... loading ...
رنگ صحرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راناخالد قمر
حکومت اوراس کو لانے والی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان جاری میچ شروع میں تو یک طرفہ دکھائی دیتاتھا۔ نوازشریف کی مجھے کیوں نکالا سے ووٹ کوعزت دو تک کی مہم بھی خاطرخواہ نتائج دکھانے میں کامیاب نہ ہوئی توشہبازشریف کوآگے لایاگیا۔نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز سمیت جیل چلے گئے اس دوران پارٹی کی کمان میاں شہبازشریف کے ہاتھ میں رہی وہ اپنی ”طرز”کی سیاست کرتے رہے ان کے کسی فیصلے کو پارٹی یاخاندانی سطح پرکسی جگہ چیلنج نہ کیاگیا۔وہ قومی اسمبلی کے فلورپرایک آدھ جذباتی تقریرکرکے اپنے” سپورٹرز”کالہوگرماتے اوردادپاتے رہے وہ کبھی کبھار “اشاروں” کی زباں بھی بولنے لگتے جسے شہبازگل ‘فردوس اعوان جیسے مخالف سی وی پیش کرنے کی کوشش قراردیتے۔ حمزہ شہباز شریف بھی اپنے والدصاحب کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بہت محتاط گفتگوکرتے اوراگرکبھی کوئی رپورٹر اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے سوال داغ دیتاتوحمزہ شریف منہ”میچ”لیتے باپ بیٹے کی اس محتاط سیاسی اننگز کے باوجودکپتان اوراسکی ٹیم کے باؤلر ان دونوں کوباؤنسر کرانے سے بازنہ آتے یوں لگتا کہ جیسے عمران خان ان دونوں کواپنے لیے نوازشریف سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور وہ ان کے ”بندوبست”کے لیے جتن کرتے رہتے آخر کاروہ اس میں کامیاب ہوگئے پہلے بیٹاجیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیااورپھر ابوجی کانمبربھی لگ گیا۔
شہبازشریف اورحمزہ کی جیل یاترا سے عمران خان کوقدرے سکون ملالیکن یہ بھی عارضی ثابت ہوا کہ مریم نوازشریف کاٹویٹراچانک فعال ہوگیا ساتھ ہی مریم نوازشریف نے سیاسی میدان کوبھی گرمانا شروع کردیا وہ وقتی ریلیف جوشہبازشریف کی جیل یاترا سے خان کوملاتھا وہ غارت ہوتادکھائی دیااسٹیبلشمنٹ کی شہبازشریف سے اسٹیبلشمنٹ کی ملاقاتوں بارے زرائع سے خبریں آنے لگیں کہ شہبازشریف کوفلاں پیشکش ہوئی۔ اب یہ مریم نواز کے فعال ہونے کا خوف تھا یا نواز شریف کا بیانیہ وجہ بنی یہ اللہ ہی جانتا ہے البتہ شہباز شریف کوڈرایا’دھمکایا اورلالچ بھی دیاگیا لیکن وہ ہمیشہ کے ضدی انسان کہاں ٹس سے مس ہونے والے تھے انہوں نے آنے والی ہرآفرکی منظوری کے لیے اپنے بڑے بھائی اورپارٹی قائد کی جانب ہی دیکھا کئی ماہ کی ”مشق”بھی ن لیگ کے صدر کو راضی نہ کرسکی اور یوں یہ پہلاراؤنڈ شہبازشریف جیت گئے۔ دوسری جانب عمران خان جو چوروں ‘ڈاکوؤں کوجیل بھیجنے کے نعرے سے اقتدارمیں آئے تھے وہ نیب کی مدد سے پنجاب کے ان دو”سورماؤں ”کوجیل بھیج کراپنے سپورٹرزکویہ باورکرانے میں کامیاب رہے کہ وہ جیت گئے ہیں اور اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جس کا ملکی سیاست میں ہمیشہ سے ہی کرداررہاہے اس نے جوسفرعمران خان کے ساتھ 2011 میں مینارپاکستان کے جلسہ سے شروع کیاتھا وہ انہیں اقتداردلانے تک کامیابی سے مکمل ہوالیکن یہ اس کامیابی کاپہلافیزتھا۔ 2018 ئ کے الیکشن میں عمران خان کی جیت سے جودوسرافیز شروع ہوا وہ اس وقت دشوار ہوگیا جب مولانافضل الرحمان کی قیادت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن اتحادسامنے آیا۔
یہ گذشتہ دو سال میں مقتدرہ کے لیے سب سے بڑاچیلنج تھا۔ ایک جانب تجربہ کارسیاسی قیادت تھی تو دوسری جانب وہ اسٹیبلشمنٹ جس کا ملکی سیاست کو قابو میں رکھنے کا 72 سال کا تجربہ ہے۔ سیاست کے اس میدان میں سیاسی داؤ بیچ چلنے کاآغاز ہواتو سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے گوجرانوالہ کے جلسے میں آرمی چیف اورڈی جی آئی ایس آئی کے نام لے کر انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
وہ اسٹیبلشمنٹ جسے اب تک کسی بڑے چیلنج کاسامنانہیں کرناپڑاتھا اسے خودساختہ جلاوطن نوازشریف نے دیوارکے ساتھ لگادیا۔ سیاست کا میدان چونکہ گرم ہو چکا تھا اس لیے سیاسی ”کھلاڑی” اپنی اپنی چالیں چلنے لگے کبھی پیادہ مارا جاتاتوکبھی وزیرکی باری لگ جاتی۔ نوازشریف اقتدارسے محرومی کے بعدووٹ کوعزت دو کابیانہ لے کرچلے تھے اپنی سیاسی چالوں اوراپنی بیٹی مریم نوازشریف کی سیاسی میدان میں زوردارانٹری سے وہ اپنا بیانیہ عوام سے منوانے میں کامیاب رہے لیکن سیاست کی بساط ابھی پلٹی نہیں تھی کہ مقتدرہ نے ایک بہت خطرناک چال چلی وہ عمران خان کے ذریعے سندھ حکومت پردباؤ بڑھانے لگی۔ اے جی مجید سے آصف علی زرداری تک سبھی کورٹ کچہریوں کے چکرکاٹنے لگے آصف علی زرداری بھی ”ماہر”کھلاڑی ہیں انہوں نے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے پی ڈی ایم کے فورم کوبھرپور اندازمیں استعمال کرنے کاپروگرام بنایا ادھرمولانافضل الرحمان ‘مریم نوازشریف اوردیگرقائدین حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پرچڑھائی کرتے ادھرآصف علی زرداری ایک قدم آگے بڑھ جاتے۔ وہ غیرمحسوس انداز میں پیش قدمی کرتے گئے اورپھر وہ دن آگیا جب سیاست کی شطرنج پرسب سے بڑی ”چال”چلی گئی آصف علی زرداری جو پی ڈی ایم میں اس لیے شامل ہوئے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ پچھاڑیں گے انہوں نے اس اتحاد کو ہی شہ مات دیدی جو عمران اور اس کے سر پرستوں کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ ان کی ایک ہی چال سے پی ڈی ایم تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اورجوکام عمران خان ‘مقتدرہ مل کربھی تین سال میں نہ کرسکے تھے وہ آصف علی زرداری نے ایک ہی چال سے کردیا۔ اس طرح عمران خان ‘ آصف علی زرداری اور مقتدرہ مشترکہ طورپرجیت گئے۔ اس جیت سے بھی دو معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ ایک جانب اگر پی ڈی ایم کو وقتی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو دوسری جانب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک صفحہ بھی اب “ایک” نہیں رہا۔
اس صفحے پر اب عمران خان اکلوتے نہیں ہیں بلکہ آصف علی زرداری بھی “سوار” ہو چکے ہیں۔ اب اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ اگر عمران خان۔ اسٹیبلشمنٹ اور آصف علی زرداری جیت چکے ہیں تو پھر شہباز شریف اور ان کے صاحب زادے کے ہاتھ کیا آیا کیا ان کو اپنے مفاہمتی بیانیے سمیت شکست ہوئی۔ جی نہیں ایسانہیں ہے شہبازشریف ‘حمزہ شہباز تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود اپنے قائد نوازشریف سے وفادار رہے۔ اس طرح وہ دونوں بھی جیت گئے۔ نوازشریف اور مریم نوازشریف جس بیانیے کولے کرچلے تھے وہ منوانے میں کامیاب ہوئے اس طرح وہ بھی جیت گئے ‘عمران خان جو نہیں چھوڑوں گا جیسے نعرے کے ساتھ اقتدارمیں آئے تھے وہ نوازشریف ‘آصف علی زرداری سے شہبازشریف اور حمزہ شہبازشریف تک تقریبا اپنے تمام مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے میں کامیاب ہوئے اس لیے وہ بھی جیت گئے۔ آصف علی زرداری اپنی سندھ حکومت بچانے اورآئندہ وفاقی حکومت کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اس طرح وہ بھی جیت گئے ‘ اسٹیبلشمنٹ کے لیے پی ڈی ایم دردسر بناہواتھا اس کا”مکو” ٹھپ دیا گیا۔ اسی بنیاد پر وہ عمران خان کی حکومت کوبچانے میں کامیاب ہوگئی اس طرح وہ بھی جیت گئی اگرہم ان تمام مرکزی کرداروں کی سیاسی چالوں اورداؤ پیچ کوغورسے دیکھیں توہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ ۔۔۔ اور سبھی جیت گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔