... loading ...
(مہمان کالم)
ساسکیہ پوپیسکو
اب تک دنیا بھر میں لوگوں کو کورونا ویکسین کی 448 ملین خوراکیں لگائی جا چکی ہیں اور کئی ممالک میں عوام کو جزوی طور پر اپنی نارمل زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ اسرائیل میں‘ جہاں نصف سے زائد آبادی کو ویکسین لگ چکی ہے‘ اب شہری سبز پاس دکھا سکتے ہیں جو اس امر کا ثبوت ہے کہ پاس کے حامل کو ویکسین لگ چکی ہے اور وہ کسی ریستوران، تھیٹر یا جم میں داخل ہو سکتا ہے۔ چین اور یورپی یونین‘ دونوں نے ویکسین کے لیے اپنے اپنے پاس جاری کیے ہیں۔ اگرچہ ویکسین کے سرٹیفکیٹ شہریوں کو اپنے ملک کے اندر بزنس کر نے کی اجازت بھی دیتے ہیں، حکومتوں کو مگر یہ قوی امید ہے کہ وہ انہیں عالمی سرحدوں پر اور سفر کے لیے بھی استعمال کر سکیں گی۔
اس وقت دنیا بھر میں بہت سے ممالک کو کورونا وائرس کی ویکسین کی سپلائی میں قلت کا سامنا ہے اور کئی جگہوں پر تو یہ دستیاب ہی نہیں ہے۔ امیر ممالک میں حکومتیں ویکسین پاسپورٹ کو پابندیاں ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں مگر اس کے لیے وہ ایک انتشار کے شکار سسٹم کا سہارا لینا چاہتی ہیں جس میں کووڈ کے مضر اثرات پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہے۔ ایک طرف جہاں یورپ اور چین میں ویکسین پاسپورٹ تیار کیے جا رہے ہیں‘ ورلڈ اکنامک فورم ایک گروپ ’’کامنز پروجیکٹ‘‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جوکورونا کی ویکسین لگانے کے عمل کو دستاویز ی شکل دینے کا سسٹم تیار کرے گا۔ آئی بی ایم ایک ڈیجیٹل ہیلتھ پاس تیار کر رہا ہے اور انٹرنیشنل ایئر ایسوسی ایشن‘ جو ایئر لائن انڈسٹری کی ٹریڈ ایسوسی ایشن ہے‘ ایک ایسی ا سمارٹ فون ایپ تیار کرا رہی ہے جو مسافروں کو ٹیسٹنگ اور ویکسی نیشن کے حوالے سے معلومات فراہم کرے گی۔ دنیا بھر میں سفر کرنے کے لیے ویکسین پاسپورٹ کو لازمی قرار دینے سے کئی سنگین چیلنج پیدا ہو جائیں گے۔ بین الاقوامی قانون عالمی ممالک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے ہاں وزٹ کرنے والوں سے اس بات کا ثبوت مانگ سکتے ہیں کہ انہیں زرد بخار جیسی بیماریوں کی ویکسین لگ چکی ہے مگر کورونا وائرس کی ویکسین بالکل نئی چیز ہے اور انہیں پوری دنیا میں استعمال کرنے کی ابھی اجازت بھی نہیں ملی۔ کوئی بھی ملک یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ صرف اسی ویکسین کو مستند تسلیم کرے گا جس کی اس ملک میں منظوری دی جا چکی ہے۔ چین پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ وہ صرف انہی لوگوں کو چین میں داخلے کی اجازت دے گا جنہوں نے چین کی تیار کردہ ویکسین لگوائی ہوئی ہو۔ اس وقت امریکا میں جو بھی ویکسین دستیاب ہے‘ ان میں سے ایک بھی چین میں تیار نہیں ہوئی۔ آکسفورڈ کی آسٹرازینکا اس وقت دنیا کے 86 ممالک میں استعمال کی جا رہی ہے مگر ابھی تک اسے امریکا میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں مل سکی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ویکسین کووڈ کے ان نئے ویرینٹس‘ جو اچانک منظر عام پر ابھر رہے ہیں‘ کے خلاف اتنی موثر نہ ہو۔
ویکسین پاسپورٹ سسٹم کو اس امر کی وضاحت کرنی چاہئے کہ کونسی ویکسین کو مستند تسلیم کیا جائے گا اور اس کے معیا ر کو بھی رونما ہونے والی تبدیلیوں کی روشنی میں اَپ گریڈ کیا جانا چاہئے۔ اس سسٹم کے تحت ان ممالک کے یکطرفہ اختیار کو بھی روکنا چاہئے کہ وہ جب چاہیں کسی بھی سرٹیفکیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ایک عالمی اتفاق رائے کے بغیر اس بات کا خدشہ ہے کہ جیو پولیٹکل تقسیم کی وجہ سے ہم کسی ایسی صورتِ حال میں نہ پھنس جائیں جس سے کووڈ کا دورانیہ مزید بڑھ جائے۔ ویکسین پاسپورٹ‘ جو کئی ممالک کے شہریوںکو عالمی سفر کے اہل بنا دیتا ہے جبکہ کروڑوں افراد ابھی ویکسین لگنے کے منتظر ہیں‘ دنیا میں عدم مساوات پھیلانے کا باعث بنے گا۔ امریکانے ابھی تک اپنے کسی ویکسین پاسپورٹ کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا۔ جن امریکی شہریوں کو بھی ویکسین لگتی ہے انہیں ایک کارڈ دے دیا جاتا ہے جس پر ویکسین لگنے کی تاریخ اور ویکسین کا نام لکھا ہوتا ہے مگر یہ کارڈز بطور پاس استعمال نہیں کیے جا رہے اور نہ ہی ان میں کوئی جعلسازی کی جا سکتی ہے۔
امریکی پلان آنے کے بعد کئی طرح کے نئے مسائل جنم لیں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ امریکا میں متعارف کرائی جانے والی ویکسین نے عدم مساوات کی خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سیاہ فام اور لاطینی نسل کے لوگوں کو سفید فاموں کے مقابلے میں کہیں سستی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہرکوئی ویکسین نہیں لگوا سکتا۔ بچوں کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین منظور نہیں کی گئی اور حمل کے دوران ویکسین کی سیفٹی کے بارے میں ڈیٹا بہت محدود ہے۔ ویکسین لگوانے والوں کو جو پاس دیے گئے ہیں‘ ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جن لوگوںکو ابھی تک ویکسین نہیں لگ سکی انہیں ملازمت، سروسز یا تعلیم سے انکار تو نہیں کیا جائے گا۔ کسی آجر یا بزنس مین کی طرف سے ویکسی نیشن کا ثبوت مانگنے سے لوگوںکے لیے کئی طرح کی اخلاقی اور قانونی مشکلات پیدا ہوں گی اور یہ بھی جاننا ہوگا کہ یہ ڈیٹا کس طرح جمع اور تصدیق کیا جا رہا ہے۔ اسے کس طرح کا تحفظ حاصل ہے۔ ایسے بزنس‘ جن میں گاہک اور ملازمین دونوں کو لازمی ویکسین لگوانی چاہئے‘ اگر ان کے پا س ایسے سسٹم موجود ہونے چاہئیں جن کی مدد سے ویکسین پاسپورٹ کا از سر نو جائزہ بھی لیا جا سکے تو ایسے سسٹم لگانے کے لیے پہلے سے متاثرہ بزنس پر بہت زیادہ مالی بوجھ پڑ جائے گا۔ سکول اور ہیلتھ کیئر فراہم کرنے والے ادارے پہلے سے ہی کسی ویکسین کی تلاش میں تھے مگر بہت سی ایسی کمپنیاں بھی ہیں جنہوں نے آج تک کبھی ویکسین لگوانے کو ضروری یا اہم نہیں سمجھا۔ اگر ویکسین پاسپورٹ کسی ا سمارٹ فون ایپ کی شکل میں آگئے تو بہت سے ایسے افراد بھی ہوں گے جو ان ایپس کو استعمال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہوں گے چونکہ کسی ویکسین پاسپورٹ میں ہر شہری کا پرسنل ہیلتھ ڈیٹا موجود ہو گا اگر اس انفارمیشن کو تحفظ دینے میں ناکامی ہو گئی تو اس سے فراڈ، امتیازی سلوک اور نجی زندگی کی خلاف ورزی ہونے کا رسک موجود رہے گا۔دنیا بھر کے انسان اس بات کے لیے بے چین ہیں کہ کسی طرح کووڈ کا خاتمہ ہو جائے اور جن لوگوں کو کووڈ کی ویکسین لگ چکی ہے وہ بھی اس بات کے لیے بے قرار ہیں کہ وہ ویکسین لگوانے کے بعد ملنے والی آزادی کا بھرپور استعمال کر سکیں مگر ویکسین پاسپورٹ کے اجرا کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ اقدام عالمی سطح پر مربوط ہو اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہئے کہ دنیا بھر میں ہر شہری کو منصفانہ طور پر ویکسین تک رسائی حاصل ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔