وجود

... loading ...

وجود

روس اور یوکرائن کی سرحدی کشیدگی

جمعه 16 اپریل 2021 روس اور یوکرائن کی سرحدی کشیدگی

(مہمان کالم)

اینڈریو کریمر

بھاری اسلحے سے لیس مسلح بکتر بند گاڑیاں جنوبی روس کی ایک اہم شاہراہ پر رواں دواں تھیں۔ بڑی بڑی سڑکوں پر ٹینکوں کی قطاریں کھڑی نظر آرہی تھیں۔ روسی فوج کے بھاری توپ خانے کو ٹرین کے ذریعے منتقل کیا جا رہا تھا۔ ایک مہینے سے فوجی نقل وحرکت کی وڈیوز سے روسی سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے جسے صارفین شیئر کر رہے ہیں اور ریسرچرز اسے اپنے لیے محفوظ کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک یہی با ت جاننے کی ٹوہ میں لگے ہوئے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیا اور کیوں ہو رہا ہے۔ امریکی حکومت کے مطابق اس نقل و حرکت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ گزشتہ سات سال کے دوران یوکرائن کی سرحد پر یہ روس کی مسلح بری افواج کی سب سے بڑی تعیناتی ہے۔ روسی پالیسیوں کے منقسم تجزیہ کاروں کے مطابق شاید یہ دیکھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ صدر جو بائیڈن کی نئی حکومت اس نقل و حرکت پر اپنا کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ شاید یہ یوکرائن کی داخلی سیاست سے روسی اثرو رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کے خلاف کریملن کا جوابی وار ہے یا سرحد پار کسی حقیقی کارروائی کا شاخسانہ۔ اس نقل وحرکت کا ایک داخلی محرک بھی ہو سکتا ہے۔ عوامی سطح پر جو فوجی تیاری کی جا رہی ہے جس میں دیو ہیکل ٹینکوں سے لدی ٹرینیں دن کی روشنی میں یوکرائن کی سرحد کی طرف جا رہی ہیں اس کا مقصد صدر پیوٹن کے بڑے حریف الیکسی نیوینلی کی جیل میں حراست اور بگڑتی ہوئی صحت سے عوام کی توجہ ہٹانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت یورپ کا واحد زندہ تنازع یوکرائن کی جنگ ہے؛ تاہم 2015ء سے اس کی شدت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند اور یوکرائن کی فوج 250 میل طویل فرنٹ پر‘ جسے لائن آف کنٹیکٹ کہا جاتا ہے‘ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر گولا باری کر رہے ہیں مگر زیادہ پیش قدمی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پچھلے مہینے دو طرفہ جھڑپوں میں تیزی آگئی اور مارچ کے آخر میں شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک یوکرائن کے 9 فوجی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جمعہ کے روز کریملن نے جان بوجھ کر صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کی جب اس نے انسانی حقوق کو بنیاد بناکر فوجی مداخلت کا جواز پیدا کرنے کی باتیں شروع کر دیں اور کھلے الفاظ میں اس خطے میں ایک نئی جنگ کے امکانات پیدا ہونے کے حوالے دینا شروع کر دیے۔ روسی حکومت کے ایک ترجمان ڈیمٹری ایس پیسکوف نے کہا کہ یوکرائن کی حکومت اس علاقے میں روسی زبان بولنے والے باشندوں کی نسل کشی کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے‘ اس لیے روس کو صورتِ حال کو کنٹرول کرنے اور اس بحران کے حل کے لیے فوری طور پر فوجی مداخلت کرنا پڑے گی۔ انہوں نے اس نسل کشی کا موازنہ 1990ء کی دہائی میں بلقان ریجن میں بڑے پیمانے پر ہونے والی نسل کشی کے ساتھ کرنا شروع کر دیا؛ اگرچہ وہاں ابھی تک ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ مستقبل قریب میں یوکرائن کی سرحد پر کوئی ایسی سنگین قسم کی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ روسی ترجمان ڈیمٹری پیسکوف کا کہنا ہے ’’یوکرائن کے اندر لائن آف کنٹیکٹ پر صورتحال انتہائی مخدوش شکل اختیار کر چکی ہے اور اس علاقے میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اگر اس ریجن میں کسی قسم کی جنگی کارروائی شروع ہو گئی تو ان حالات میں دنیا کا کوئی بھی ملک اس خونریزی سے غیر جانبدار اور لاتعلق نہیں رہے گا۔

ان حالات میں روس سمیت ہر ملک حفاظتی اقدامات کرنے پر مجبور ہو جائے گا‘‘۔ ایک ہفتے کے دوران یہ روس کے دوسرے سینئر عہدیدار کی طرف سے ایسا بیان سامنے آیا ہے جس میں 1995ء میں بوسنیا ہرزیگووینا میں سربرینکا کے قتل عام کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی قتل عام پر ہونے والی عالمی مداخلت کی آڑ میں یوکرائن میں انسانی بنیادوں پر روس کی عسکری مداخلت کا جواز پیش کیا جائے گا۔ یوکرائن میں امن مشن پر ہونے والے مذاکرات میں روس کے چیف سہولت کار ڈیمٹری کوزاک نے روس کی ممکنہ فوجی مداخلت کے لیے یہ جواز پیش کیا کہ اس کا مقصد روس اور یوکرائن کی دْہری شہریت رکھنے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ 2019ء سے روس یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں رہنے والے علیحدگی پسند باشندوں کو روسی شہریت سے نواز رہا ہے۔ روسی حکام الزام لگاتے ہیں کہ روس نہیں‘ یوکرائن نے اس کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ کی خاتون ترجمان ماریہ زخا روفا نے یوکرائن پر الزام عائد کیا کہ وہ لائن آف کنٹیکٹ پر بھاری افواج جمع کر رہا ہے اور یوکرائن کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ شاید اس تنازع کو بزورِ طاقت طے کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت جنگ کے بارے میں زور وشور سے باتیں ہو رہی ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ بات چیت میں یہ مطالبہ کیا کہ وہ روسی فوج کو سرحد سے واپس بلائیں۔ دوسری طرف وائٹ ہائوس کی خاتون ترجمان جین پساکی نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر بائیڈن کی حکومت اس نقل و حرکت پر خاصی تشویش میں مبتلا ہے۔ جین پساکی کا کہنا ہے ’’2014ء کے بعد سے یوکرائن کی سرحد پر اس سے زیادہ روسی فوج کا اجتماع نہیں دیکھا گیا اور جھڑپوں میں یوکرائنی فوج کے سپاہی موت سے ہمکنار ہو رہے ہیں‘‘۔ ٹینکوں کے یوکرائن کی سرحد پر جانے سے پہلے روس امریکا کے اس عزم پر اپنا ممکنہ ردعمل دے رہا تھا کہ بائیڈن حکومت برسر اقتدار آکر روس کے خلاف سخت موقف اپنائے گی۔ بائیڈن حکومت نے دھمکی دی تھی کہ امریکی الیکشن میں روسی مداخلت اور سائبر حملوں کے خلاف امریکا معاشی پابندیوں کی صور ت میں شدید ردعمل ظاہر کرے گا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب روس واقعی امریکا کو ا?نکھیں دکھا رہا ہے کہ اب جبکہ روسی ٹینک یوکرائن کی سرحد تک پہنچ گئے ہیں‘ وہ اپنی دھمکیوں پر عمل کر کے دکھائے۔ روسی سیاست کے ایک ماہر کانسٹینائن ایگرٹ کہتے ہیں ’’جب امریکا نے روس کے خلاف سائبر حملوں کی دھمکی دی تو صدر پیوٹن نے جنوری میں یہ اشارے دینا شروع کر دیے تھے کہ آگے مشکل حالات آنے والے ہیں۔ روس کے سرکاری ٹی وی نے یوکرائن کی پارلیمنٹ میں رونما ہونے والے ایک واقعے کی بھرپور کوریج کی جب ایک خاتون رکن پارلیمنٹ انا کولیسنک نے ایک فوجی کمانڈر کی بریفنگ سننے کے بعد اپنے کسی عزیز کو فون پر میسج بھیجا کہ ’’اب ا س ملک سے الگ ہونے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ وجود پیر 23 دسمبر 2024
مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ

کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی وجود پیر 23 دسمبر 2024
کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی

عبادتگاہوں کا قانون اورچیف جسٹس سے توقعات وجود پیر 23 دسمبر 2024
عبادتگاہوں کا قانون اورچیف جسٹس سے توقعات

خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں! وجود اتوار 22 دسمبر 2024
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں!

عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق وجود اتوار 22 دسمبر 2024
عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر