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کا مشاہدہ کیا جبکہ این آر سی نے بھی مذہبی اقلیتوں کی مصیبتوں میں اضافہ کیا۔ نتیجہ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ تحریک کی شکل میں ایک بہت بڑا احتجاج منظم کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج سارے ملک میں پھیل گیا۔ اس دوران دہلی میں فسادات بھی ہوئے۔ اسی طرح صنعتی گھرانوں کے موافق تین زرعی قوانین کی منظوری نے بھی کسانوں کی حالت خراب کرکے رکھ دی اور ان قوانین کے خلاف کسانوں نے اب تک سب سے بڑا اور پراثر احتجاج شروع کردیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ دوسری جانب اشیائے ضروریہ، پٹرول، ڈیزل اور پکوان و تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا جس کا اثر معاشرے میں متوسط طبقہ پر بہت زیادہ پڑا ہے۔ مرکزی حکومت ان تمام منفی رجحانات کے باوجود ترقی کا پروپیگنڈا کررہی ہے حالانکہ ترقی کے اشارے واضح کررہے ہیں کہ شرح نمو سست روی کا شکار ہے اور تیزی سے روبہ زوال ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری آزادیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ’’فریڈم ہائوز‘‘ نے بھی ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے بھارت کو ایک آزاد جمہوریت کے درجہ سے نکال کر جزوی آزاد جمہوریت کے درجہ میں ڈال دیا۔ اسی طرح ورائٹی آف ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ‘ جو سویڈن سے کام کرتا ہے‘ نے واضح طور پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اب انتخابی مطلق العنانی میں بدل گئی ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2020ء نے 107 ممالک میں بھارت کو 94 واں درجہ عطا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر خوشحال ممالک کی رپورٹ برائے 2021ء جاری کی جس میں 149 ممالک میں بھارت کا مقام 139واں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خوشی و مسرت کے حامل ممالک میں ہم کتنے پیچھے ہیں۔
ممتا بینرجی نے اپنے مکتوب میں جن نکات پر توجہ دلائی ہے، ان پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ا?ج مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت اور دلتوں، قبائلیوں اور خواتین کے خلاف تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ ساتھ ہی بھارت کے دستور میں مساوات، اخوت کے اقدار کا جو سبق دیا ہے، وہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ا?ج سکیولر اور غیربی جے پی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔