... loading ...
دوستو،اپنے بے وفا شریک حیات کو معاف کرنے کا رویہ مردوں میں زیادہ پایا جاتا ہے یا خواتین میں؟ نئی تحقیق میں ماہرین نے اس سوال کا حیران کن جواب دے دیا ہے۔ایک امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ تحقیق شادی شدہ لوگوں کو بے وفائی کے مواقع فراہم کرنے والے کینیڈین آن لائن پلیٹ فارم ایشلے میڈیسن کی طرف سے کروائی گئی ہے۔ اس تحقیق میں ایشلے میڈیسن کے 3ہزار ممبرز سے سوالات پوچھے گئے اور ان کے جوابات سے ماہرین اس حیران کن نتیجے پر پہنچے کہ خواتین کی نسبت مرد اپنی بے وفا شریک حیات کو زیادہ معاف کر دیتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق جب ان ممبرز سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے شریک حیات کو بے وفائی کرنے پر معاف کر دیں گے؟ جواب میں 86فیصد مردوں نے کہا کہ ہاں ہم اپنی بیویوں کو بے وفائی کرنے پر معاف کر دیں گے جبکہ خواتین میں یہ شرح 82فیصد پائی گئی۔ قبل ازیں کتنے مرد اور عورتیں اپنے شریک حیات کو بے وفائی پر معاف کر چکے تھے؟ اس میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ نکلی۔ اس سوال کے جواب میں 86فیصد خواتین نے بتایا کہ ان کے شوہر ان کے ساتھ بے وفائی کر چکے ہیں اور پکڑے جانے پر وہ انہیں معاف کر چکی ہیں۔ مردوں میں یہ شرح 80فیصد رہی۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اور ماہر نفسیات لوسی بیئرزفورڈ کا کہنا تھا کہ’’جب بے وفائی کی بات آئے تو مرد اس بات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ جسمانی اعتبار سے کیا ہوا ہے۔ خواتین اس کے برعکس سوچتی ہیں اور اپنے شریک حیات کے کسی غیر عورت کے ساتھ سوشل میڈیا پر تعلق یا کھانے پر ملاقات کوبھی انتہائی سنجیدہ لیتی ہیں۔
ایک اور دلچسپ خبر بھی ایک بیگم صاحبہ سے متعلق ہی ہے۔۔اردن میں شوہر نے بیوی کے تیسری بار کورونا میں مبتلا ہونے پر طلاق دے دی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اردن سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے چند ماہ میں بیوی کو تیسری بار کورونا ہونے کے بعد طلاق دے دی۔شوہر کا کہنا ہے کہ شادی کے 15 سال بعد طلاق کا فیصلہ بیوی کے لیے ایک سزا کے طور پر کیا جو اپنی لاپروائی کے باعث چند ماہ کے دوران تین بار کورونا میں مبتلا ہوگئی۔شوہرنے اہلیہ کو طلاق دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی بیوی بار بار دوستوں کے ہمراہ شاپنگ کے لیے جاتی اور کورونا میں مبتلا ہوجاتی تھی، اس نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر بیوی کو طلاق دی۔شوہر کا کہنا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ اپنی بیوی کو کبھی معاف نہیں کرے گا کیونکہ وہ بیوی کی لاپروائی کی وجہ سے مرنا نہیں چاہتا۔
بھارت میں ایک میاں بیوی گزشتہ 3سال میں 18بار گھر تبدیل کر چکے ہیں اور اس کی وجہ ایسی ہے کہ سن کر آپ کے لیے ہنسی روکنا مشکل ہو جائے گا۔انڈیا ٹائمز کے مطابق ان میاں بیوی کا تعلق ریاست مدھیاپردیش کے شہر بھوپال سے ہے۔ بیوی کاکروچوں سے اس قدر ڈرتی ہے کہ جس گھر میں اسے ایک بار کاکروچ نظر آ جائے، اس گھر میں رہنے سے انکار کر دیتی ہے جس پر بیچارا شوہر گھر تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس جوڑے کی شادی 2017میں ہوئی تھی اور تب وہ مسلسل گھر تبدیل کرتے آ رہے ہیں۔تاہم اب شوہر اپنی بیوی کے اس خوف سے عاجز آ چکا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ’’اب میں تنگ آ چکا ہوں اور اپنی بیوی کو طلاق دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں کیونکہ میں اب مزید لوگوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتا۔پہلی بار شادی کے چند ماہ بعد 2018میں میری بیوی نے کچن میں ایک کاکروچ دیکھ لیا اور اس قدر چیخ و پکار کی کہ ہمارے ہمسائے بھی ہمارے گھر جمع ہو گئے۔ اس کے بعد اس نے کچن میں جانے سے انکار کر دیا اور ضد پکڑ لی کہ ہم گھر تبدیل کریں۔ اب کے بعد سے ہم 18بار گھر تبدیل کر چکے ہیں۔میں اسے کئی ماہرین نفسیات کے پاس بھی لیجا چکا ہوں لیکن اس کا کاکروچوں کاخوف جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔‘‘دوسری طرف بیوی نے اپنے شوہر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ الٹا اسے ذہنی مریض قرار دینا چاہتا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں عدالت نے سہیلیوں کے ساتھ باہر گھومنے کے لیے جانے کی اجازت نہ دینے پر غیر ملکی خاتون کی جانب سے طلاق کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔عرب نیوز کے مطابق غیرملکی خاتون نے عدالت میں اپنے شوہر سے طلاق کی درخواست دائر کی تھی جس میں خاتون نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھومنے کے لیے باہر جانا چاہتی ہے لیکن اس کا شوہر اجازت نہیں دے رہا ہے اور اس کے علاوہ وہ اس مطالبے پر مجھ سے بدسلوکی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بھی بناتا ہے۔دوسری جانب غیرملکی خاتون کے شوہر نے اپنے دفاع میں کہا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کبھی بدتمیزی نہیں کی اور بیوی کے ساتھ بیٹے کے لیے بھی مناسب رہائش کا بندوبست کررکھا ہے اس کے علاوہ ماہانہ خرچ بھی وقت پر دیتا ہوں جب کہ بیٹے کی معذوری کے باعث ہم دونوں کا ہر وقت اس کے پاس رہنا بہت ضروری ہے۔خلیجی عدالت نے خاتون کی جانب سے طلاق کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خاتون عدالت کے سامنے شوہر کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی لہذا خاتون کی جانب سے طلاق کا مطالبہ مسترد کیا جاتا ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ غیر ملکی خاتون یہ بھی واضح نہیں کرسکی وہ شوہر کی جانب سے باہر جانے پر روکنے سے اسے کیا نقصان ہوگا اور ایسا کرنے سے اس کی زوجیت کیوں ختم کی جائے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ صرف ’’افطار پارٹی‘‘ ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کی وہ واحد تقریب ہے جوہمیشہ وقت مقررہ پر کسی بھی ’’وی وی آئی پی‘‘ یا ’’ وی آئی پی‘‘ کا انتظار کیے بغیر شروع ہوجاتی ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔