... loading ...
رنگ صحرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راناخالدقمر
ان سے میری پہلی ملاقات تھی ڈیڑھ گھنٹے کی اس ملاقات میں ایک لمحے کے لیے نہیں لگا کہ میں ان سے پہلی بار مل رہا ہوں۔ میرے ساتھ ان کے اور میرے مشترکہ دوست عاصم اختر بھی موجود تھے۔ بہت ہنس مکھ اور “جولی” طبیعت کے مالک یہ صاحب محکمہ صحت کے اعلیٰ آفیسر ہیں ‘وہ جس محکمہ کے سب سے بڑے منصب پرفائزتھے گفتگوکامحوربھی وہی ٹھہرا ‘
کہنے لگے کہ عوام کوجوتوقعات ہم سے ہیں اگر ہم ان پرپورانہ اترسکیں تو ہمارااس منصب پربیٹھنا مشق بے کار کے سواکچھ نہیں’ اپنے تئیں جوہوسکتاہے وہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہماری بھی ایک حدہے ہم بھی وسائل کے معاملے میں ”اوپر”دیکھنے پرمجبور ہیں اوپربیٹھے افسران لکیرکے فقیرہوتے ہیں ان سے بات منواناجوئے شیرلانے کے مترادف ہے پالیسی سے لے کربجٹ تک’ترقی سے لیکر تبادلے تک سبھی کچھ اوپروالوں کے ہاتھ میں ہے ‘ان کاالمیہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کافیلڈ کاتجربہ ہی نہیں وہ صرف کتابی کیڑے ہیں ‘ اورکیڑے چاہے کتابی ہوں یاکیڑے مکوڑے وہ ایک قطار میں چلتے ہیں ان میں سے اگرکوئی اپنی قطار سے نکل جائے تواس میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ”رہنما”کی چھوڑی ہوئی خوشبوسونگھ کرراہ راست پرآسکے نتیجہ کے طورپروہ قدموں کے نیچے آکرماراجاتاہے شایداسی خوف سے یہ فائلوں کے ”کیڑے”بھی ناک کی سیدھ میں چلتے رہتے ہیں اگران کوکوئی اپنے تجربے کے مطابق نیا راستہ دکھانے کی کوشش کرے تواسی کونشان عبرت بنادیتے ہیں۔
وہ بتارہے تھے کہ ہماری خواہش ہے کہ عوام کوبہتر سے بہترین صحت کی سہولیات مہیاکریں لیکن صرف خواہش ہی کافی نہیں۔ اس کے لیے عملی اقدام کرناپڑیں گے۔ ان کی گفتگو کے دوران 10 فون کالز وہ اٹینڈ کر چکے تھے سبھی میں ایک ہی مطالبہ کہ ہمارے بزرگوں کوگھرمیں کوروناویکسین لگادیں۔ وہ ہر ایک سے معذرت کرنے کے سواکچھ نہیں کر پا رہے تھے کہ موبائل ویکسین یہاں موجود ہی نہیں ہے۔ ان سے استفسار کیا کہ آپ کیاکہہ رہے ہیں تبدیلی سرکاری کے ترجمان اورحکومت کے اہم ذمہ داران تویہ کہہ رہے ہیں کہ اب بزرگ شہریوں کوکسی ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں انہیں یہ سہولت گھر یاویکسین کی سہولت مہیا کی جارہی ہے۔اس بات کوعوام تک پہنچانے کے لیے پرنٹ وبراڈ کاسٹ میڈیاپراشتہارت بھی چل رہے ہیں میرے سوال پر وہ زیرلب مسکرائے اورگویاہوئے کہ نہ حکومت ”جھوٹ” بول رہی ہے اورنہ ہی میں غلط بیانی سے کام لے رہاہوں۔ ان کی یہ بات میرے سر کے اوپرسے گزرگئی میں نے کہاکہ میں سمجھا نہیں توانہوں نے وضاحت کی اورکہا کہ موبائل ویکسین صرف صوبائی دارالحکومت میں کام کررہی ہے اس لیے اگرحکومت یہ دعوی کررہی ہے تو وہ بھی سچ کہہ رہی ہے اورجوکچھ میں بتارہاہوں وہ بھی غلط نہیں کہ ہمارے ہاں یہ سہولت دستیاب نہیں ۔
ان کی یہ بات سن کر میں نے چپ سادھ لی۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بہت شفیق انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم سرکاری منصب پربھی فائز ہیں۔ اس لیے میں انہیں مزید کسی امتحان میں نہیں ڈالناچاہتاتھا’ میں نے بات کارخ موڑنے کے لیے ان سے ان کے والد صاحب کی بیماری بارے پوچھا یہ سوال سن کرتوجیسے وہ تھوڑی دیر کے لیے کھوسے گئے ‘میں ان کے چہرے کوپڑھنے کی کوشش کرنے لگا چندساعت بعدوہ بولے اورکہا کہ ہم ڈاکٹرجسے عام لوگ اپنامسیحاسمجھتے ہیں افسوس ہم میں سے اکثر اس لائق نہیں کہ اسے مسیحا پکاراجائے ‘انہوں نے کہاکہ میرے والدصاحب کوجب اپنی بیماری کاپتہ چلا توانہوں نے مجھ سے کہا کہ خدارا مجھے ہسپتال نہ لے کرجانا’ میں اپنے بیڈروم میں عزت کی موت مرناچاہتاہوں ‘ایک لمحہ کے لیے تومیں نے بھی سوچاکہ ابوجی کہہ تو ٹھیک رہے ہیں لیکن دوسرے ہی لمحہ یہ خیال آیا کہ باقی فیملی ممبران کیاکہیں گے خوداتنابڑا افسرہے اوراپنے والد کوعلاج کے لیے کسی ہسپتال میں نہیں لے جارہا’میں نے اپنے ابوکی خواہش کے خلاف انہیں ہسپتال لے جانامناسب سمجھا ‘آپ بھی جانتے ہوں گے ہرہسپتال میں سینئرڈاکٹرز کم ازکم ایک باروارڈ یاکمرے کاوزٹ کرتے ہیں میرے والد صاحب کودیکھنے کے لیے بھی پروفیسرصاحب تشریف لائے۔ میں اس وقت موجودتھا جب انہوں نے والدصاحب کی ہسٹری پڑھی تومیں نے ان سے پہلے وزٹ کرنے والے پروفیسر صاحب کی تجویز کردہ ایک دوائی بارے بتایا کہ یہ غلط طورپرتجویزکردی گئی ہے ان پروفیسر صاحب نے میری اس بات کی تائید کی لیکن اس کوکاٹنے یا اس دوائی کو بند کرکے اس کی جگہ متعلقہ دوائی تجویز نہ کی اورآگے بڑھ گئے۔ ان کے اس رویہ سے میں سوچ میں پڑگیا کہ آج جب میں اس محکمہ کااعلی ترین آفیسر ان پروفیسر صاحبان کے سامنے بے بس ہوں توعام لوگوں کے ساتھ کیاحشر کرتے ہونگے۔ وہ اتنی بات کہنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئے چائے کی چسکی لی اورپھربولے کہ والدصاحب کے انتقال کے بعد وہی پروفیسر صاحب اگلے روز میرے دفتر تشریف لائے اورمجھ سے معذرت کرنے لگے میں نے کہاکہ پروفیسر صاحب معذرت کرنے کی ضرورت نہیں بس آپ یہ بتادیں کہ آپ نے وہ غلط دوائی کاٹنے کی بجائے اسے جاری کیوں رکھا۔ جس پروہ پروفیسر صاحب کہنے لگے کہ جس نے وہ دوائی لکھی تھی ان کواچھی نہ لگتی وہ ناراض ہوجاتے ‘میں نے کہاکہ آپ ان کی ناراضگی سے بچنے کے لیے میرے والدصاحب کی جان لیناچاہتے تھے۔ میرے اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ وہ معافی تلافی مانگتے رخصت ہوگئے۔
وہ صاحب رکے اور پھر افسوس بھرے لہجے میں بولے جس پروفیسر صاحب نے میرے والد صاحب کوتجویز کی گئی غلط دوائی صرف اس لیے نہ کاٹی تھی کہ تجویز کرنے والا ڈاکٹر ناراض نہ ہوجائے وہ یہ بات بھول گیاتھا کہ ایک ہستی اوپربھی بیٹھی ہے جوناراض ہوجائے تودنیا کی کوئی طاقت راضی نہیں کرسکتی۔آفیسر نے ٹھنڈاسانس بھرا اور کہا کہ۔۔ جانتے ہواس پروفیسر کاکیاانجام ہوا’میں نے نفی میں سر ہلا دیا اور کہا بتائیں کیاہوا’ انہوں نے کہا وہ مکافات عمل کاشکارہوئے’میرے والد صاحب کی وفات سے دوماہ بعدوہ بھی غلط علاج کی بھینٹ چڑھ گئے اورافسوس کامقام یہ ہے کہ ایک پروفیسر کے غلط تجویز کیے گئے علاج کو درست کرنے کی بجائے 6 پرفیسرز نے روکنا مناسب نہ سمجھا اور اس پہلے پروفیسر کی ناراضگی سے بچنے کے لیے ان کی غلطی کی نشاندھی نہ کی جس کے نتیجے میں وہ اللہ کوپیارے ہوگئے ان کی وفات کے بعد جتنی مرضی انکوائریاں اورسزائیں ہوتی رہیں جانے والے نے کہا ں لوٹ کاآناہے۔ وہ پروفیسر صاحب تو مکافات عمل کا شکار ہوچکے۔ انہوں نے کہاکہ ہم مکھی پرمکھی مارنے والے رویے کوترک کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے لیکن ہم کیاکریں۔ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ہم فیلڈ کے لوگ کچھ کرنابھی چاہیں تونہیں کرسکتے۔ ہمیں جواختیارات کالالی پاپ دیاگیاتھا وہ چوستے چوستے اب ”ذائقہ ” کھوبیٹھا ہے۔ اس لیے حکومت سے درخواست ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ بھی مکافات عمل کاشکارہو کچھ کرگزرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔