... loading ...
ابھی موقع ہے اعمال نامہ کھلا ہے سانسیں آرہی ہیں۔ زبان باتیں کرنے میں مشغول ہے جسم میں حرارت ہے۔بدن توانا۔۔توبہ کی جا سکتی ہے جو ہاتھ دعا کے لیے اٹھانے پر قادر ہیں ہاتھ اٹھا لیں جوسکت نہیں رکھتے دل ہی دل میں اپنے گناہوںکی معافی مانگ لیں۔۔توبہ دل سے کی جائے توقبول ہوتی ہے اللہ کے حضور اشک ِ ندامت کی بڑی قدرہے ۔
ہروقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
دوسروںکا مذاق اڑانے والے،رعونت سے تنی گردنیں،لوگوںکوبلکتے سسکتے دیکھ کر بھی رحم نہ کھانے والے دل،کسی کا دکھ محسوس نہ کرنے والی آنکھیں اورنامہربان حالات کے ماروںپر نامہربان ہاتھ۔کیونکرتوبہ کریں گے وقت ہاتھ سے نکلا جا رہاہے حیف ہے پھر بھی سوچنے کو وقت نہیں۔کیا توبہ کے دروازے بند ہونے کاانتظارہے۔جس شخص پر جتنی بڑی ذمہ داری ہے وہ اتنا ہی جوابدہ ہے ہمارے ملک کے بیشتر سیاستدان نسل درنسل اقتدارکے مزے لوٹ رہے ہیں ،سیاست بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے موجودہ جمہوریت ان کی سب سے بڑی محافظ۔ عام آدمی کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ان کے بچے پڑھ لکھ بھی جائیں تو نوکری کے لیے خجل خوار ہونا مقدر بن جاتاہے زیادہ تر معاشی غلامی میں ہیںجہاں لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دینے پر قادر نہ ہوں تبدیلی کیسے آئے گی ؟ تبدیلی تو اندر سے آتی ہے تو انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے جو طبقہ صرف اپنے بارے سو چتا ہے ان کا مرکزو محور فقط اپنے مفادات کا تحفظ ہوتاہے اور پتے کی بات یہ ہے کہ صرف اپنے بارے سوچنا رہبانیت ہے یہ اصول ہم اپنے سیاستدانوں،بیوروکریٹوں، جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور اشرافیہ پر لاگو کردیں تو پھربچتا کیا ہے؟ سب کے سب راہب۔۔ دین ِ فطرت کے اصولوں کے منافی طرز ِ عمل جن کا من پرانا پاپی ہو وہ ہر قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں کیونکہ تبدیلی تو ان کے خلاف آناہے جن کی مزاحمت شدید ترہورہی ہے۔جو تمام کے تمام متحدہو تے جارہے ہیں دوسروںکے لیے سوچنا شیوۂ پیغمبری ہے درحقیقت یہی ہیرو کہلوانے کے حقدارہوتاریخ بتاتی ہے کسی نظریہ کے لیے قربانیاں دینے والے دنیامیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ناموافق حالات، طاقت کا بے رحم استعمال اورریاستی جبر بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں کرسکتا اور مشکلات بھی راستہ نہیں روک سکتیں ۔
غور سے دیکھا جائے تو دنیا میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک بااختیار دوسرا بے اختیار لوگوںکا۔۔ استحصال کی ہر شکل گناہ جیسی ہوتی ہے جیسے تمام بھیڑوںکی شکل صورت ایک جیسی؟ سوچتے کیوں نہیں گناہ زہرکی مانندہے کم ہو یا زیادہ ۔دونوں صورتوںمیں نقصان دہ ہے۔
جس سے فاصلے بڑھتے ہیں غلط فہمیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیںپھر وہ بھی سنائی دیتاہے جو کہا بھی نہ ہو۔زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں اور زندگی سب سے بڑا دھوکہ جس کے پیچھے ہر شخص بھاگ رہاہے۔اگر قسمت کا لکھا ہی سب کچھ ہوتا تو ہمیں دعا مانگنے کا حکم نہ دیا جاتا۔۔۔رشتے کمزور تب ہوتے ہیں جب غلط فہمیوں کے درمیان انسان سوالوں کے جواب خود ہی تصور کرلیتاہے اس لیے سیانے کہتے ہیں دل کے دروازے ہروقت کھلے رکھنے چاہئیں۔معافی مانگ لینی چاہیے معاف کر دینا چاہیے ،یہ دونوں عادتیں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو بہت پسند ہیں صلہ ٔ رحمی دلوںکو آباد رکھتی ہے ،ویر ان نہیں ہونے دیتی لیکن ہم ہیں کہ کسی کی سنتے ہی نہیں ہیں۔لیکن کیا کیجئے ! آدمیت سے انسانیت کے درمیان معمولی سا فرق بھی اب ہمیں کوئی فرق نہیں لگتا ضمیر، احساس اور مروت کا گلہ گھونٹ کر شاید ہم نے تنزلی کو ہی ترقی کامتبادل سمجھ لیاہے اسی لیے تیزی سے تنزلی کا یہ سفر جاری ہے لیکن کسی کو مطلق احساس تک نہیں اسے اجتماعی بے حسی سے بھی تعبیر کیا جا سکتاہے اور اجتماعی خودکشی بھی۔ تیسری دنیا کے درجنوںممالک کے حکومتی نمائندے، اہل ِ فکر،دانشور بالخصوص علماء کرام اساتذہ معاشرے میں بہتری کے لیے کچھ اسباب پر غور کریں لوگوںمیں حلال حرام کی تمیزاجاگرکی جائے،ہر سطح پر ظلم کے خلاف مو ٔثر تحریک چلا ئی جائے۔۔نفرتوںکے خاتمہ کے لیے محبت ،رواداری اورمذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کچھ کیا جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔ لیکن کریں کیاشاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دل محبت سے خالی ہو گئے ہیں۔ آج مسلمان کیا،ہندو کیا، عیسائی اور پارسی سب کے سب ایک برابرہوگئے ہیں انسان ہونے کے باوجودہم مروت، احساس ،اخوت،بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی چاہت سے عاری ہوتے جارہے ہیں اوردل ہیں کہ خواہشات کے قبرستان بن گئے کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ کسی لالچ ، اجریاثواب اور صلہ کی خواہش کیے بغیر انسانیت کی خدمت ہی زندگی کی علامت ہے ۔
صرف جنوبی ایشیاء ہی نہیں سارک ممالک کا بھی یہی حال ہے بلکہ غور کیا جائے تو درجنون افریقی ملکوں بلکہ ہر غریب ملک کے مسائل ایک جیسے ہیں جن میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں ،دنیاآج جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوںتک محدودہوکر رہ گئے ہیں یہی لوگ اس وقت غریبوںکی تقدیرکے مالک بنے ہوئے ہیں ،اصلاح ِ احوال کے لیے کوئی طریقہ ہے نا سلیقہ۔۔لگتا ہے کسی کو اس بارے سوچنے کی کوئی فکرنہیں اچھے خاصے لوگ تنقید کے ڈر یا بااثرلوگوںکے خوف سے تعمیری کام کرنا بھی بند کردیتے ہیں۔کبھی کبھی ہم سوچتے رہتے ہیں اور سوچ ۔۔سوچ کر سوچتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ظالم ا تنے طاقتور، بااثر اورصاحب ِ اختیار کیوںہیں؟ نداہے ۔صدائیں دن رات گونج رہی ہیں ابھی موقع ہے ،اعمال نامہ کھلا ہے ،سانسیں آرہی ہیں۔۔ زبان باتیں کرنے میں مشغول ہے جسم میں حرارت ہے۔بدن توانا۔۔توبہ کی جا سکتی ہے جو ہاتھ دعا کے لیے اٹھانے پر قادر ہیں ہاتھ اٹھا لیں جوسکت نہیں رکھتے دل ہی دل میں اپنے گناہوںکی معافی مانگ لیں۔توبہ دل سے کی جائے توقبول ہوتی ہے اللہ کے حضور اشک ِ ندامت کی بڑی قدرہے ۔ شب وروزکے میلے میں دنیا کے جھمیلے میںکبھی اکیلے میں سوچوغفلت کے مارے لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں ہم نے جس کو دفنا دیا بس اسی کو مرنا تھا حالانکہ بلھےؒ شاہ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا بلھےؒ شاہ اسیں مرنا ناہیں۔۔۔گور پیا کوئی ہو ۔ چلو مان لیا پاکستانی سیاست کی پون صدی پر غورکیا جائے تو یہ احساس گہرا ہوتا چلا جائے گا کہ اس ملک میں آج تک جمہوری انداز سے کوئی سیاستدان بناہے نہ اقتدار میں آیا سب کے سرپرست ِ اعلیٰ فوجی ڈکٹیٹر تھے اس حقیقت کو کوئی جھٹلانا بھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتایہی وجہ ہے کہ کسی حکمران نے اپنے دل میں عوام کا درد محسوس نہیں کیا’’شارٹ کٹ‘‘ کے فارمولے پر پیرا شوٹ کے ذریعے نازل ہونے والے عوام کا دکھ کیا جانیں لیکن بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان شام جیسے نہ جانے کتنے ممالک کے حکمرانوںکو کیا معلوم مہنگائی کس عفریت کا نام ہے؟
بھوک سے بلکتے بچوںکو دیکھ کر اپنا گردہ بیچنے والوںپر کیا بیتتی ہے؟۔ تھانے کچہری اور سرکاری اداروں میں عوام کوکتنی تذلیل برداشت کرنا پڑتی ہے، اب وہ حکمران کہاں سے لائیں جس کا کہنا تھا’’ دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے قیامت کے روز اللہ کے حضور عمرؓ جواب دہ ہوگا‘‘ لیکن ذرا سو چواگرہم احساس کی دہلیز پر کھڑے ہوکر بغور جائزہ لیں تو ایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔ایسے ایسے سفید پوش ہیں جن کے حالات کا ہمیں پتہ چلے تو کلیجہ منہ کو آنے لگے لیکن کریں کیا؟ ارباب ِ اختیارکو کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیںکتنے ہی اسحق ڈار روز واویلہ کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہاہے ۔ اپوزیشن بھی سیاست چمکانے کے لیے غریبوں کی بات کرتی ہے حکمران ہیں کہ بلند و بانگ دعوئوںکو ہی اپنی کارکردگی سمجھنے لگے ہیں۔ پاکستان میں تو حکومت نے زکوٰۃ دینے کے نام پر غربیوںکو بھکاری بنا کررکھ دیا ہے آج تک کسی حکومت نے بھی غربت ختم کرنے کے لیے حقیقی اقدامات نہیں کئے قرضہ ا سکیمیں بھی ان کے لیے ہیں جوباوسائل ہیں جن بے چاروںکو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ گارنٹر کہاں سے لائیں یہ فلسفہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا عام آدمی کے وسائل کم ہورہے ہیں،مہنگائی اوربیروزگاری بڑھنے سے لوگوںکا حشر نشرہوگیاہے۔کم وسائل جس اذیت۔جس کرب سے گذررہے ہیںوہ جانتے ہیں یا ان کا رب ہی جانتاہے۔اب کون سوچے بہتری کیسے ممکن ہے۔غربت کو بدنصیبی بننے سے کیسے روکا جائے۔بھارت میں فٹ پاتھوں ،بنگلہ دیش میں سمندرکے ساحلی علاقوں،پاکستان کے چولستان،تھر یا پھر اجاڑ ویرانوں اور افریقہ کے تپتے ہوئے ریگزاروں میں ہر سال لاکھوں افراد جھونپڑیوں میں پیداہوتے ہیں اور وہیں سے ان کے جنازے اٹھتے ہیں یہ لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوںکو ترستے ترستے مرجاتے ہیں حکمرانوںکو اپنی رعایا کی فکرہونی چاہیے ۔ابھی موقع ہے اعمال نامہ کھلا ہے سانسیں آرہی ہیں۔ زبان باتیں کرنے میں مشغول ہے جسم میں حرارت ہے۔بدن توانا۔۔توبہ کی جا سکتی ہے جو ہاتھ دعا کے لیے اٹھانے پر قادر ہیں ہاتھ اٹھا لیں جوسکت نہیں رکھتے دل ہی دل میں اپنے گناہوںکی معافی مانگ لیں۔توبہ دل سے کی جائے توقبول ہوتی ہے اللہ کے حضور اشک ِ ندامت کی بڑی قدرہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔