... loading ...
اپوزیشن نے چند ماہ خوب دھماچوکڑی مچائی لیکن اب حکومت کی بجائے اپوزیشن اتحاد میںشامل جماعتیں ایک دوسرے پرخوب برس رہی ہیں مسلم لیگ ن اور پی پی کی قیادت کے ساتھ دوسرے درجے کے رہنما بھی بیانات کی گولہ باری میں مصروف ہیں ایک طرف سے باپ کو باپ بنانے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو دوسری طر ف سے پنجاب میںبلامقابلا سنیٹر منتخب کرانے کے لیے حکومت سے افہام و تفہیم پر جواب طلبی کی جاتی ہے ایک دوسرے کو رگیدنے کی یہ کوئی پہلی مثا ل نہیں بلکہ برسوں سے سیاستدانوں کا ایسا ہی چلن ہے کیونکہ مفاد کواصول ،اخلاق اور وضع داری پر ترجیحی دی جاتی ہے اِس لیے بات کرتے ہوئے اخلاقی گراوٹ کا خوب مظاہرہ کیا جاتا ہے اگر مفاد ہو توبدترین مخالف جماعتیں میثاقِ جمہوریت کر لیتی ہیں اور اگر مفاد نہ ہو تو وزیرِ اعظم کو نااہل کرانے کے لیے سیاسی قیادت کالے کوٹ پہن کر عدالتِ عظمٰی جانے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتی فائدے کے لیے ایک دوسرے کے امیدواروں کی تائید کی جاتی ہے لیکن اگر عہدہ ملنے کا امکان ہو چاہے وہ ایوانِ بالا میں قائدِ حزبِ اختلاف جیسا بے اختیار ہی کیوں نہ ہو تھاما دامن جھٹکنے میں تاخیر نہیں کی جاتی سیاسی کھیل کے اِتنے رنگ ہیں کہ بندہ سمجھتے ہوئے چکراجاتا ہے لیکن اگر نہیں چکراتے اور ثابت قدم رہتے ہیں تو وہ سیاسی زعما ہیں جو خم ٹھونک کر اپنے فیصلوں کا دفاع کرتے ہیں اور اپنے ہرفیصلے میںملک وقوم کی بہتری سے تعبیر کرتے ہیں ۔
کبھی موجودہ حکمران جماعت بطور اپوزیشن دھرنے دیتی اور سونامی کی طاقت کے مظاہرے کرتی تھی مگر آج سابق حکمران جماعتیں بطور اپوزیشن احتجاج کرنے میں مصروف ہیں حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن نے موجودہ حکمرانوں کو نااہل قرار دیتے ہوئے گرانے کے لیے ایک وسیع تر اتحاد بنایا لیکن یہ اتحاد ایک برس بھی قائم نہ رہ سکا اور چند ماہ اکٹھے چل کر اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت پر کمربستہ ہیں اور حکومت پر لگانے والے الزامات ایک دوسرے پر لگا رہی ہیں عوام رابطہ مُہم سے دبائو کا شکار حکومت نے پی ڈی ایم ٹوٹنے سے سُکھ کا سانس لیا ہے لیکن یہ سُکھ عارضی لگتاہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم سے اب زیادہ گھمبیر خطرات پید اہو گئے ہیں جن سے عہدہ برآہونا حکومت کی صلاحیتوں کا امتحان ہے ۔
دراصل پی ٹی آئی کی موجودہ پارلیمانی پارٹی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حالات کا رُخ دیکھ کر شامل ہوئے اور عمران خان نے بھی شخصی ووٹ رکھنے والوں کو تمام تر بدنامیوں کو قبول کرنے میں تساہل سے کام نہیں لیا علاوہ ازیں درجنوں آزاد منتخب ہوکر جہانگیرترین کے ذریعے حکمران کشتی پر سوار ہوئے اِن لوگوں کا پی ٹی آئی کے نظریے یا عمران خان کی سوچ سے کوئی سروکار نہیںاسی لیے جب بھی مشکل وقت آتا ہے یہ نہ صرف منظرِ عام سے غائب ہوجاتے ہیں بلکہ حکومت پر دبائو ڈال کر حثیت منوانے اور مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں سینٹ الیکشن ہو یا کالعدم تحریکِ لبیک کا دھرنا ، الیکٹ ایبلز اور سیاسی چھتری کے بغیر منتخب ہونے والوں نے بے نیازی اور بے رُخی ظاہر کی آئندہ بھی حکومت کو خطرات سے بچانے کے لیے یہ لوگ کندھا پیش کرنے کی بجائے الگ رہنے کا تاثر دے سکتے ہیں اِس لیے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی میں وقتاََ فوقتاََ بلند ہونے والی اختلافی آوازیں عارضی نہیں مستقل ہیںجو نہی تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی یہ مخالف کیمپ میں شامل ہو سکتے ہیں یہ سمجھنا کہ پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد حکومت کو لاحق خطرات سرے سے ختم ہو گئے ہیں درست نہیں بلکہ دیکھو اور انتظار کروکی پالیسی پر عمل پیرا کسی وقت بھی سیاسی داغِ مفارقت دے سکتے ہیں ۔
اِس میں شائبہ نہیں کہ کئی دہائیوں سے ملک کا مسئلہ بُری حکمرانی ہے اسے ہی بنیاد بناکر پی ٹی آئی اقتدار میں آئی مگرتبدیلی کے باوجودعوام دشمن اقدامات جاری ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بُری حکمرانی میں اضافہ ہو گیا ہے یہ نااہلی ہے یا نا تجربہ کاری ،حکومتی اِدارے ہی نقاب کُشائی کر رہے ہیں پٹرول بحران کے لیے بنائے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بحران کو مصنوعی قرار دیتے ہوئے اوگرا، پٹرولیم ڈویژن اور آئل کمپنیوں کو زمہ دار قرار دیا ہے چلیں یہ تو تحقیق میں ثابت ہوگیا اور خرابی کی وجوہات کا تعین بھی ،سوال یہ ہے کہ جب عوام کی جیبوں سے اربوں روپیہ نکلوایا جارہا تھا تو حکمرانوں کیوں نہ واردات کو سمجھ سکے اگروقت خرابی کا ادراک کرتے تو اتنی لوٹ مار نہ ہوتی اب تما م خرابیوں کا زمہ دار سابق حکمرانوں کو قراردینے میں وزن نہیں رہا اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ بُری طرزِ حکمرانی کا سلسلہ منقطع نہیں ہو سکا بلکہ مصنوعی بحرانوں سے نہ صرف مصنوعی مہنگائی میں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوئے ہیں جس کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے بعد بھی حکومت کے لیے خطرات موجود ہیں ۔
ضرورت کے مطابق عدم ترسیل سے عوامی بے چینی بڑھتی ہے ماہ صیام میں آٹے ،چینی اور دیگر روزمرہ کی اشیا کی قلت میں کوئی دورائے نہیں روزہ دار وں کوگھنٹوں چینی اور آٹے کے لیے یو ٹیلٹی ا سٹورز اور سستے رمضان بازاروں میںخوار کیا جاتا ہے ایسے لوگ حکمرانوں کو کیسے کوستے ہیں کچھ ڈھکا چھپا نہیں سبسڈی سے مستعفید ہونے والوں کی تعدا د بہت کم ہے اکثر عام مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں جہاں حکومتی نرخوں پر کچھ نہیں ملتا ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں بے اثر ہوچکی ہیں یہ نااہلی ہے یا نا تجربہ کاری،جو بھی ہے حکومت کے لیے خطرات جنم دے رہی ہے جس پر قابو نہیں پایا جاتا تواپوزیشن کے بغیر بھی نفرت کا لاواخطرے کا روپ دھار سکتا ہے۔
جہانگیر خان ترین کے خلاف قائم ہونے والے مقدمات اور چینی بحران کی تحقیقات کے باوجود اِس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تاحیات نااہلی کے باوجود سیاست میں بہت اہم ہیں عمران خان کے قریبی دوست رہنے والے ترین زیرِ عتاب ہوکر بھی اپوزیشن اور حکومتی صفوں میں زیرِ بحث ہیں سچ تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم تبدیلی کے لیے عوام کی بجائے جہانگیر ترین پر نظریں جمائے بیٹھی ہے حالانکہ وہ تحریکِ انصاف میں رہنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی اور کسی وقت بھی ہو سکتا ہے معمولی اکثریت سے قائم وفاقی اور پنجاب حکومت کو گرانے کے لیے اکیلے جہانگیر ترین ہی کافی ہیں اِس لیے پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد یہ کہناکہ حکومت مستحکم ہے کسی طور درست نہیں عمران خان اور جہانگیر ترین کی ملاقات کرانے کی کاوشیں جاری ہیں لیکن عمران خان چینی مافیا کے خلاف جو فضا بنا چکے ہیں اُس کے بعد افہام وتفہیم کی گنجائش نہیں رہی بلکہ تحقیقات کے بعد کاروائی نہیں کی جاتی تو لوگ یہی پیغام لیں گے کہ حامی اور مخالفوں میں انصاف کا معیار الگ ہے یہ تاثر حکومتی ساکھ کو مجروح کر سکتا ہے اِس لیے جو کرنا ہو گا سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا وگرنہ پی دی ایم کے علاوہ بھی چہار سو خطرات ہیں کیونکہ شہباز شریف کی رہائی سے اپوزیشن کو تقویت ہو گی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف سب کے لیے قابلِ قبول ہیں بلکہ غیر ضروری تنائو بڑھانے کی بجائے صرف ٹارگٹ کی طرف دھیان رکھتے ہیں اِس لیے یہ تصور کرنا کہ حکومت کے لیے ٹف ٹائم ختم ہو چکا ہے مناسب نہیں بلکہ دبائو بڑھنے کے خطرات موجود ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔