... loading ...
اسرائیل میں دوبرس کے دوران چارعام انتخابات ہو ئے مگر کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی بلکہ معلق پارلیمنٹ وجود میں آتی رہی ویسے تو موجودہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو سیاسی نشیب وفراز کے باوجود2009سے مسلسل اقتدار میں ہیں لیکن حالیہ عام انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی بار تمام جماعتوں کے لیے کسی مسلم عرب جماعت کی حمایت کے بغیر اقتدار حاصل کرنادشوار ہوگیا ہے نتائج کے مطابق حکومتی اتحاد باون جبکہ اپوزیشن اتحاد ستاون نشستیں جیت چکا ہے اور اکثریت ثابت کرنے کے لیے 120 رکنی ایوان میںاکسٹھ اراکین درکار ہیں رواں برس مارچ میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ انتہا پسند یہودی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہواہے جبکہ لبرل یعنی رواداری اور برداشت کی قائل بائیں بازوکی جماعتوں کی عوامی حمایت مزید کم ہوئی ہے یوں مستقبل قریب میں تشدد کی اسرائیلی روش تبدیل ہونے کا مکان کم ہے بلکہ جس نے فلسطینیوں سے نرمی کی تو اُسے اقتدار سے الگ ہونا پڑے گا ۔
حالیہ نتائج کی رو سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں بلکہ حکومت بنانے کے لیے کسی مسلم عرب جماعت کی حمایت کے بغیر آسان نہ ہوگی حکومت سازی کی سب سے پہلے دعوت نیتن یاہو کو مل سکتی ہے مگر وہ کس جماعت کی حمایت حاصل کریں گے کیونکہ اگر وہ یامینہ پارٹی کے سات اراکین کو ساتھ ملا بھی لیتے ہیں تو بھی مطلوبہ اکثریت ثابت نہیں کرپائیںگے مزیدکسی جماعت کو ساتھ ملانا پڑے گا اگر وہ سات نشستوں کی حامل سخت گیر جماعت کو ساتھ ملا تے ہیں جو موجودہ حکمران لیکوڈ پارٹی کی طرح متعصب ہے تو کسی مسلم عرب رہنماکے اپوزیشن لیڈر بننے کا امکان بڑھ جائے گا پہلی بار مسلم عرب جماعتیں اسرائیل میں اہمیت اختیار کر گئی ہیں مگر کیا متعصب صیہونی جماعتیں یہ برداشت کر پائیں گی کہ کسی مسلم عرب کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ملے جونہ صرف حکومت بشمول وزیراعظم پر کھلے عام تنقید کر سکے بلکہ خفیہ ایجنسی موساد کی کاروائیوں سے بھی آگاہ رہے ممکن نہیں ملک کی صورتحال بہت ڈرامائی ہو چکی ہے اور اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار مسلم اراکینِ پارلیمنٹ ِاِتنے اہم ہو گئے ہیں کہ انھیں حکومت سازی میں شریک کرنا مجبوری بن گیا ہے مگر حکومت یا اپوزیشن کا حصہ بنیںدونوں صورتوں میں متعصب یہودی آسانی سے برداشت نہیں کرپائیں گے۔
وزیرِ اعظم نین یاہوکو بدعنوانی ،فراڈ اور اعتمادکو ٹھیس پہنچانے جیسے الزامات کا سامنا ہے اُن کی اہلیہ بھی بدعنوانی جیسے الزامات کی زد میں ہیں لیکن وزیرِ اعظم ہونے کی وجہ سے نیتن یاہوکو ایک قسم کا استثنٰی حاصل ہے اگر وہ اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو نہ صرف استثنٰی ختم ہوجائے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ تحقیقات میں تیزی آجائے اور الزامات ثابت ہونے کی صورت میں اگر سزا ملتی ہے تو سیاسی اور حکومتی عہدوں کے لیے نااہل ہو جائیں گے اِس لیے قرین قیاس تو یہی ہے کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے آخری حد تک جائیںگے مگر ملک کے حالات دیکھتے ہوئے اُن کاروشن مستقبل نظر نہیں آتا جس کی کئی ایک وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ بدعنوانی کی بنا پراُن کی حکومت سے الگ ہونے والوں کے لیے دوبارہ حمایت کا فیصلہ بہت مشکل ہے اوراگر ہارس ٹریڈنگ کی روش اختیار کرتے ہیں تو یہ مزید بدنامی کے مترادف ہوگا جس سے غیر مقبول نیتن عوامی نفرت کا شکار ہو سکتے ہیں عین ممکن ہے وہ کسی جماعت سے اتحاد کرتے ہوئے پہلے کی طرح اقتدار کی مدت تقسیم کرنے کی کوشش کریں مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر اقتدارکی مدت تقسیم کرنے پر کوئی جماعت رضا مند ہو بھی جاتی ہے تو طریقہ کار کیا ہو گا؟ نیو ہوپ کے سربراہ گیڈیان کو ایک سال کے لیے وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے کی پیشکش کر تے ہوئے بھی اُن کی اولیں کوشش یہی ہوگی کہ پہلے خود وزیرِ اعظم بنیں اور بعد میں کسی کو باری دیں لیکن اقتدار کا عرصہ گزارنے کے بعد کیا کریں گے لامحالہ بدعنوانی ،فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جیسے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے جیل جانے کا خدشہ رہے گا اسرئیلی انتخابات کے حالیہ نتائج نے حکمران جماعت کے لیے مشکلات جبکہ مسلم عربوں کی اہمیت بڑھا دی ہے آگے گڑھا پیچھے کھائی کے مصداق نیتن یاہو جس طرف بھی قدم بڑھائیں گے نقصان کا ذیادہ امکان ہے ۔
مسلمان حکومت سازی میں شریک رہ چکے ہیں 1992 میں اسحاق رابین نے بھی وزیرِ اعظم بننے کے لیے ایک عرب سیاسی جماعت کی حمایت حاصل کی تھی جس پر نیتن یاہو نے اسحاق رابین پریہودیت اور اسرائیل کے وجود سے غدار ی کے الزامات عائد کیے خیر سیاستدانوں کاایک دوسرے کو غدار کہنا عام سی بات ہے لیکن اسرائیل میں ایسا کرنارواج ہے ہر جماعت اپنے سوا دوسری جماعتوں کو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے اور فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے ،اُن کی زمینیں ہتھیانے اور مکانوں سے بے دخلی کو کارنامے کے طورپر پیش کرتی ہیں مگر نوے لاکھ کی اسرائیلی آبادی میں مسلمانوں کی تعدا د بیس یا بائیس لاکھ ہے یہ وہ اعدادوشمار ہیں جو صیہونی حکام تسلیم کرتے ہیں عین ممکن ہے اصل تعداد ذیادہ ہو کیونکہ اسرائیل میں مسلمانوں کے بارے تعصب عام ہے اسی بنا پراپنے وجود کو منوانے کے لیے مسلم عرب متحدہورہے ہیں گزشتہ ماہ مارچ کی انتخابی مُہم میں ووٹ دیتے ہوئے اتحادکامظاہرہ کیا تبھی مسلم ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح ساٹھ فیصد تک ممکن ہوئی جس سے مسلمانوں کی حکومتی ایوانوں کے قریت تر آنے کی راہ ہموار ہوئی۔
نوے لاکھ کی آبادی پر مشتمل اسرائیل کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں جن کی تعداد بائیس لاکھ ہے یہ ملک کی کُل اقلیتی آبادی کا پچاسی فیصد ہے باقی پندرہ فیصد یعنی تین لاکھ عیسائی و دیگر اقوام ہیں لیکن معلق پارلیمنٹ کی بڑی وجہ دنیا بھر سے یہودیوں کو اسرائیل لاکرآبادکرنا ہے کیونکہ مقامی آبادی سے نواردوں کی مذہب کے علاوہ کوئی قدر مشترک نہیں اسی وجہ سے تشدد پسند اور عدم تشددپر یقین رکھنے والی آبادی کئی جماعتوں میں تقسیم ہو چکی ہے اورمسلمانوں کو 1948سے لیکر اب تک پہلی بار طاقت منوانے کا موقع ملا ہے۔
اسرائیل میں منصور عباس مسلم رہنما کے طور پر اُبھرے ہیں وہ پیشے کے لحاظ سے دانتوں کے ڈاکٹر ہیں وہ حکومت میں حصہ دار بننے کے لیے آمادہ ضرور ہیں لیکن بے چین نہیں انتخابی مُہم کے دوران اتحاد ہماری طاقت کا نعرہ لگاتے ہوئے کامیاب ہونے والے تیرہ مسلم اراکین میں سے اُن کی جماعت عرب لسٹ پارٹی کے چار ہیں وہ ذرائع ابلاغ میں بھی حکومت میں شمولت کو خارج ازمکان قرارنہیں دیتے لیکن حمایت کے عوض عربوں کی جائیدادیں ہتھیانے جیسے قوانین کی منسوخی اورصحرائے النقاب میں موجود عرب بدوں کی آبادیاں مستقل کرنے کی شرائط عائد کرتے ہیں وہ عرب علاقوں میں جرائم کی بیخ کنی اور امن کے لیے خصوصی اقدامات کامطالبہ کرتے ہیں اِن شرائط سے مسلمانوں کے مفادات کاتحفظ ہو سکتا ہے مگرسات نشستوں کی حامل مذہبی قدامت پسند یونائیڈڈتوراپارٹی مسلمانوں کو حکومت میں دیکھنا نہیں چاہے گی یہ جماعت اسرائیل کی طرف سے 1994میں کیے حملے میں 29فلسطینی نمازیوں کی شہادت کو کارنامہ کہہ کر تحسین کرتی ہے اِس لیے موجودہ ڈرامائی صورتحال کو حق میں رکھنے کے لیے مسلم عرب اکابرین کو حکمت وتدبر سے بروقت فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ جمہوریت کے نام لیوا قدامت پسند صیہونی آسانی سے مسلمانوں کو اقتدار میں حصہ داربنائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔