... loading ...
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کوتشکیل دیئے ابھی کچھ ہی وقت گزارتھاکہ ن لیگ کی ایک اعلی سطحی میٹنگ میں یہ خدشہ ظاہر کیاگیا کہ پیپلزپارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی اس اتحاد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ماہ نومبر2020 کوان خدشات بارے ن لیگ کے قائدمیاں نوازشریف کوآگاہ کر دیا گیا تھا جس پر انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے بات کی اورانہیں ن لیگ کی تشویش بارے بتایا لیکن مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آصف علی زرداری جس قسم کے حالات سے دوچارہیں وہ ایسا کچھ کرہی نہیں سکتے اس لئے آپ بے فکرہوجائیں مولانافضل الرحمان کی اس بات پر بھی میاں نوازشریف مطمئن نہ ہوئے اوران سے کہا کہ کیا وہ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ آصف علی زرداری دھوکہ نہیں دیں گے نوازشریف کی اس بات پر مولانافضل الرحمان نے آصف علی زرداری کی ضمانت دی ان کے ضامن بننے پرمیاں نوازشریف مطمئن ہوگئے اورانہوں نے اپنی پارٹی سے کہا کہ وہ پی ڈی ایم کے فیصلوں کااحترام کریں اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ماضی کی تلخیوں کوبھلاکرنئی تاریخ لکھیں۔
میاں نوازشریف کی اس ہدایت کے بعد مریم نوازشریف اوربلاول بھٹوزرداری کے درمیان ملاقاتوں کاسلسلہ شروع ہوا اور یہ سلسلہ یہاں تک بڑھا کہ مریم نوازشریف نے بے نظیربھٹو کی برسی کی تقریب میں شرکت کی اور ایک دھواں دھارخطاب کیا ایک طرف پیپلزپارٹی اورن لیگ میں قربتیں بڑھتی جارہی تھیں تودوسری طرف آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک چینل کھول کراپنے لئے ریلیف لینے اسٹیبلشمنٹ کومشکلات سے نکالنے کے عہدوپیماں کررہے تھے ن لیگ کوانہی دنوں یہ بھنک بھی پڑگئی تھی کہ زرداری نے اپنی چال چل دی ہے۔ آپ کویادہوگا کہ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے شہباز شریف سے انکی والدہ کی تعزیت کے لیے ملاقات کی تھی دراصل وہ ایک سیاسی ملاقات اوراسٹیبلشمنٹ کی پیغام رسانی تھی چوہدری نثارعلی خان نے شہبازشریف کوبتایا تھا کہ آصف علی زرداری جس دروازے سے داخل ہوئے ہیں اس سے آپ بھی داخل ہوسکتے ہیں۔ میاں شہبازشریف نے وہ پیغام خواجہ آصف اوربعدازاں شاہد خاقان عباسی کے زریعے میاں نوازشریف کوپہنچایا آپ کویہ بھی یاد ہوگا کہ انہیں دنوں خواجہ آصف نے آصف علی زرداری پراعتماد نہ کرنے کابیان بھی داغاتھا لیکن نوازشریف نے نہ صرف شہبازشریف کوخاموش کرادیا بلکہ خواجہ آصف سمیت تمام رہنماؤں کوپیپلزپارٹی اورآصف علی زرداری کے حوالے سے بیان بازی سے بھی روک دیاتھا نوازشریف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے پتے سینے سے لگاکرکھیلتے ہیں اس لیے انہوں نے دیکھو اورانتظارکرو کی پالیسی اختیار کی ان کاخیال تھا کہ آصف علی زرداری جوکررہے ہیں انہیں وہ کرنے دیاجائے اورنتیجہ کاانتظار کیاجائے وہ سمجھتے تھے کہ جیسے بے نظیربھٹو اورپرویز مشرف کے درمیان خفیہ مذاکرات جس کا نتیجہ بدنام زمانہ این آراو کی صورت میں نکلاتھا جس سے ایک جانب بے نظیربھٹو کوملک میں واپسی کاراستہ مل گیاتھا تواسی بنیاد پرانہیں بھی واپسی کاپروانہ مل گیا تھا اس طرح بغیرکوئی محنت کئے وہ بھی ملک واپس آگئے تھے اس لئے وہی کہانی دہرائی جائے گی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب جب زرداری اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری مذاکرات عمران خان کی وجہ سے تعطل کاشکار ہوئے نوازشریف نے دبائو بڑھا دیا اورکسی نہ کسی بہانے سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کانام لے دیاجس کافائدہ یہ ہوا کہ عمران خان کاوارکارگرثابت نہ ہوا اور اسٹیبلشمنٹ دوبارہ سے زرداری کے قریب جانے پرمجبورہوگئی نوازشریف کوجنوری کے آخر میں یہ بات پتہ چل چکی تھی کہ آصف علی زرداری کے مذاکرات کامیاب ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے دیکھواورانتظارکروکی پالیسی برقراررکھتے ہوئے آصف علی زرداری سے کہا کہ ان کے معاملات طے ہوچکے ہیں اس لیے اس کاخاطرخواہ فائدہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کوپہنچائیں اوراسٹیبلشمنٹ کونئے انتخابات پرقائل کریں آصف علی زرداری نے نوازشریف کی اس بات پر دھیان دینے اور اپوزیشن اتحاد کو فائیدہ پہنچانے کی بجائے ن لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگرجماعتوں کے ساتھ چورسپاہی کا کھیل کھیلناشروع کردیا وہ کبھی گلگت بلتستان کے الیکشن میں کودجاتے اورکبھی ضمنی الیکشن کاڈول ڈال دیتے جب دوسری جماعتیں ہانپتی کانپتی ان کے پیچھے آنے پرمجبور ہوجاتیں تو وہ سینٹ الیکشن کااکھاڑہ سجادیتے اور کسی سے مشورہ کئے بغیر یوسف رضا گیلانی کوسینیٹر اوربعدازاں چیرمین سینٹ بنوانے پرتل جاتے زرداری پی ڈی ایم کی جماعتوں کوتگنی کاناچ نچاتے رہے اوروہ اس کے آگے ناچنے پرمجبورہوتی رہیں ۔
اس ساری گیم میں جوسب سے دلچسپ واقعہ ہوا وہ یہ کہ پی ڈی ایم کی اس کھینچاتانی میں شہبازشریف کوجیل جاناپڑا ایک جانب عمران خان ہرصورت میں شہبازشریف کوسلاخوں کے پیچھے دھکیل کر اپنے راستے کاپتھر ہٹانے کے جتن کررہے تھے تودوسری جانب آصف علی زرداری بھی شہبازشریف کواپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں عمران خان اورآصف علی زرداری ایک پیج پرتھے۔ دونوں کی خواہش پراسٹیبلشمنٹ شہبازشریف کوجیل میں ڈالنے پرمجبورہوئی اوریوں آصف علی زرداری کاراستہ صاف ہوگیا اب آصف علی زرداری ون مین شو کے طورپر اپنے لئے بہت کچھ سمیٹ چکے تھے جبکہ ن لیگ اس ”سہولت ”سے محروم ہوچکی تھی شہباز شریف کے جیل جانے سے ن لیگ پوری طرح زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کی “گیم” سے واقف نہ تھے شائد یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اپنے طے کردہ رول کونبھارہی تھیں اوروہ اسٹیبلشمنٹ پرتابڑتوڑ حملے کرنے میں مصروف تھیں کہ پی ڈی ایم اجلاس میں جب آصف علی زرداری نے نوازشریف کی ملک واپسی کامطالبہ کیاتویہ مریم نواز شریف کے لئے حیران کن تھا جسکا انہوں نے فورا ردعمل دیا۔ اس ردعمل کان لیگ کوکوئی فائدہ ہوایانہیں البتہ پی ڈی ایم کوبہت نقصان ہوا اوراسٹیبلشمنٹ اورآصف علی زرداری کی ”کاوشیں”بارآورثابت ہوئیں۔ اس ساری گیم میں جوسب سے زیادہ گھاٹے میں رہے وہ مولانافضل الرحمان ہیں کہ ایک جانب ان کی دن رات کی محنت رائیگاں گئی پی ڈی ایم ہاتھ ملتی رہ گئی اوردوسری جانب ان کی آصف علی زرداری کے حوالے سے نوازشریف کودی گئی۔۔۔”ضمانت” بھی ضبط ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔