وجود

... loading ...

وجود

سرسبزپاکستان کاخواب

منگل 30 مارچ 2021 سرسبزپاکستان کاخواب

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سرسبزپاکستان منصوبے کے لیے جب ٹریلین درخت لگانے کااعلان کیا تو مخالفین نے خوب مذاق اڑایا تھا،ویسے بھی اپوزیشن نے عمر ان خان کی ہر تجویزکا یہی حشر کیاہے ایک مولانا تو ہرروز یہ فتویٰ لگاتے رہتے ہیں تحریک ِ انصاف کی حکومت ناجائز اور حرام ہے ،حالانکہ ملک وقوم کے وسیع ترمفادمیں کچھ تجاویزکا تقاضا ہوتاہے اسے سنجیدگی سے لیا جائے بہرحال ہر اپوزیشن ہرحکمران سے ایسا ہی سلو ک کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے شاید ان کے نزدیک اپوزیشن میں ہونے کا مطلب ہی روڑے اٹکانا فرض کرلیا گیا ہے جبکہ ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی، موسموں کے درمیاتی مدت کے دوران حدت میں اضافہ،بارشوںمیں کمی اور موسمی تغیرات کے پیش ِ نظر شجرکاری کی مہم پورا سال جاری رہنی چاہیے ،پاکستان جیسے ملک میں گرمیوںکے موسم میں جیسے سورج سوا نیزے پر آجاتاہے جس کے باعث بجلی کا استعمال بڑھ جانے سے صنعتوںپر ا سکے منفی اثرات الگ مرتب ہوتے ہیں بلکہ بجلی مسلسل مہنگی ہونے سے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی چلی جارہی ہے ان حالات میں ٹریلین درخت لگانے کا منصوبہ شدید حبس کے درمیان تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے اس لیے ٹریلین درخت لگانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی اشدضرورت ہے ،پاکستان بھر میں ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ لاکھوںدرخت لگائے جاسکتے ہیں جبکہ ملک بھرکی نہروںکے دونوں اطراف پھل اور پھول دار درخت لگانے سے نہ صرف ماحول خوشگوار بنانے میں مدد ملے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں اور اس طرح حادثات میں بھی نمایاں کمی ہوسکتی ہے مگر ضروری ہے کہ ایک باقاعدہ پلاننگ کے تحت کام کیا جائے ،پھل اور پھول دار درختوں کے ایریاز کو لیزپر دیا جاسکتاہے اور اس ے زرمبادلہ بھی آسانی سے کمانے کی سبیل پیداہوجائے گی ، اس ضمن میں سوشل میڈیا پر سے بھی مدد لی جاسکتی ہے یقینا آپ سب نے پاکستان میں بننے والی پانچوں موٹرویز کا سفر کیا ہوگا یا کم از کم لاہور سے اسلام آباد کی موٹروے کا سفر تو کیا ہی ہوگا کبھی آپ نے غور کیا کہ موٹروے کے دونوں طرف جو باؤنڈری کے اندر زمین ہے اس پہ سفیدہ لگا ہوا ہے. مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس سفیدے کا کیا فائدہ ہے،انتہائی زرخیز زمین ہے پھر سفیدہ لگانے کی بات کچھ سمجھ نہیں آتی اگر موٹر وے “ون “جو پشاور سے اسلام باد تک ہے اس کے گرد آڑو, زیتون, انار, کالی مرچ, اور سیب وغیرہ کے پودے لگا دئیے جائیں جن کے لیے وہاں کی آب و ہوا ساز گار ہے تو کتنی خوبصورتی ہوگی اور کتنا زیادہ فروٹ بھی حاصل ہوجائے گا اسی طرح موٹروے” ٹو” پہ اسلام آباد سے کلر کہار تک صنوبر اور لوکاٹ بڑا زبردست ہو سکتا… لِلہ سے لے کر بھیرہ تک بیری کا درخت بہت کامیاب ہے ،اسی پہ بھیرہ سے لے کر پنڈی بھٹیاں تک مسمی, کنو, سنگترہ اور گرے فروٹ بہت کامیاب رہے گا. پنڈی بھٹیاں سے لاہور تک امرود, فالسہ, لیچی, انگور اور جامن بہترین پرورش پا سکتے موٹروے” تھری” پہ پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد اور موٹروے “فور” پہ لاہور سے عبدالحکیم اور فیصل آباد سے عبدالحکیم پہ بھی امرود, آم, جامن, فالسہ ,بیری اور شہتوت وغیرہ کامیاب پودے رہیں گے. موٹروے” فائیو “ملتان سے سکھر پہ بھی بہت اعلٰی اقسام کے کھجور اور آم کے درخت لگائے جا سکتے, جیسے کہ آپ کو پتہ ہوگا آم پھلوں کا بادشاہ ہے اور اس کی 1000 سے زیادہ اقسام ہیں لہذا اس پہ یہ ساری اقسام لگائی جا سکتی ہیں، اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کی ان پھل دار پودوں کی نگہداشت کون کرے گا تو اس کے لیے مالی بھی رکھے جا سکتے ہیں, یا پھر باغات ٹھیکے پر دئیے جا سکتے ہیں اس طرح ملک پہ بوجھ بھی نہیں بنے گا الٹا یہ پھل دار درخت گورنمنٹ کو منافع دیں گے. اور ہزاروں لوگوں کو روز گار ملے گا اور مزید برآں پھل پورے ملک میں سستا ہو جائے گا اور پھر حکومت اسے ایکسپورٹ بھی کر سکتی ہے۔

جب موٹر وے بنی تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستانی اسے صاف ستھرا رکھیں گے اس پہ سفر کرنے والوں کی جان ومال محفوظ ہو گی یہاں تیز رفتاری پہ چالان ہو گا ۔اس وقت لوگوںکا خیال تھا موٹروے روایتی سڑکوں جیسی ہوگی کچھ کا خیال تھا کچھ عرصہ بعد یہاں جگہ جگہ ” کھڈے” پڑجائیں گے لیکن یہ باتیں غلط ثابت ہوئیں اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرح تمام خوبیاں آج موٹروے میں موجود ہیں اس کے لیے کہ ایک ماحول بنایا گیا ہے لوگ اپنا کچرا موٹروے پہ نہیں پھینکتے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں تو ماحول تو بنانا پڑے گا ۔اب کچھ کچھ لوگ خیال کریں گے پھل اور پھول دار درختوں کودیکھ کر مسافر رکیں گے اور حادثات ہوں گے نہیں جناب ٹھہریئے کوٹ مومن کے پاس سے گزریں تو دیکھیں سڑک کی دونوں طرف کینو کے باغات ہیں لیکن کوئی گاڑی انہیں دیکھنے کے لیے نہیں رکتی، اس طرح بھلوال سے سرگودھا جائیں تو راستے کے دونوں جانب برلب سڑک کینو کے باغات ہیں لیکن نہ کوئی گزرتے ہوئے انہیں توڑتا ہے نہ ٹریفک کے لیے کبھی کوئی روکاوٹ بنتی ہے تو موٹر وے کے ساتھ ہزاروں میل کی زمین کو اگر اس طرح کارآمد بنایا جائے تو کمال ہی ہوجائے زیتون بھی کاشت کی جا سکتی ہے،بہاولپور جب آزاد ریاست تھی تو اس میں ا سکولوں، کالجوں، جامعات، ہر سرکاری دفاتر، شاہرات، نہروں کے کناروں، زخرہ جات میں ایسے ہی پھل دار اورنہایت کارآمد اشجار لگائے جاتے تھے جو کہ ماحول میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ حکومتی آمدنی میں اضافے کا خاطرخواہ زریعہ تھے جس کی نشانیاں اب بھی کہیں کہیں باقی ہیں لیکن اب تو اس ملک کا باوا آدم ہی نرالہ ہے ،میرے خیال میں یہ نا ممکن نہیں بس جذبے کی ضرورت ہے حکومتی سطح پہ بھی اور عوامی سطح پہ بھی۔باقی ہمت مرداں۔۔مدد خدا تجویز بہت اچھی ہے لیکن ویسے ہم بھیڑچال کے عادی ہوگئے ہیں ماضی میں بغیرسوچے سمجھے سفیدے کے درخت بے تحاشہ لگادئیے گئے ،دیکھنے میں تو سفیدہ خوبصوت لگتاہے کیا اونچے اونچے دبلے پتلے درختوںکی اپنی ہی شان ہے لیکن سفیدہ زمین کا پانی چوس کرجوان ہوتا ہے پاکستان میں تو پہلے ہی پانی کی شدید کمی ہے اس لیے سفیدے کا درخت نہ لگایا جائے کچھ لوگوںکا کہنا یہ بھی ہے کہ سفیدے کا درخت جلد بڑا ہو کر زمین کے کٹاؤ اور ایکسیڈنٹ کی صورت میں گاڑی کو گہری کھائی میں جانے سے روکتا ہے۔بہرحال پھل اور پھول دار درخت لگانے کی تجویز بہت ہی اچھی اور فائدہ مند تجویز ہے ،اس پرعمل ہونا بھی چاہیے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس ملک پر مسلط اشرافیہ عوام اور ملک کی بھلائی کا کم اور اپنا ذاتی فائدہ کا زیادہ سوچتی ہے ،اگر سنجیدگی سے ملک کے طول و عرض میں پھل اور پھول دار درختوںکی افزائش کے منصوبے شروع کیے جائیں تو اس کے کئی فائدے ہیں پاکستان کو ایک سرسبزملک بنانے سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوگا،لوگوںکو روزگار کے مزید مواقع میسر آئیں گے،موسموںکی شدت میں کمی آجائے گی اور سب سے بڑھ کر سرسبزپاکستان منصوبے کے لیے جب ٹریلین درخت لگانے کا جو خواب عمران خان نے دیکھا تھا وہ شرمندہ ٔ تعبیرہوسکے گا
روز خوابوں میںملاقات ہوا کرتی تھی
اور خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوا کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر