... loading ...
پاکستان میں سیاسی استحکام اور معاشی بہتری کی ذرا سی ٹھنڈی ہوا بھی چلتی ہے تو ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا نام نہاد آزاد میڈیا اُسے بادِ سموم یا طوفانِ بادو باراں بنا کر پیش کرنا شروع کردیتاہے۔دوسری جانب ہمارے ملکی میڈیا کا یہ حال ہے کہ بھارتی قیادت جلتے ہوئے توے پر بھی بیٹھی ہوتب بھی بریکنگ نیوز میںبھارتی حکومت کو درپیش مشکلات و مصائب سے پاکستانی عوام کو پوری طرح سے باخبر کرنے کے بجائے فقط بھارتی گانے ہی سُنا رہے ہوتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ اِس بار 23 مارچ یومِ پاکستان کے موقع پر بھی ہمارے بعض کالم نگار اور اینکر پرسن اپنی گفتگو اور تحریر سے ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا کو مہمیز دینے کے بجائے سقوطِ ڈھاکہ کو ہی اپنا موضوع سخن بنائے ہوئے تھے۔دراصل یہ وہ خاص اقلیتی طبقہ ہے جو 2021 میں بھی 1971 کی یادوں کا قیدی بن کر زندگی گزار رہا ہے اور میرِ صحافت کے یہ ستارے مارچ میں بھی دسمبر کاماتم کرنے سے ذرا، نہیں چُوکتے ۔حالانکہ اگر انہیں واقعی اپنی پرانی قومی یادوں سے شدید محبت اور عشق ہے تو انہیں کبھی ستمبر 1965 کے واقعات کا بھی اپنی گفتگو ،تحریر یا ٹوئٹس میں تذکرہ کرنا چاہئے تھا۔ لیکن شاید اِن عاقبت نا اندیش سینئر تجزیہ کاروں کے لیے ’’23 مارچ اورآدھا سچ‘‘ لکھنا زیادہ آسان اور ’’6 ستمبر اورپورا سچ‘‘ لکھنا سخت مشکل کام ہے۔
بہرکیف 2021 کا پورا سچ یہ ہے کہ بھارت بھی پہلی بار اپنی تاریخ کے اُسی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، جس دور سے پاکستان کے گزرنے کا راگ گزشتہ 73 برسوں سے ہمارے لبرل کی جانب سے تسلسل کے ساتھ الاپا جارہاہے ۔واضح رہے کہ بھارتی رہنماؤں نے اپنے دیس کو شائننگ انڈیا اور ایشین ٹائیگر بنانے کے جتنے سہانے سپنے بھارتی عوام کی آنکھوں میں سجائے تھے ،وہ تمام کے تمام ایک کر کے چکنا چور ہوتے جارہے ہیں ۔ بھارتی معیشت اس وقت بدترین گراوٹ کا شکار ہے ۔بڑے بڑے کاروباری ادارے سرعت کے ساتھ دیوالیہ پن کی طرف محوِ سفر ہیں اور اکثر مالیاتی ادارے ایک ایک کر کے خاموشی کے ساتھ کساد بازاری کے چنگل میں پھنستے جارہے ہیں ۔جس کی وجہ سے بھارت کی معاشی نمو انتہائی سست سطح پرپہنچ چکی ہے ۔ نیز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا منفرد اعزاز رکھنے والی بھارتی ریاست کو عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی بدترین آمریت اور نازیت کے فروغ کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ اگست 2020 سے مودی سرکار کے خلاف کسانوں کی جانب سے ہونے والے طویل ترین احتجاج نے بھارتی زراعت کا مستقبل مکمل طور پر مخدوش کردیا ہے ۔علاوہ ازیں بھارت کے قریب ترین پڑوسی ممالک سری لنکا، مالدیپ ، بھوٹان اور نیپال بھی سفارتی محاذ پر اُسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ صرف یہ ہی نہیں 27 فروری2019 کو پہلے پاکستانی شاہینوں سے اپنے دو قیمتی جنگی جہاز تباہ کروانے اور بعد ازاں16 جون 2020 میں وادی لداخ میں چین کے ہاتھوں لائن آف ایکچویل سے متصل خطیر سرحدی علاقہ گنوانے کے بعد بھارتی افواج کے حوصلے بھی پستی کی عمیق گہرائیوں میں غرق ہوچکے ہیں ۔
یوں سمجھ لیجئے کہ نریندر مودی کی حکومت نے اپنی نام نہاد کمال انتظامی مہارت ،متعصبانہ داخلی اور سفارتی پالیسیوںکی بدولت بھارت کو چہار جانب سے اَن گنت مسائل اور بحرانوں کے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا کہ اَب بھارت کو اِن بحرانوں اور مسائل سے نکالے گا کون؟۔سادہ سا جواب یہ ہے کہ یقینا وہی جس کو مستقبل میں بھارت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی یا جو بھارت کا فطری حلیف ہوگا۔ یعنی امریکا، جی ہاں! امریکا بھارت کی بحرانوں کے گرداب میں ہچکولے کھاتی کشتی کو استحکام دینے کے لیے پوری طرح سے متحرک ہوچکا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت پینٹاگون کے چیف لائیڈ آسٹن کا گزشتہ دنوں نئی دہلی کا ہونے والا ہنگامی دورہ ہے۔یاد رہے کہ بھارت سے قبل لائیڈ آسٹن اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جاپان اور جنوبی کوریا کا دورہ بھی کیا تھا، جس دورہ میںچینی قیادت کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے ،چین کے خلاف قائم ہونے والے عسکری اتحاد ’’کواڈ ‘‘ کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ چونکہ امریکا ،جاپان ،آسٹریلیا،جنوبی کوریا کے ساتھ بھارت بھی ’’کواڈ ‘‘ کا ایک اہم ترین رُکن ہے ، اس لیئے پینٹاگون کے چیف لائیڈ آسٹن کادورہ دہلی تو بنتا ہی تھا۔واضح رہے کہ بھارت ایشیا پیسیفک کے خطے میں امریکا کا ایک اہم شراکت دار ہے اور لائیڈ آسٹن کا دو روزہ دورہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا نئی دہلی سے دو بدو بات چیت کا پہلا موقع بھی۔
عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے والی خبروں کے مطابق الائیڈ آسٹن نے وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال سے بات چیت کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیردفاع راج ناتھ سنگھ سے بھی ملاقات کی ۔ اِن ملاقاتوں کے بعد پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے اپنے سرکاری اعلامیہ میں کہا کہ ’’لائیڈ آسٹن نے ہند بحر الکاہل میں بھارت کے قائدانہ کردار کی تعریف کی اور مشترکہ اہداف کو فروغ دینے کے لیے خطے میں ہم خیال افراد کے ساتھ بڑھتی ہوئی مصروفیت کو سراہا اور ونوں فریقین نے آزاد علاقائی نظم و ضبط کو فروغ دینے کے لیے اپنے عزم کا ایک بار پھر سے اعادہ کیا ۔ نیز خطے کے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آپس میں تفصیلی خیالات کا تبادلہ بھی کیا‘‘۔پینٹاگون کی جانب سے جاری ہونے اعلامیہ کے بین السطور چھپے نکات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ امریکا چین کے خلاف پراکسی وار میں بھارت کو اُتارنے کا حتمی فیصلہ کرچکا ہے اور جوبائیڈن انتظامیہ چین کے خلاف لڑنے والے اپنے فرنٹ لائن حلیف کو کم سے کم مدت میں زیادہ طاقت ور اور مستحکم دیکھنا چاہتی ہے ۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے امریکا جتنی رغبت اور دلچسپی بھارت کو چین سے لڑانے میں رکھتا ہے کیابالکل ویسی ہی واضح نیت،سیاسی سرگرمی،معاشی یکسوئی اور عسکری حوصلہ چین کے ساتھ ٹکراجانے کے لیے بھارت بھی اپنے اندر مجتمع کرچکا ہے یا نہیں؟۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ،امریکا کی ہلہ شیری میں آکر چین کے خلاف رِنگ میں اُتر تو چکا ہے ، لیکن ڈرتے ،ڈرتے۔ ایک ایسے مرنجاں ،مرنج پہلوان کی طرح جو لڑنا تو کسی اور حریف سے چاہتا ہو مگر اُس کے سامنے کسی دوسرے پہلوان کو مقابلہ کے لیے اُتار دیا جائے۔
دراصل امریکا بھارت میں جاری عدم استحکام کا مکمل طور پر خاتمہ کرکے اُسے جلد ازجلد استحکام سے ہمکنار کر کے چین کے خلاف موثر انداز میں استعمال کرنے کا قوی ارادہ رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے جو بائیڈن انتظامیہ نے مودی سرکار پر دباؤ ڈال کر آمادہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر برسوں سے جاری کشیدگی کو ختم کرکے اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ 2000 میں کئے گئے جنگ بندی کے معاہدہ کو ازسرِ نو پائیدار بنائے ۔ جبکہ پینٹاگون چیف لائیڈ آسٹن نئی دہلی میں مودی سرکار کو چین کے خلاف آمادہ جنگ کر کے فوری طور پر افغانستان چلے گئے ۔ تاکہ افغان سرزمین پر بھی بھارتی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ۔جبکہ دفاعی لحاظ سے بھارت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے مودی سرکار کو یہ یقین دہانی کروادی گئی ہے کہ اُسے جلدازجلد جدید دفاعی سازو سامان بھی ترجیحی بنیادوں پر قیمتاً ہی سہی بہر حال فراہم کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس نے بھارتی معیشت کو جو ناقابلِ تلاقی نقصان پہنچایا ہے ،اُس کی تلافی کے لیے بھی بھارت کو ’’خصوصی بندوبست ‘‘ مہیا کیا جائے گا۔ تاہم جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مودی سرکار کو اتنی خوش خبریوں کے بعد چند ایک تقاضے بھی کیئے گئے ہیں جیسے فوری طور پر کشمیر کی پرانی حیثیت کو بحال کیا جائے ۔وگرنہ پاکستان کے لیے بھارت کو ایک ’’اَمن پسند پڑوسی ‘‘ تسلیم کرنا ممکن نہ ہوسکے گا ۔ اس کے علاوہ بھارت سے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ قانونِ شہریت واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے ۔تاکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی فہرست میں بھارت کی تیزی کے ساتھ ہونے والے تنزلی کو روکا جاسکے ۔
اگرچہ جو بائیڈن انتظامیہ نے جنوبی ایشیاء میں بھارت کو چین کے خلاف ایک واضح کردار تفویض کردیا ہے ۔ لیکن مختلف محاذوں پر طرح، طرح کے مسائل میں گھرا ہوا بھارت ، کیا واقعی مستقبل قریب میں چین کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتاہے؟۔ یہ ایک ایسا مشکل سوال ہے، جس کا جواب فی الحال نہ تو امریکا کے پاس موجود ہے اورنہ ہی بھارت کے پاس ۔ہماری ناقص رائے کے مطابق چین کے خلاف جاری امریکا کی جنگ میں بھارت کو فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے دفاعی ساز و سامان کے علاوہ جس قسم کی داخلی استحکام ،سفارتی اثررسوخ اور معاشی اسباب درکار ہیں ۔ اُن سب کا ایک ساتھ اور جلد ازجلد حاصل کرلینا بھارت کے لیے کم و بیش ناممکن ہی ہوگا ۔ کیونکہ گزشتہ چند برسوں میں مودی سرکار نے نفرت کے بیج اپنے ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ اپنے پڑوسی ممالک کی سرحدوں میں بھی اِس کثرت سے بو دیئے ہیں کہ اَب وہ موسم آپہنچا ہے کہ جب بھارت کے اندر اور اُس کی سرحدوں پر نفرت کی فصل پوری طرح سے کٹائی کے لیئے تیار ہوچکی ہے اور نفرت کی لہلہاتی فصل کی موجودگی میں اَمن و شانتی کے پھول اُگانا امریکا اور بھارت کے لیے ایک ایسی بھیانک غلطی ہوگی ، جس کا نتیجہ بھارت کی کئی حصوں میں تقسیم کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں بغیر اچھی ساکھ کے تو آپ اپنے گاہک کا دل نہیں جیت سکتے ،چہ جائیکہ اپنے دشمن سے جنگ جیت لیں ۔ یاد رہے کہ مارچ 2021 کا یہ ہی پورا سچ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔