... loading ...
دوستو، روزے داروں، اللہ نبی کے پیاروں ، اپنے والدین کے راج دلاروں لیکن مذہب کے ٹھیکے داروں۔۔ آج ہماری اوٹ پٹانگ باتیں اگر آپ سے ہضم نہ ہوسکیں تو افطار میں دو پکوڑے، ایک سموسمہ زیادہ کھالینا۔۔ لال شربت میں تھوڑا نمک ملالیں گے تو شاید ہاضمے کا نظام بھی کام کرنے لگ جائے۔۔ تو چلیے شروع کرتے ہیں، آج کی اوٹ پٹانگ باتیں۔۔
ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ پر ایک پیغام بھیجا، جسے پڑھ کر ہم نے تو سوفیصد اتفاق کیا، پیغام چونکہ ہمارے دل کو بھایا اس لیے ہم اسے آپ سے شیئر بھی کررہے ہیں۔۔پیغام کچھ یوں تھا کہ۔۔
زندگی کا تقریبًا نصف حصہ یہاں عرب امارات میں گزار دیا اور اس عرصے میں نہ کبھی کسی عاشقِ رسول سے ملاقات ہوئی اور نہ ہی کسی مجاہدِ ختم نبوت سے۔ نہ کوئی گدی نشین ملا اور نہ کوئی صاحبِ طریقت، رہبرِ شریعت، سگ ِمدینہ اور نہ ہی تعمیر و ترقی کا ہیرو۔نہ کبھی دورانِ محرم اہلِ تشیع کے جلوس اور ریلیاں نکلتے دیکھیں اور نہ ہی کبھی صحابہ کرام کے یومِ وفات اور یوم پیدائش پر جلسے، جلوس اور بلاک ہوتی ہوئی سڑکیں۔نہ کبھی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کے موقع پر جگہ جگہ ٹریفک جام دیکھا اور نہ ہی کبھی کسی پر گستاخی کا الزام لگا کر سر تن سے جدا کرنے والے مجاہد۔ یہاں دنیا کے ہر ملک و مذہب کے لوگ بستے ہیں۔ جسے شراب خانے جانا ہے جائے، جسے مندر جانا ہے جائے، جسے چرچ جانا ہے جائے، جسے مسجد جانا ہے جائے، جسے آٹھ تراویح پڑھنی ہیں پڑھے، جسے بیس پڑھنی ہے پڑھے اور جسے نہیں پڑھنی نہ پڑھے۔ اس کے باوجود بھی یہاں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔جس ملک کا میں رہنے والا ہوں وہاں مذہبی سیزن ختم ہوتے ہیں تو سیاسی سیزن شروع ہو جاتے ہیں۔کبھی سیاسی پارٹیوں کے جلسے یا دھرنے تو کبھی مذہبی جماعتوں کے۔ کبھی ڈاکٹرز کا احتجاج تو کبھی اساتذہ کا۔ کبھی ربیع الاول کے جلوس تو کبھی حسینی ماتم۔رمضان آیا تو تراویح پڑھنے کے بعد لاوڈ اسپیکر پر پورے محلے کو زبردستی ثواب پہنچانے کی جدوجہد۔ کبھی ناموس رسالت کی ریلیاں، کبھی تاجدار ختم نبوت کے دھرنے تو کبھی سیاستدانوں کا پروٹوکول۔عورتیں رکشے میں بچے جنتی ہیں، مریض ایمبولینس میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے۔ چلو جی جو مر گیا اسے شہید بولو اور دفنا دو۔اللہ کے بندو، پہلے خود پر تو اسلام نافذ کرو، پوری دنیا کے ٹھیکدار بعد میں بننا، اور ہاں فی الحال ہم جیسے نام نہاد غازیوں، مجاہدوں اور عاشقوں کو دنیا ماسوائے نکمی، جھوٹی، فراڈی، بھکاری اور دغاباز قوم کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھتی۔
کسی نوجوان نے ایک درویش سے دعاکے لیے کہا۔درویش نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے اخلاص سے دعادی۔۔اللہ تجھے آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ نوجوان نے حیرت سے کہا۔ حضرت! الحمد للہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ہر سال وقت پر زکوۃ نکالتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں،اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، ہمارے کام والی کا ایک بچہ ہے، جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے، اللہ کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بانٹ چکے ہیں۔۔درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولا۔میرے بچے! سانس، پیسے، کھانا،یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں۔۔یاد رکھو،رَازِق اور الرَّزَّاق۔۔ صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی ذات ہے،تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں،تم جو کر رہے ہو، اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو اللہ تعالٰی کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کر سکتی ہے، اگر تم یہ کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو۔درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لیا اور پھر بولا۔۔میرے بچے! آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹناکسے کہتے ہیں، کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹا اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا، آسانی ہے!اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا،آسانی ہے!صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا،یہ آسانی ہے!اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا،یہ بھی آسانی ہے!غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا،یہ بھی آسانی ہے!چائے کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا،یہ بھی آسانی ہے!گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا،یہ آسانی ہے!تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا،یہ بھی آسانی ہے!اسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا،یہ بھی آسانی ہے!ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہو گئی ہو،سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے!۔ ۔درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور سلسلہ کلام جارے رکھتے ہوئے دوبارہ متوجہ کرتے ہوئے کہا۔۔بیٹا جی! تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے کیوں نہیں شروع کرتے۔؟؟؟ آج واپس جا کر باہر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کُھلنے تک انتظار کرنا،آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو،آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً پہنچ جایا کرنا، انھیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے،بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کریا کرو۔۔آئندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا،سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا،کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا،میرے بیٹے! ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری محتاج نہیں، تم زندگی کے محتاج ہو، منزل کی فکر چھوڑو، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ، ان شاء اللہ تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی۔۔!!!!
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔آئیں! صدقِ دِل سے دُعا کریں کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے،خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔