وجود

... loading ...

وجود

ترکی لیبیا تعلقات میں نئے باب کا اضافہ

هفته 24 اپریل 2021 ترکی لیبیا تعلقات میں نئے باب کا اضافہ

(مہمان کالم)

یاسریاکس

2011ء میں جب لیبیا افراتفری کا شکار ہوا، فرانس نے اس میں نیٹو کو ملوث کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیرس کا خیال تھا کہ لیبیائی عوام کو اپنے رہنما معمر قذافی سے بچانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ جب ا?پریشن شروع ہوا، اس وقت کے ترکش صدر رجب طیب اردوان نے اپنے ردعمل میں کہا ’’نیٹو کا لیبیا سے کیا لینا دینا ہے‘‘؟ مگر جب عوامی مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے، ترکی نے سوچا کہ وہ اگر مداخلت نہیں کرتا تو لیبیا میں کام کرنے والی ترک کمپنیوں کے 27ارب ڈالر کے ٹھیکے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اس پر ترکی نے نیٹو کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا، اگرچہ ترکی نے فضائی حملوں میں حصہ نہیں لیا، البتہ نوفلائی زون قرار دینے اور ہتھیاروں کی نقل و حرکت پر پابندی کے فیصلے میں ساتھ دیا۔ ا?پریشنز میں حصہ لینے کے لیے ترکی نے پانچ جنگی جہاز بھی روانہ کیے۔ بعد کے برسوں میں ترکی لیبیا کے بحران میں ملوث ضرور رہا مگر عالمی برادری کے ہر اقدام کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔
لیبیا پر اس وقت تین حریف حکومتوں کا راج ہے۔ ایک طرابلس کی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ جی این اے حکومت ہے، اس حکومت کا کنٹرول لیبیا کے لگ بھگ چھ فیصد علاقے پر ہے۔ اس حکومت کو اخوان المسلمون کے حامی ارکان پارلیمنٹ کنٹرول کرتے ہیں اور اسے ترکی، قطر اور یورپی یونین کی حمایت حاصل ہے، جس میں فرانس اور اٹلی شامل نہیں۔ اس کی حریف حکومت ایوان نمائندگان کے ان ارکان نے تشکیل دی ہے جن کے اخوان المسلمون سے سخت اختلافات ہیں، اس حکومت کا مرکز طبرق ہے۔ جنرل خلیفہ ہفتار طبرق حکومت کا حامی ہے جس نے چند ماہ قبل اپنی فوج کو طرابلس کے محاصرے کا حکم دیا۔ طرابلس حکومت نے غیر متوقع طور پر ہفتار کے حملے کی سخت مزاحمت کی اور تاحال کر رہی ہے۔ سعودی عرب، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات کی عسکری سپورٹ اس حکومت کے لیے ہے، فرانس سیاسی حمایت کر رہا ہے جبکہ امریکا ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ طبرق حکومت لیبیا کا دوتہائی علاقہ کنٹرول کرتی ہے۔
لیبیا کے بحران کے تیسرے فریق کی اتھارٹی کافی کمزور ہے، وہ جنوب کے مختلف عرب اور تبو قبائل پر مشتمل گروپ ہے۔ تبو قبائل چاڈ، نائیجر اور سوڈان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لیبیا کا 18فیصد علاقہ اس گروپ کے کنٹرول میں ہے۔ یہ علاقہ تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے، مگر اس وقت اس کی آمدنی کا ذریعہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ محدود تجارت اور سمگلنگ ہے۔
ترکی لیبیا تعلقات دو ہفتے قبل عالمی ایجنڈے سے ہم ا?ہنگ ہوئے جب ترکی نے جی این اے حکومت کے ساتھ مفاہمت کی دو یاداشتوں پر دستخط کیے۔ ایک خصوصی اکنامک زونز سے متعلق جبکہ دوسری سکیورٹی اور فوجی تعاون سے متعلق ہے۔ حال ہی میں صدر اردوان نے ایک گفتگو میں کہا کہ لیبیا حکومت کی باضابطہ درخواست پر ترکی وہاں فوج بھیج سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جنرل ہفتار طرابلس پر قبضہ کر کے جی این اے حکومت کا خاتمہ کرتا ہے، اس صورت میں مفاہمت کی یادداشتوں کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا انہیں منسوخ تصور کیا جائے گا؟ خصوصاً وہ جو کہ خصوصی اکنامک زونز سے متعلق ہے، کیونکہ اس پر جنرل ہفتار کی حریف حکومت کے دستخط ہیں، یا پھر اسے برقرار رکھا جائے گا کیونکہ اس کی وجہ سے لیبیا حکومت وسیع سمندری علاقے سے تیل تلاش کر سکے گی۔ یہی کچھ مصر کے لیے ہے۔ ترکی لیبیا مفاہمت سے مصر کے خصوصی اکنامک زون میں اضافہ ہو چکا ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ یونان، یونانی قبرص اور اسرائیل کے ساتھ اس کے معاہدوں کا کیا بنے گا۔
طرابلس حکومت اور ہفتار کی فوجیں کئی ماہ سے مکمل طور پر خاموش تھیں۔ مگر اب صورت احوال تبدیل ہو چکی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق روس نے نومبر میں اپنے فوجی دستے لیبیا بھیجے جو کہ سکوئی جیٹ طیاروں، میزائلوں اور جدید آرٹلری سے لیس تھے۔ روسی واگنار گروپ کے جنگجو اس کے علاوہ ہیں جو کہ جنرل ہفتار کی جانب سے لڑ رہے ہیں۔ اگر طرابلس حکومت کے تحفظ کے لیے ترکی اپنی فوج بھیجتا ہے، تو اس سے شام، لیبیا اور ترکی روس تعلقات کے خدوخال یکسر تبدیل ہو سکتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ انقرہ اور ماسکو دوطرفہ تعلقات میں بگاڑ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ روس کے لیے لیبیا بہت اہم ہے، تاہم ترکی سے تعاون کر کے نیٹو میں دراڑیں ڈالنا اس کے لیے زیادہ اہم ہے۔اگر لیبیا میں محاذ آرائی کی وجہ سے ترکی اور روس کے تعلقات بگڑتے ہیں، اس صورت میں شام کے بحران کے خدوخال تبدیل اور شام میں ترکی کے منصوبے مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں، جبکہ بڑھتے روس ترکی تعلقات کا رْخ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر