... loading ...
(مہمان کالم)
مجیب مشال
جب گزشتہ برس بھارت میں کووڈ کا خطرناک حملہ ہواتو ملک میں دنیا کا سخت ترین لاک ڈائون نافذ کر دیا گیا تھا۔وارننگ بڑی واضح تھی کہ ایک ارب تیس کروڑ کی ا?بادی میں کورونا وائرس کا پھیلنا تباہ کن ثابت ہوگا۔اگرچہ لاک ڈائون میں ناقص انتظامات کئے گئے تھے جس کے نتیجے میں سنگین تباہی دیکھنے میں آئی مگر پھربھی یہ تمام کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں اورکورونا وائرس سے متاثرین اور مرنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔تاہم ماہرین نے متنبہ کیا کہ جیسے ہی کورونا کی نئی لہر ائی تو حکومت کی ناقص اپروچ سنگین بحران کو جنم دے سکتی ہے۔اب وہ بحران بھارتی عوام کے سامنے کھڑاہے۔بھارت نے اتوار کورپورٹ کیا تھا ہے کہ کووڈ کا پھیلائو کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور ہر روز 152,000سے زائد کیسز سامنے آرہے ہیں۔اگرچہ مرنے والوں کی شرح ابھی کم ہے مگر ا س میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔اتنی بڑی ا?بادی کو ویکسین لگانابھی جان جوکھوں کا کام ہے اور یہ عمل بہت سست روی سے جاری ہے۔ہسپتالوں میں بیڈز کی بھی شدید قلت ہو رہی ہے۔
بھارت کے کئی حصوں میں دوبارہ لاک ڈائون لگایا جا رہا ہے اورسائنسدان کورونا کی نئی اقسام خاص طور پربرطانوی اور جنوبی افریقہ سے پھیلنے والے کورونا وائرس کی شناخت کرنے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے کورونا کے پھیلائو میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔تاہم بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ بعض مقامات پر کورونا وائر س کے حامل افراد کی نشاندہی ناممکن ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کو کورونا وائر س کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ایک کامیاب ملک سمجھا جاتا تھا مگر حکومت کے غلط اقدامات کی وجہ سے اب اس کا شمار دنیا کے سب سے متاثرہ ممالک میں ہو رہا ہے۔وبائی امراض کے ماہرین بار بار یہ وارننگ دے رہے ہیں کہ کووڈ کے خلاف بھارت کی مسلسل ناکامی کی وجہ سے بھارت کو عالمی مضمرات کاسامنا کرناپڑے گا‘مگر بھارت جہاں کے سیاست دان ابھی تک پچھلے لاک ڈائون کا درد اور اذیت بھگت رہے ہیں انہوں نے نئی پابندیوں کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔وہ بڑی بڑی الیکشن ریلیز نکال رہے ہیں اور اس طرح عوام کو ایک غلط پیغام بھیج رہے ہیں۔
بھارت میں ویکسین کو بہت تاخیر سے متعارف کرایا گیا اور اسے پے در پے دھچکے بھی لگتے رہے حالانکہ بھارت کو دنیا کاایک بڑا فارما سیوٹیکل مینو فیکچرر کہا جاتا ہے۔کورونا وائر س سے متاثرہونے والے بھارتی شہریوں کی کم تعداد نے یہ تاثر پیدا کر دیا کہ کورونا کی شدید لہر گزر چکی ہے۔بھارتی نوجوانوں کی کم شرح اموات اور کورونا متاثرین میں کم علامات نظر آنے کی وجہ سے یہ غلط تاثرپیدا ہو گیا تھا کہ کورونا کی نئی لہر بھی اتنی مہلک نہیں ہوگی۔ وبائی امراض کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت بھارت کو انفیکشن کنٹرول کرنے کے لیے ایک ہم ا?ہنگ اور مستقل مزاج قیادت کی ضرورت ہے تاکہ اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے کے لیے اسے مناسب وقت مل سکے۔پبلک ہیلتھ فائونڈیشن آف انڈیا کے چیئر مین ڈاکٹر سری ناتھ ریڈی کہتے ہیں کہ اس میں عوامی رویے اور سرکاری رویے کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔اگر چار ہفتے یا چھ ہفتے کے لیے کوئی کارروائی کرتے ہیں‘ پھر اپنی کامیابی کا اعلان کر دیتے ہیں اور ایک بار پھر اس بحران کے لیے اپنے دروازے کھول دیتے ہیں تو ایک مشکل صورتحال میں پھنس جاتے ہیں۔ کووڈ سے متاثرہ بھارت پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ بن جائے گا۔ حکومت نے ملکی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے ویکسین کی برآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ سنٹر فار ڈیزیز ڈائنامکس ‘جس کے ہیڈکوارٹرز واشنگٹن اور نئی دلی میں ہیں کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رامنان لکشمی کہتے ہیں کہ اگر ویکسین لگانے کی رفتار میں اضافہ نہ کیا گیا تو بھارت کو اپنی ستر فیصد آبادی کوویکسین لگانے کے لیے دو سال سے زائد کا عرصہ لگ جائے گا۔ ڈاکٹر لکشمن کہتے ہیں کہ اگر بھارت میں کورونا کیسز میں اضافہ ہوتا رہا تو اس بات کا انحصار کہ دنیا کووڈ کی وبا سے کیسے نمٹتی ہے اس بات پرہوگا کہ بھارت کووڈ کے بحران سے کیسے نبرد ا?زما ہوتا ہے۔اگر کووڈ بھارت سے ختم نہیں ہوتا تو اس کا دنیا سے بھی خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔گزشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس امکان کو مسترد کر دیا تھاکہ ملک میں ایک اور مکمل لاک ڈائون لگانا پڑے گا۔اْن کاکہنا تھا کہ بھارت کووڈ کی اس نئی لہرپر ٹیسٹ ‘ٹریک اور ٹریٹ کے ذریعے قابو پالے گا۔نریندر مودی کے اعلیٰ حکام نے الزام لگایا ہے کہ سارا کھیل ریاستی حکومتوں کی بد انتظامی نے خراب کیا ہے‘ رہی سہی کسر عوام کی بے احتیاطی نے پوری کر دی جو ماسک پہنتے ہیں نہ احتیاطی فاصلہ رکھتے ہیں جبکہ کورونا کی نئی لہر پوری شدت سے حملہ ا?ور ہے اور بھارت دوسرا بڑا ملک ہے جہاں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ کورونا وائرس کے متاثرین پائے جاتے ہیں۔لاک ڈائون کی وجہ سے معاشی بدحالی بھی تباہ کن شکل اختیار کر چکی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران کورونا کے کیسز کو گھٹا کر پیش کیاگیا تھا۔بھارت میں ہونے والی اموات کی تعداد کبھی امریکہ یا برطانیہ کے برابر نہیں دکھائی گئیں۔بھارتی لیڈروں نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا تھاگویا کووڈ کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر لکشمن نرائن کہتے ہیں کہ اس مرتبہ درست ٹیسٹنگ کی وجہ سے متاثرین کی صحیح تعداد سامنے ا?ئی۔شہری علاقوں میں رہنے والی ا?بادی میں کورونا کیسز کی تعداد زیادہ نکلی جہاں پچاس کروڑ افراد میں سے تیس کروڑ شہری کورونا مثبت پائے گئے۔جب تک ان میں امیونٹی بڑھی وائرس دیگر علاقوں تک پھیل گیا۔ڈاکٹر لکشمن نرائن کا مزید کہنا تھا کہ یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ بھارت جیسے ملک میں کورونا کے چالیس کروڑ سے زائد متاثرین موجود ہیں۔کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کے بار ے میں بھی گمر اہ کن اعدادو شمار دکھائے جا رہے ہیں۔بھارتی حکومت کی طرف سے جواعدادو شمار پیش کیے گئے ان کے مطابق اب تک بھارت میں کورونا وائرس کی وجہ سے کل ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔بھارت کی ویکسین لگانے کے حوالے سے تیاری بھی اتنی اچھی نہیں تھی جتنی نظر آتی تھی۔ویکیسن لگانے کی مہم کو فروغ دینے کے لیے کئی اعلیٰ سیاسی عہدیداروں نے عوام کے سامنے ویکسین لگوائی ہے دوسری طرف اپنی انتخابی مہم کے دوران لوگوں کو محتاط رہنے پر زور دیتے رہے ہیں۔نریندر مودی نے بیس سے زائد انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا ہے جس میں ہزاروں افراد ماسک پہنے بغیر شریک ہوتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔