... loading ...
کوئی مانے یہ نا مانے لیکن سچ یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت کے پاس سرِ دست ایک ہی ایسا ’’ترپ کا وزیر‘‘ ہے ،جسے کسی بھی ادنیٰ یا اعلیٰ، معروف یا غیرمعروف وزارت کا قلم دان سونپ دیا جائے،تو وہ اُس منصب کا ’’حق وزارت‘‘ بہ احسن و خوبی ادا کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتاہے۔ جی ہاں! آپ درست سمجھے ،تحریک انصاف کے اُس اکلوتے وزیر با تدبیر کا نام ِ نامی فواد چودھری ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو کوئی منصب پہلی بار ملے تو اُسے اُس شخص کی فطری خوش قسمتی پر محمول کیا جاسکتاہے۔لیکن اگر ایک شخص دوسری بار بھی سابقہ منصب پر مکمل جاہ و حشم کے ساتھ فائز کردیا جائے تو اِس کا سادہ سے مطلب یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص اُس منصب کا واقعی استحقاق رکھتاہے۔ ویسے تو ہمارا یہ ماننا ہے کہ شبلی فراز بھی احمد فراز کی نسبت سے وزارت اطلاعات کے لیے بالکل درست اور موزوں انتخاب تھے مگر اُن میں وہ بات مولوی مدن سی کہاں ۔دراصل شبلی فراز پارلیمانی راہ داریوں میں ’’سیاسی گفت و شنید ‘‘کی شطرنجی بساط بسانے والے ایک بازی گر ہی تو ہیں۔جبکہ وزارتِ اطلاعات کے رخِ طرح دار پر فقط وہی وزیرزیبا دیتا ہے،جو اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پر میڈیا کے نقار خانے میں کہنے کا ہنر جانتا ہو۔ نیز فواد چوہدری کو قلیل مدت میں دوسری بار وزارت اطلاعات و نشریا ت کا ملنا اشارہ کرتا ہے کہ کوئی تو ایسی انتظامی کمی ضرور ہے جسے پورا کرنے کے لیے عمران خان نے فواد چوہدری کو ایک بار پھر سے وزیرِ اطلاعات کے مشکل منصب پر پورے اعزاز کے ساتھ متمکن کیاہے۔
یاد رہے کہ فواد چودھری کی حالیہ وجہ شہرت سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت ہے ،جہاں انہوں نے بطور وزیرکچھ ایسے منفرد سائنسی انداز میں کام کیا کہ سائنس کی الف بے نہ جاننے والے ایک ناخواندہ شخص کو بھی بخوبی معلوم ہوگیا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کتنی سُود مند ہے۔ حالانکہ جب فواد چودہدری کو سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سونپی گئی تھی تو، اکثر یار دوستوں کا خیال تھا نمک کی کان میں فواد چوہدری کو نمک کی’’سیاسی ممی‘‘ بن جانے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیاہے ۔مگر کسے خبر تھی کہ وہ اِس نمک کی کان کو بھی سونے کی کان میں تبدیل کردیں گے۔ بطور وزیر ِ سائنس و ٹیکنالوجی اُن کی یہ ہی کامیابی کیا کم ہے کہ اَب چاند کی شہادت کے لیے عام لوگ رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس کے بجائے فواد چوہدری کی ٹوئٹ پر انحصار کرنے لگے ہیں۔نیز سستے ماسک اور پاکستان ساختہ وینٹی لیٹر کی قلیل ترین مدت میں تیاری بھی اُن کا ایک ایسا شاندار کارنامہ ہے ،جس نے کورونا وائرس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے من حیث القوم پاکستانی قوم کو خوب مدد و اعانت فراہم کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا کے تمام حلقوں میں فواد چوہدری کی جانب سے وزارتِ اطلاعات کا قلم دان سنبھالنے کا زبردست انداز میں خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے میڈیا انڈسٹری ،خاص طور پرپرنٹ میڈیا شدید ترین بحرانی کیفیت میں مبتلا ء ہے اور اخباری صنعت کو بحران سے نکالنے کے لیے وزارتِ اطلاعات و نشریات میں ایک ایسے بااثر اور طاقت ور وزیر کا ہونا اشد ضروری ہے ، جو نہ صرف اہل صحافت کو درپیش سنگین مسائل کا کماحقہ ادراک رکھتا ہو بلکہ فوری طور پر اخباری صنعت کی بحالی اور اس صنعت سے وابستہ ہزاروں کارکنان کی خوش حالی کے لیے انقلابی نوعیت کے اقدامات اُٹھانے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہو ۔ خوش قسمتی سے فواد چوہدری میں یہ دونوں’’انتظامی صفات‘‘ بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ اَب دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے ایام میں فواد چوہدری اپنی انتظامی پالیسیوں کی بدولت روز بہ روز تنزلی کا شکار ہوتی ہوئی اخباری صنعت کو کس قدر سہارا دینے میں کامیاب ہوپاتے ہیں؟۔
واضح رہے کہ اخباری صنعت کو سب سے بڑ ا مسئلہ مہنگے کاغذ کی خریداری کا درپیش ہے ، بلاشبہ عالمی مارکیٹ میں کاغذ کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ایک اخبار کی قیمت قاری کی قوتِ خرید سے انتہائی زیادہ ہوچکی ہے۔ لامحالہ اخبارات کے مہنگے ہونے کی وجہ سے اُن کی فروخت میں بھی دن بہ دن نمایاں کمی واقع ہورہی ہے۔ جس کا براہِ راست نتیجہ اخباری صنعت سے وابستہ کارکنان کی ملازمت سے جبری برخاستگی کی صورت میں برآمد ہورہاہے۔ بظاہر کارکنان کے اس معاشی قتل کا ذمہ دار اخبارات کے مالکان کو قرار دیا جارہاہے لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ایک اخبار اپنی لاگت بھی پوری نہ کرسکے تو پھر یقینا اُس کے ملازمین کے لیے کئی کئی مہینے بغیر تنخواہوں کے کا م کرنے کے علاوہ دوسرا آپشن اور بچتا بھی کیا ہے۔ہمارا حسن ظن تو یہ ہی ہے کہ فواد چوہدری بطور وزیر اطلاعات و نشریات اخباری صنعت کو سبسڈی میں سستاترین کاغذ اور مناسب سرکاری اشتہارات فراہم کر کے اس دیرینہ مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر باآسانی حل فرما سکتے ہیں ۔
اس کے علاوہ میڈیا سے وابستہ کارکنان کے لیے دوسرا سب سے سنگین ترین مسئلہ ایسے’’ سرکاری صحافی‘‘ ہیں،جومعروف محاورے’’ چپڑی چپڑی اور دو ‘‘کے عین مصداق بیک وقت سرکاری ملازمت بھی کر رہے ہیں اور کسی نہ کسی میڈیا گروپ میں بطور صحافی اپنی ’’فرمائشی خدمات ‘‘ بھی انجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دنوں اس حوالے صرف نواب شاہ پریس کلب سے وابستہ 77 ایسے ’’سرکاری صحافیوں‘‘ کی فہرست بھی سوشل میڈیا پر زیرگردش رہی تھی کہ جو تنخواہ بھی سرکار سے لیتے ہیں اور صحافت بھی سرکار کے لیے ہی کرتے ہیں ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ نام نہاد ’’سرکاری صحافی ‘‘ اپنے سیاسی اثرو رسوخ کی بنیاد پر حقیقی صحافیوں کے جائز حق پر ڈاکہ ڈالنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے ۔حالانکہ بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ آئین پاکستان کی رو سے کوئی بھی سرکاری ملازم یا صحافی بیک وقت دونوں شعبوں میں کام نہیں کرسکتا۔کیا فواد چوہدری سرکاری صحافیوں کو غیر سرکاری بناپائیں گے؟۔کیاوہ بطور وزیر اطلاعات قلم و قرطاس کے حقیقی نمائندگان کو اُن کا اصل مقام و مرتبہ پھر سے دلاسکیںگے؟۔ کیا اُن کے دورِ وزارت میں اخباری صنعت کا احیاء ممکن ہوسکے گا؟۔یہ سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ تو وہ چھوٹی چھوٹی اُمیدیں ہیں جو اہلِ صحافت نے فواد چوہدری کے وزارتِ اطلاعات میں واپس آجانے سے وابستہ کرلی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔