... loading ...
(مہمان کالم)
یاسریاکس
2011ء میں جب لیبیا افراتفری کا شکار ہوا، فرانس نے اس میں نیٹو کو ملوث کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیرس کا خیال تھا کہ لیبیائی عوام کو اپنے رہنما معمر قذافی سے بچانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ جب ا?پریشن شروع ہوا، اس وقت کے ترکش صدر رجب طیب اردوان نے اپنے ردعمل میں کہا ’’نیٹو کا لیبیا سے کیا لینا دینا ہے‘‘؟ مگر جب عوامی مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے، ترکی نے سوچا کہ وہ اگر مداخلت نہیں کرتا تو لیبیا میں کام کرنے والی ترک کمپنیوں کے 27ارب ڈالر کے ٹھیکے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اس پر ترکی نے نیٹو کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا، اگرچہ ترکی نے فضائی حملوں میں حصہ نہیں لیا، البتہ نوفلائی زون قرار دینے اور ہتھیاروں کی نقل و حرکت پر پابندی کے فیصلے میں ساتھ دیا۔ ا?پریشنز میں حصہ لینے کے لیے ترکی نے پانچ جنگی جہاز بھی روانہ کیے۔ بعد کے برسوں میں ترکی لیبیا کے بحران میں ملوث ضرور رہا مگر عالمی برادری کے ہر اقدام کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔
لیبیا پر اس وقت تین حریف حکومتوں کا راج ہے۔ ایک طرابلس کی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ جی این اے حکومت ہے، اس حکومت کا کنٹرول لیبیا کے لگ بھگ چھ فیصد علاقے پر ہے۔ اس حکومت کو اخوان المسلمون کے حامی ارکان پارلیمنٹ کنٹرول کرتے ہیں اور اسے ترکی، قطر اور یورپی یونین کی حمایت حاصل ہے، جس میں فرانس اور اٹلی شامل نہیں۔ اس کی حریف حکومت ایوان نمائندگان کے ان ارکان نے تشکیل دی ہے جن کے اخوان المسلمون سے سخت اختلافات ہیں، اس حکومت کا مرکز طبرق ہے۔ جنرل خلیفہ ہفتار طبرق حکومت کا حامی ہے جس نے چند ماہ قبل اپنی فوج کو طرابلس کے محاصرے کا حکم دیا۔ طرابلس حکومت نے غیر متوقع طور پر ہفتار کے حملے کی سخت مزاحمت کی اور تاحال کر رہی ہے۔ سعودی عرب، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات کی عسکری سپورٹ اس حکومت کے لیے ہے، فرانس سیاسی حمایت کر رہا ہے جبکہ امریکا ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ طبرق حکومت لیبیا کا دوتہائی علاقہ کنٹرول کرتی ہے۔
لیبیا کے بحران کے تیسرے فریق کی اتھارٹی کافی کمزور ہے، وہ جنوب کے مختلف عرب اور تبو قبائل پر مشتمل گروپ ہے۔ تبو قبائل چاڈ، نائیجر اور سوڈان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لیبیا کا 18فیصد علاقہ اس گروپ کے کنٹرول میں ہے۔ یہ علاقہ تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے، مگر اس وقت اس کی آمدنی کا ذریعہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ محدود تجارت اور سمگلنگ ہے۔
ترکی لیبیا تعلقات دو ہفتے قبل عالمی ایجنڈے سے ہم ا?ہنگ ہوئے جب ترکی نے جی این اے حکومت کے ساتھ مفاہمت کی دو یاداشتوں پر دستخط کیے۔ ایک خصوصی اکنامک زونز سے متعلق جبکہ دوسری سکیورٹی اور فوجی تعاون سے متعلق ہے۔ حال ہی میں صدر اردوان نے ایک گفتگو میں کہا کہ لیبیا حکومت کی باضابطہ درخواست پر ترکی وہاں فوج بھیج سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جنرل ہفتار طرابلس پر قبضہ کر کے جی این اے حکومت کا خاتمہ کرتا ہے، اس صورت میں مفاہمت کی یادداشتوں کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا انہیں منسوخ تصور کیا جائے گا؟ خصوصاً وہ جو کہ خصوصی اکنامک زونز سے متعلق ہے، کیونکہ اس پر جنرل ہفتار کی حریف حکومت کے دستخط ہیں، یا پھر اسے برقرار رکھا جائے گا کیونکہ اس کی وجہ سے لیبیا حکومت وسیع سمندری علاقے سے تیل تلاش کر سکے گی۔ یہی کچھ مصر کے لیے ہے۔ ترکی لیبیا مفاہمت سے مصر کے خصوصی اکنامک زون میں اضافہ ہو چکا ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ یونان، یونانی قبرص اور اسرائیل کے ساتھ اس کے معاہدوں کا کیا بنے گا۔
طرابلس حکومت اور ہفتار کی فوجیں کئی ماہ سے مکمل طور پر خاموش تھیں۔ مگر اب صورت احوال تبدیل ہو چکی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق روس نے نومبر میں اپنے فوجی دستے لیبیا بھیجے جو کہ سکوئی جیٹ طیاروں، میزائلوں اور جدید آرٹلری سے لیس تھے۔ روسی واگنار گروپ کے جنگجو اس کے علاوہ ہیں جو کہ جنرل ہفتار کی جانب سے لڑ رہے ہیں۔ اگر طرابلس حکومت کے تحفظ کے لیے ترکی اپنی فوج بھیجتا ہے، تو اس سے شام، لیبیا اور ترکی روس تعلقات کے خدوخال یکسر تبدیل ہو سکتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ انقرہ اور ماسکو دوطرفہ تعلقات میں بگاڑ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ روس کے لیے لیبیا بہت اہم ہے، تاہم ترکی سے تعاون کر کے نیٹو میں دراڑیں ڈالنا اس کے لیے زیادہ اہم ہے۔اگر لیبیا میں محاذ آرائی کی وجہ سے ترکی اور روس کے تعلقات بگڑتے ہیں، اس صورت میں شام کے بحران کے خدوخال تبدیل اور شام میں ترکی کے منصوبے مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں، جبکہ بڑھتے روس ترکی تعلقات کا رْخ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔