... loading ...
(مہمان کالم)
ایڈم نوسیٹر
وہ بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کرتے ہیں، سفارت کاروں سے ملتے ہیں، حال ہی میں انہوں نے ایک ڈیم کا افتتاح کیا ہے جہاں حب الوطنی سے لبریز تقریر میں طالبان کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کرنے کا عزم دہرایا مگر خطرات میں گھرے اپنے ملک کے مستقبل پر صدر اشرف غنی کو کس حد تک کنٹرول حاصل ہے؟ سیاستدانوں، تجزیہ کاروں حتیٰ کہ عام شہریوں میں بھی ان کے اپنے مستقبل کے بارے میں بحث جاری ہے بلکہ اب تو بڑی حد تک یہ سوال واضح ہو چکا ہے۔ جانز ہاپکنز، برکلے، کولمبیا کے تعلیم یافتہ‘ عالمی بینک اور اقوام متحدہ میں کام کرنے جیسا شاندار پس منظر رکھنے کے باوجود ا?ج کل اشرف غنی تنہائی اور گمنامی میں جا رہے ہیں۔
اشرف غنی آج کل مٹھی بھر مشیروں کے محتاج ہیں اور ٹی وی پر خبریں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ان کے اتحادی بڑی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ ان باتوں سے اس ملک کی مشکلات کی عکاسی ہو رہی ہے جہاں شدت پسندی کو عسکری لحاظ سے برتری حاصل ہے، یو این او کے مطابق جہاں کی نصف سے زائد آبادی بھوک اور افلاس میں پھنسی ہوئی ہے، جہاں حکومتی اخراجات کا بڑا حصہ بیرونی امداد سے پورا ہوتا ہے، جہاں حکومت کمزور ہے اور ملک کرپشن کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ دوسری طرف امریکا اپنی بچی کھچی فوج بھی افغانستان سے نکال رہا ہے جس کے نتیجے میں افغان سکیورٹی فورسز کے شکست کھانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ صدر جو بائیڈن کے نائن الیون تک اپنی فوج نکالنے کے پلان سے افغانستان کی طویل جنگ کے خاتمے کے اشارے مل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عسکری مشیروں کے مشورے بھی مسترد کر دیے ہیں کہ اس انخلا سے دہشت گردی کے وہی خطرات پھر سے سر اٹھا لیں گے جن کے خاتمے کے لیے ہم نے بیس سال پہلے کئی ملین فوجی یہاں بھیجے تھے۔ اشرف غنی کے بارے میں افغان انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل کہتے ہیں کہ وہ ایک مایوس کن صورتحال میں پھنس چکے ہیں۔ ’’ہم کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ سکیورٹی بہت ہی کمزور ہے، ہر چیز کمزور تر ہو چکی ہے اور طالبان اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں‘‘۔ امریکا نے بھی خود کو اشرف غنی سے دور کر لیا ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے طالبان، افغان وار لارڈز اور خطے کے پاور بروکرز کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔ افغان پارلیمنٹ دو مرتبہ ان کا بجٹ مسترد کر کے ان پر عدم اعتماد کر چکی ہے۔ ان کے حریف طالبان اشرف غنی سے ڈیل کرنے کی پیشکش مسترد کر چکے ہیں۔ انہیں ملنے والا مینڈیٹ شروع دن سے ہی کمزور تھا، ان کی انتخابی فتح کے موقع پر ووٹرز کا ٹرن آئوٹ صرف18.7 فیصد تھا جو مزید سکڑ چکا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے امریکی حکام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے۔ ان کے قریبی ساتھی بھی ان سے متنفر ہو چکے ہیں کیونکہ وہ اپنے حریفوں کے ساتھ نرمی برتنے کے مشورے کو مسلسل مسترد کر رہے ہیں۔ ان کے سیاسی مرتبے کو اکثر لوگ ’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے انہیں جو خط لکھا ہے اس میں انتہائی توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس طرح کی زبان کسی سربراہ ریاست تو درکنار کسی ا سکول کے طالبعلم کے ساتھ بھی نہیں بولی جاتی۔ ’’مسٹر پریذیڈنٹ، میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ میں تم پر زور دیتا ہوں، آپ اپنا اثرو رسوخ کھو چکے ہیں‘ وغیرہ‘‘ ایک افغان تھنک ٹینک کے سربراہ اور سابق صدر حامد کرزئی کے کزن حکمت خلیل کرزئی کہتے ہیں ’’ایک افغان کے طور پر اس توہین کے آپ خود ذمہ دار ہیں مگر میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ آ پ اسی کے مستحق تھے‘‘۔ جو بائیڈن حکومت اس وقت کثیر ملکی مذاکرات کو ترجیح دے رہی ہے جو اس مہینے کے آخر میں استنبول میں ہو رہے ہیں تاکہ اس پر مزید پیشرفت ہو سکے۔ امریکی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں سردست ایک عبوری حکومت قائم ہو جائے جو اگلے الیکشن ہونے تک ملک کا نظم و نسق چلائے۔ اس سلسلے میں ایک ڈرافٹ لیک ہوا ہے جس کے مطابق عبوری حکومت میں طالبان اور موجودہ افغان حکومت کے ارکان پاور شیئرنگ کریں گے۔ اس قسم کا سیٹ اپ قائم کرنے کے لیے اشرف غنی کا منصب اقتدار سے دستبردار ہونا لازمی ہے مگر وہ اب تک اس تجویز پر غور کرنے کے بجائے اسے یکسر مسترد کر چکے ہیں۔ اس کے جواب میں اشرف غنی نے اپنا الگ پلان تیار کیا ہوا ہے جسے وہ جلد ریلیز کرنے والے ہیں۔ اس پلان کے مطابق سب سے پہلے جنگ بندی ہو گی جس کے بعد ایک عبوری حکومت برائے امن قائم ہوگی‘ اس کے بعد الیکشن کرائے جائیں گے جس میں اشرف غنی حصہ نہیں لیں گے۔
ستمبر 1996ء کا تصور کریں جب طالبان کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر کابل میں داخل ہو گئے تھے۔ 83 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے صدارتی محل جس کے گرد سات حفاظتی حصار قائم کیے گئے ہیں‘ کے اندر مقیم اشرف غنی کے قریبی ساتھیوں اور رفقا کا حلقہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ مہینے جب ایک ملیشیا نے فوجی ہیلی کاپٹر مار گرایا تو انہوں نے اپنے وزیر داخلہ کو برطرف کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے وزیر خزانہ کو بھی برخاست کر دیا ہے۔ ایک سابق اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ حقائق سے بالکل بے خبر ہیں کہ اس وقت ملک میں کیا ہو رہا ہے؛ تاہم صدر غنی کے مشیر حمد اللہ محب اس تجزیے کو مسترد کرتے ہیں۔یہ تنقید بھی اس سیاسی اشرافیہ کی طرف سے ہو رہی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ اسے اقتدار سے بالکل دور کر دیا گیا ہے۔ بعض سابق حکام کے خیال میں اشرف غنی کو کم اہم اور معمولی امور مملکت میں الجھا دیا گیا ہے مثلاً وہ عسکری معاملات میں ملوث ہو رہے ہیں اور اس ضمن میں مقامی پولیس چیف کی تقرری جیسے فیصلے ذاتی حیثیت میں کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی مہینوں سے کابل میں سرکاری فوج اور اقلیتی گروہ کے وار لارڈز کے درمیان جنگ جاری ہے جس کے دوران مارچ میں ایک افغان فوجی ہیلی کاپٹر بھی مار گرایا گیا۔ ایک سینئر افغان سکیورٹی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’’اسی وجہ سے ہم ایسی صورتحال سے گریز کر رہے تھے۔ ہم پہلے ہی وسیع تر جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اورا?پ یہاں ایک نئی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اگر امریکا اپنی فوج یہاں سے نکال لیتا ہے اور کوئی سیاسی معاہدہ بھی نہیں ہوتا تو ہم شدید مشکل صورتحال میں گھر جائیں گے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔