... loading ...
(مہمان کالم)
پی چدمبرم
آیا بھارتی معیشت ترقی کی جانب گامزن ہے؟ یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے لیکن مرکزی حکومت اس این ایس او پر خوشیاں منا رہی ہے جس میں گزشتہ مالی سال کی تیسرے سہ ماہی کے دوران 0.4 فیصد معاشی نمو کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ملک گزشتہ مالی سال میں کورونا وائرس وباسے شدید متاثر رہا‘ دوسری طرف معیشت سے متعلق نااہلی اور ناقص پالیسیوں نے بھی زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ این ایس او کے مطابق مارچ 2021 ء میں ختم ہونے والے مالی سال40 سال میں پہلی مرتبہ 134.09 لاکھ کروڑ جی ڈی پی کے ساتھ اختتام کو پہنچے گا جو کہ بدترین ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت 0.4 فیصد نمو کا جشن منا رہی ہے لیکن تیسرے سہ ماہی میں 0.4 فیصد شرح نمو ایک عارضی راحت ہے۔ جو نمو حکومت نے ظاہر کی ہے وہ پوری طرح زراعت اور جنگلات کی جانب سے درج کروائی گئی 3.9 فیصد اور شعبہ تعمیرات کی جانب سے درج کروائی گئی 6.2 فیصد نمو سے ہے‘ جبکہ کان کنی‘ مینوفیکچرنگ‘ ٹریڈ‘ ہوٹلوں اور نقل وحمل کے شعبوں میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر ہم گراس فکسڈ کیپٹل فارمیشن (GFCF) کاجائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سال 2018-19ء اور سال 2019-20ء کی نسبت بہت کم ہے۔ اگر جی ڈی پی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ 30.9 فیصد ہے۔ تیسرا جو اہم نکتہ راقم الحروف بیان کررہا ہے وہ یہ ہے کہ برآمدات 25,58,162 کروڑ روپے جبکہ درآمدات 27,33,144 کروڑ روپے بتائی گئی ہیں۔ درآمدات اور برآمدات دونوں پچھلے دو برسوں کی نسبت بہت کم ہیں۔ جی ڈی پی کے تنا سب سے دیکھا جائے تو یہ 19.4 فیصد اور 20.4 فیصد بنتے ہیں۔ چوتھی اہم بات یہ ہے کہ فی کس آمدنی سے متعلق جی ڈی پی ایک لاکھ سے گر کر 98,928 ہوگئی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک غریب ہوگیا ہے۔سوائے ان ارب پتیوں کے جن کی تعداد 2020 ء میں بڑھ کر 40 تک ہوگئی۔ لاکھوں کروڑوں لوگ خط ِغربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور جو لوگ پہلے ہی سے خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے بے سہارا ہوگئے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقروض ہندوستانیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوگا کیونکہ موجودہ معاشی حالات نے لوگوں کو اس قدر مجبور کردیا ہے کہ وہ قرضہ حاصل کریں۔ جہاں تک معاشی انحطاط اور کورونا وائرس کی وباکا سوال ہے اس کے اثرات معیشت کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہوئے اور ان کا سلسلہ جاری ہے۔ معاشی انحطاط اور کورونا وائرس کی وبا نے خاص طور پرخوراک‘ تعلیم اور صحت کے شعبے کو بہت متاثر کیا۔ دوسرے لفظوں میں ان دو رجحانات نے عوام کی صحت‘ عوام کی تعلیم اور غذا کو بری طرح متاثر کرکے چھوڑا اور اس کا زیادہ سنگین اثر غریبوں اور ان کے بچوں پر پڑا ہے۔ جہاں تک ریزرو بینک آف انڈیا کا معاملہ ہے تو بھارت کے مرکزی بینک نے قومی معاشی صورتحال کا بڑے صاف صاف انداز میں جائزہ لیا ہے حالانکہ حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں اور بجٹ پیش کیا ہے اس پر تنقید کی جارہی ہے لیکن حکومت ہے کہ اس تنقید کو کوئی اہمیت نہیں دے رہی۔ اس موضوع پر فروری 2021ء کے آرٹیکل میں مَیں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ آج اس بارے میں بہت ہی کم شک و شبہ ہے کہ کھپت کے احیاکی بنیاد پر معاشی حالت بہتری کی جانب رواں دواں ہے لیکن ایسا بھی لگتا ہے کہ اس قسم کا احیاکھوکھلا ہے اور زیادہ دنوں تک چلنے والا نہیں۔ اصل کلید یہ ہے کہ سرمایہ کاری کی بھوک کو تیز کیا جائے ‘ ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا جائے‘ ترقی کے انجن کو تیزرفتار بنایا جائے ‘لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ خانگی یا نجی سرمایہ کاری کسی عمل سے قاصر ہے جبکہ یہی لگ رہا ہے کہ وقت کی دھاریں نجی سرمایہ کاری کے مخالف چل رہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نجی سرمایہ کاری نہ ہو رہی ہو تو ایسے میں ہندوستانی صنعتی شعبہ اور صنعت کار کیا ہاتھ ملتے رہیں گے؟ کیا ان کے صنعتی یونٹس میں پیداوار ٹھپ ہو کر رہ جائے گی؟ حکومت کو خوشیاں منانے کے بجائے خانگی شعبہ میں سرمایہ کاری کے امکانات پیدا کرنے چاہئیں اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ چوتھی سہ ماہی میں معاشی نمو کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح سال بھر میں معاشی نمو کا تخمینہ کیا کیا جاتا ہے؟ ہماری حکومت کو صحت اور تعلیم کے شعبوں کے عشاریوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ معاشی صورتحال نے سب کو فکرمند کردیا ہے دوسرے محاذ پر ایک اور بری خبر ہے۔ آزادی اور جمہوریت کے معاملے میں جو درجہ بندی ہوتی ہے اس میں بھارت کا مقام گر گیا ہے۔ مثال کے طور پر ورلڈ پریس فریڈم انڈکس کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ 180 ممالک میں بھارت کا مقام 142 ہوگیا ہے جبکہ ہیومن فریڈم انڈکس (ایچ ایف آئی) کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 162 ممالک میں 111 نمبر ہے۔ امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہائوس نے حال ہی میں اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں اس نے بھارت کے بارے میں کہا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کا رجحان کم ہوا ہے۔ اس معاملے میں پہلے بھارت کا ا سکور 100 میں سے 71 تھا جو گھٹ کر 100 میں سے 67 ہوگیا ہے۔ اس طرح مذکورہ امریکی تھنک ٹینک نے بھارت کو جزوی آزادی کے زمرہ میں رکھا ہے۔ اگر عالمی سطح پر مختلف تنظیموں کی جانب سے دیے جانے والے نمبروں یا درجہ بندی پر غور کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ خاص طور پر درجہ یا نمبر اہم نہیں ہوتا بلکہ جو چیز اہم ہوتی ہے وہ سوچ اور فکر میں گراوٹ اور اس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر ہونے والے اثرات ہیں۔ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے میڈیا نے خود کو حکمران جماعت کے ہاتھوں سونپ نہیں دیااور ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا حصہ حکومت کے لیے ریکارڈ پلیئر کی طرح بن چکا ہے؟ کیا اس بات سے بھی انکار کیا جاسکتا ہے کہ خواتین‘ مسلمانوں‘ عیسائیوں اوردلتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے (دیکھیں این سی آر بی ڈیٹا) اور اس قسم کے جرائم کو حکمران جماعت نظرانداز کررہی ہے؟ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گردی سے لے کر کورونا وائرس پھیلانے تک ہر چیز کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے؟ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی حکومت آمرانہ اقدامات کررہی ہے اور مطلق العنان بن گئی ہے؟ فوجداری قوانین کا بے جا استعمال کررہی ہے‘ عوام پر قوانین محاصل اور محاصل سے متعلق نظم و نسق تھونپا جارہا ہے‘ پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں جابرانہ اقدامات کررہی ہیں اور معاشی پالیسیاں ایسی بنائی جارہی ہیں جس سے دولت مندوں کو فائدہ اور غریبوں کو نقصان ہو۔ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں خوف پھیلایا جارہا ہے؟ تازہ ترین واقعہ میں جو دارالحکومت دہلی میں پیش آیا ایک ایسی سازش رچائی گئی کہ کس طرح حکومت کے خلاف لکھنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے حالانکہ جھوٹی اور فرضی خبریں کون پھیلا رہا ہے اور اس طرح کی خبریں پھیلانے والوں کی سرپرستی کون کررہا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ ایک طرف گرتی معیشت اور دوسری طرف زوال سے دوچار آزادی ہے اور جب یہ دونوں ملتے ہیں تو ان کا مرکب بہت دھماکہ خیز ہوتا ہے۔ اقتصادی اور آزادی سے متعلق زوال اور تباہی کو روکنا بہت ضروری ہے۔ پنجاب‘ ہریانہ اور اْترپردیش کے کسانوں نے مزاحمت کی راہ کا انتخاب کیا جبکہ آسام‘ مغربی بنگال‘ کیوالا‘ پڈوچیری اور تامل ناڈو کے رائے دہندگان کے سامنے ایک اور راہ ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔