... loading ...
(مہمان کالم)
چین جولی وینگ
نسل پرستی پر مبنی پہلا انگریزی لفظ میں نے ا س وقت سیکھا تھا جب میں اپنے والدین کے ہمراہ شہر میں سے گزر رہی تھی۔اْس وقت میری عمر سات سال تھی اور ہم چین سے نئے نئے بروکلین شفٹ ہوئے تھے۔ایک دن اپنے والد پر رعب ڈالنے کے لیے میں نے انگریزی میں کہہ دیاکہ اب ہم بھی چنکس ہوگئے ہیں۔میرے والد نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میں نے انہیں خنجر گھونپ دیا ہو۔انہوں نے اپنی دھیمی آواز میں مجھے آئندہ کبھی یہ لفظ نہ بولنے کی ہدایت کی۔یہ توہین آمیز لفظ پوری زندگی مجھے کاٹتا رہا۔ایک دفعہ بائیک پر سوار ایک لڑکا میرے کان کے قریب آکر اتنے زور سے چیخا کہ اس کی گونج کئی گھنٹے تک میرے کانوں سے ٹکراتی رہی۔وہ گونج تو کچھ دیر بعد ختم ہو گئی مگر سڑک پر چلتے ہوئے ہراساں کیا جانا میری زندگی کا معمول بن چکا ہے۔کووڈ پھیلنے سے پہلے میں روزانہ پیدل ہی کورٹ ہائوس جاتی تھی جہاں مجھے اپنے جسم پر مکمل کنٹرول رکھنا پڑتا تھا۔میں نے پوری کوشش کی کہ میں عورت کے بجائے ایک سفید فام انسان نظرآئوں۔جب اجنبی لوگ مجھے توہین آمیز جملوں کا نشانہ بناتے تو میں اکثر بہرہ ہونے کا ڈرامہ کرتی تھی۔’’میں تو عرصے سے آپ سے پیا رکرتا ہوں‘‘ یا پھر’’ زرد بخار‘‘ کا جملہ کسا جاتا تھا۔جب کووڈ پھیلا تو مجھے پیدل عدالت جاتے ہوئے خوف محسوس ہونے لگا۔سب وے ٹرین کے ہجوم میں بھی لوگ مجھ سے فاصلہ رکھتے تھے۔دیگر مواقع پر تو توہین آمیز ہراسگی بڑی نمایاں ہوتی تھی۔اجنبی لوگ مجھے کندھا مارتے ہوئے گزر جاتے توکوئی اپنی چھتری کی نوک چبھوتے ہوئے چیختا ’’چین واپس جائو‘‘۔میرے والدین گھر سے باہر نکلتے ہوئے سر پرہیٹ پہنتے اور چہرے پر ڈبل ماسک کے علاوہ آنکھوں پر دھوپ کے چشمے لگاتے ہیں۔آخری مرتبہ میں اپنے کام پرجانے کے لیے ٹرین پر سوار ہوئی تو ایک شخص میرے منہ کے قریب آکر چیخا ’’ چنکس‘‘اور مجھے یوں دیکھ رہا تھا کہ جیسے مجھے کھا جائے گا۔وہاں موجود کوئی شخص بھی میرے حق میں نہ بولا۔ا س کایہ توہین آمیز لفظ میرے کانوں میں دیر تک گونجتا رہا اور مجھے اپنے بچپن کی طر ف لے گیا۔اس کے بعدمیں نے کبھی کسی بس یا ٹرین میں قدم نہیں رکھا۔
ا س مسئلے سے دوچار میں اکیلی نہیں ہوں‘کوو ڈکے دوران امریکامیں ایشیائی نڑاد لوگوں کے خلاف تشددمیں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔مارچ سے دسمبر 2020ء کے دوران Stop AAPI Hateنامی ایک این جی او جو اس طرح کے واقعات کو مانیٹر کرتی ہے‘ کی رپورٹ کے مطابق اسے ایشین امریکن اینڈ پیسفک آئی لینڈرز کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے 2800واقعات کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔انہوں نے یہ بات بھی نوٹ کی ہے کہ کورونا وائرس کے تناظر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو دوگنا ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔کوو ڈکے دوران ایشیائی مخالف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیاہے اور یہ جذبات ا س ملک اور سوسائٹی کے خمیر میں شامل ہیں۔پیج ایکٹ 1875ء میں چینی عورتوں کواس الزام میں امریکا میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا کہ وہ امریکی مردوں میں جنسی بیماریاں پھیلانے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ سفید فام اقدار اور معاشرے کے لیے ایک خطرہ ہیں۔دی چائنیز ایکسکلوڑن ایکٹ 1882ء میں بنا جس کے تحت ایک مخصوص قومیت کے افراد کو امیگریشن دینے پرپابندی لگا دی گئی۔یہ پابندی 1943ء تک جاری رہی اس کے بعد کانگرس نے چین کے لیے ہر سال 105امیگریشن ویزے دینے کی منظوری دی۔
امریکا کے لیگل فریم ورک میں امیگرنٹس کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کیا گیا جس کے نتیجے میں امریکیوں کو 1871ء میں چینی نڑاد شہریوں کو وحشیانہ طور پر قتل کرنے کی ہمت ہوئی جب امریکی ہجوم نے لاس اینجلس میںایک عارضی پھانسی گھر لگا کر 20چینی امیگرنٹس کو پھانسی دے دی تھی۔1930ء میں سینکڑوں سفید فام امریکی کئی دنوں تک واٹسن ویلی کی سڑکوں پردندناتے پھر تے رہے اور پھر ایک فلپائنی فارم ورکر کو بے دردی سے قتل کر دیا۔اسی طرح پرل ہاربر پر جاپانیوں کے حملے کے جواب میں جاپانی نژاد امریکی شہریوں کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ ویت نام جنگ کے خاتمے پر کوکلس کلان انتہا پسندوں نے ٹیکساس میں ویت نامی نڑاد امریکیوں کی کشتیاں اورگھر جلا دیے۔حملوں کی حالیہ لہر میں چینی نڑاد امریکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔دو حملہ آوروں نے بروکلین میں ایک نواسی سالہ ضعیف خاتون کے منہ پر تھپڑمارے اور ا س کی شرٹ اتروا کر اسے آگ لگا دی۔جنوری میں ایک چوراسی سالہ بوڑھے پر کیلی فورنیامیں اس وقت تشدد کیا گیاجب وہ مارننگ واک کر رہا تھا ؛چنانچہ اس کی موت واقع ہو گئی۔اسی ہفتے ایک باون سالہ خاتون جو کوئنز میں ایک بیکری کے باہر قطار میں کھڑی اپنی باری کا انتظا رکر رہی تھی اسے اس قدر تشدد کا سامنا کرنا پڑ اکہ وہ بے ہوش ہوگئی او راسے ہسپتال منتقل کرناپڑا۔
اکثریت ایشیائی نڑاد امریکی شہریوں کے خلاف نسل پرستی پر تلی ہوئی نظر آتی ہے۔انہوں نے اپنے سابق صدر کو نفرت پر مبنی زبان استعمال کرنے کی اجازت دی جب انہوں نے کنگ فلو اور چینی طاعون جیسے الفاظ استعمال کیے تھے۔کام کے دوران میرے باس نے مجھ پر نسل پرستی کے ایشو پر بہت زیادہ حساس ہونے کا الزام لگا دیا۔مجھے کہاگیا کہ ایشیائی نڑاد امریکیوں کو تو کبھی نسل پرستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔میں کسی حد تک ان کی اس بات سے اتفاق کر تی ہوں کہ میں بہت کمزور اور بہت زیادہ ایشیائی ہونے کی وجہ سے کئی باتوں کو دل سے لگا لیتی ہوں۔جب میں نے یہ کہاکہ میری سابق لا فرم کو’’ بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے معاملے میں زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملی طو ر پر کچھ کرنا چاہئے تو میرے اسی سفید فام باس نے جو اکثربزنس میٹنگز میںOpen Kimonoجیسی اصطلاح استعمال کرتے ہیں میری بات کو بالکل ہی مسترد کردیاور بولا کہ میں ایشیائی امریکی ہونے کے باوجود امریکیوں سے بہت بہتر ہوں۔
میرے والد نے جو ایک پروفیسرتھے 1992ء میں چین میں اس بنا پراپنی ملازمت چھوڑی تھی کیونکہ وہ بانیانِ امریکا کے وضع کیے ہوئے مساوات اور دیگر انسانی حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے۔تین عشرے گزرنے کے بعد وہ اب امریکا میں اپنے گھر سے قدم باہر نکالنے سے گریز کرتے ہیں۔جب نئے قمری سال پر میں نے ان سے اس بارے میں استفسا رکیا تو انہوں نے اس امید پر خاموش رہنے کو ترجیح دی کہ حالات یقینا بہتر ہوجائیں گے۔میرے ایامِ بلوغت میں وہ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارے راستے میں جو بھی مشکلات آئی ہیں ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔امریکامیںسب کچھ اچھا ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔