وجود

... loading ...

وجود

دہلی کے وائسرائے !

هفته 03 اپریل 2021 دہلی کے وائسرائے !

(مہمان کالم)

پی چدمبرم

امریکا کے سابق صدر ابراہم لنکن نے ایک مرتبہ جمہوریت کی تعریف و تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت ایک ایسی طرزِ حکومت ہے جسے عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے حکومت اور عوام کے لیے حکومت کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے جمہوریت کی جو تشریح کی تھی‘ آج بھی اسے جمہوریت کی انتہائی جامع اور آسان تعریف کہا جاتا ہے۔ اس طرزِ حکومت میں جو مرکزی مقام ہے وہ دراصل عوام کا ہے‘ یعنی جمہوریت کا مرکز و مبدا عوام ہیں۔ نمائندہ جمہوریت صرف یہ قائل کرتی ہے کہ اس میں تعداد بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو یہ ایک وفاقی ریاست ہے، دہلی اس کا دارالحکومت ہے۔ یہ بھی حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ حکومتِ دہلی ریاستی حکومتوں سے مختلف ہے، اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو بھی حکومت ہو‘ اس کا جمہوری حکومت ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جمہوری حکومت میں عوام ہی حکومت کا مرکز ہوتے ہیں۔ بھارتی آئین و قانون میں ریاست (دہلی این سٹی) کو ایک خصوصی مقام عطا کیا گیا ہے۔ عدالت نے اس ضمن میں جگن موہن ریڈی جے کے حوالے سے یہ بات کہی۔ جگن موہن ریڈی جے نے کیشوا نندا بھارتی میں یہ واضح طور پر کہا کہ حکومت کی جمہوری شکل دراصل دستورکے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔

پارلیمنٹ کے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بالآخر حکومت دہلی کے اختیارات اور افعال کا تعین کردیا گیا ہے۔ جہاں تک دہلی کا سوال ہے‘ دہلی کے معاملے میں 1991ء کے دوران دستور میں ترمیم کی گئی تھی اور اس میں آرٹیکل 239 AA شامل کیا گیا تاکہ دہلی کے لیے خصوصی دفعات فراہم کی جاسکیں۔ اس سلسلے میں جو بیانات اور وجوہات بیان کی گئیں ان میں واضح طور پر کہا گیا کہ دہلی مسلسل ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ رہے گا اور اس کے لیے اسے ایک قانون ساز اسمبلی اور اس کے ذمہ دار وزرا کی کونسل فراہم کی گئی تاکہ یہ لوگ عام آدمی سے تعلق رکھنے والے معاملات سے نمٹ سکیں۔ اس کے لیے انہیں مناسب اختیارات دیئے گئے تھے۔ آرٹیکل 239 AA میں وہ تمام الفاظ اور جملے استعمال کیے گئے جن کے معنی و مطالب کی ہر جمہوری ملک میں ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں علاقائی حلقوں سے راست انتخاب جیسا جملہ بھی شامل ہے اور جس میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون ساز اسمبلی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ قوانین بنائے‘ جن کا انہیں اختیار دیا گیا یعنی ریاست کی فہرست یا بیک وقت تیار کردہ فہرست میں کسی بھی تفصیل وار بیان شمار یا گنتی کے معاملہ میں قانون ساز اسمبلی کو قوانین بنانے کا آئینی اختیار رہے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں وزرا کی کونسل ہوگی اور اس کونسل کا سربراہ چیف منسٹر ہوگا جو قانون ساز اسمبلی اور ریاستی حکومت کی کارکردگی وا افعال کی انجام دہی کے لئے لیفٹیننٹ گورنر کی نہ صرف مدد کرے گا بلکہ اسے مشورہ بھی دے گا۔ گورنمنٹ آف دی نیشنل ٹیریٹری ایکٹ 1991ء دراصل آرٹیکل 239AA کے تحت بنایا گیا تاکہ آرٹیکل میں جو دفعات ہیں انہیں نئی طاقت عطا کی جائے۔

گزشتہ 20 برسوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جہاں لیفٹیننٹ گورنر نے مجلس وزرا پر برتری قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس طرح کی کوششوں کو سختی کے ساتھ دبا دیا گیا؛ تاہم 2014ء کے بعد سے بے شمار تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ دہلی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت دارالحکومت دہلی میں غیر بی جے پی حکومت کو برداشت نہ کرسکی‘ خاص طور پر وزیر اعظم مودی ایک ایسے چیف منسٹر کو برداشت نہیں کرسکے جو دہلی میں سیاسی مقام و مرتبہ میں حصہ چاہتا تھا۔ ایسے میں ایک طویل عرصے سے دفن تنازع کو دوبارہ اٹھایا گیا اور یہ سوال گونجنے لگا کہ دہلی حکومت میں حقیقی طور پر کون بڑی طاقت ہے۔ اس کوشش کو سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیا اور عدالت اعظمیٰ نے ریاست بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمے میں 4 جولائی 2018ء کو یہ اعلان کیا کہ آئین میں اعانت اور مشورے کے جو معنی دیے گئے ہیں ان کا مطلب یہ لیا جائے کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر دراصل وزرا کی کونسل کی اعانت اور مشورے کے پابند ہیں۔ اس بل کے ذریعے قانون میں جو ترمیم کی گئی، اس سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کو زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں اور جنہیں یعنی حکومت کو زیادہ اختیارات دیے جانے چاہئے تھے‘ اس کے اختیارات گھٹا دیے گئے ہیں۔ اس بل کے ذریعے اس بات کا بھی تعین کردیا گیا ہے کہ کسی بھی عاملانہ کارروائی، اقدامات یا فیصلوں سے قبل لیفٹیننٹ گورنر کی رائے لینی چاہئے۔ بالفاظ دیگر قانون میں ترمیم کرتے ہوئے مودی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر کی شکل میں دہلی میں اپنے وائسرائے کو بٹھا دیا ہے جبکہ چیف منسٹر اروند کجریوال اور ان کے وزرا کو ان کے ماتحت کردیا گیا ہے جو ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔

مسٹر کجریوال کو شاید اسی دن یہ معلوم ہوجانا چاہئے تھا جب جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی اختیار ختم کرتے ہوئے اسے دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ وہ ایک طرح سے دستوری بغاوت تھی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسٹر کجریوال نے قوم پرستی کے نام پر جمہوریت کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور حملہ کیا‘ اس کی بھرپور تائید کی تھی۔ آج کجریوال اور تمام جمہوریت پسندوں کے لیے المناک دن ہے۔ ایسا دن جس میں قانون میں وہ ترمیم کی گئی جو جمہوریت کی توہین ہے۔ اگر کجریوال اس معاملے میں مودی حکومت کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو میری ساری ہمدردی ان کے ساتھ ہے۔ جہاں تک بھارت میں جمہوریت کا سوال ہے‘ روز بروز اس میں کمی آتی جا رہی ہے اور دنیا نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ فی الوقت بھارت جزوی طور پر آزاد ہے۔ اگر ہم بی جے پی کے اغراض و مقاصد کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کا مقصد ملک میں صرف اور صرف ایک پارٹی کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ میں ارکان کی تعداد کو بڑھانا، پارلیمنٹ کو ایک ربر ا سٹیمپ کی طرح بنانا، عدلیہ کو اپنے تابع کرنا اور سرکاری طور پر ا سپانسرکردہ میڈیا کو فروغ دینا، ہر حکم پر میرے آقا کہنے والے کارپوریٹ یا صنعتی گھرانوں کو آگے بڑھانا اور خوشامد پسند لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے جو صرف اپنی مادی ترقی پر خوش ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارت اور دوسرے آمریت پسند ملکوںمیں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ وجود پیر 23 دسمبر 2024
مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ

کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی وجود پیر 23 دسمبر 2024
کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی

عبادتگاہوں کا قانون اورچیف جسٹس سے توقعات وجود پیر 23 دسمبر 2024
عبادتگاہوں کا قانون اورچیف جسٹس سے توقعات

خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں! وجود اتوار 22 دسمبر 2024
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں!

عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق وجود اتوار 22 دسمبر 2024
عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر