وجود

... loading ...

وجود

ایک ’’پی ڈی ایم‘‘اور تین راستے

پیر 22 مارچ 2021 ایک ’’پی ڈی ایم‘‘اور تین راستے

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ المعروف پی ڈی ایم اتحاد اتنا صحت مند،توانا اور مضبوط تو خیر سے کبھی بھی نہیں تھا کہ وہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کو سیاسی ،پالیمانی اور احتجاجی لڑائی میں پچھاڑ سکتا ۔مگر سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کے متفقہ اُمیدوار سید یوسف رضا گیلانی کی حیران کن اور غیرمعمولی جیت کے بعد اتنی اُمید ، اور توقع بہر حال پی ڈی ایم سے ضرور استوار ہوگئی تھی کہ یہ اپوزیشن اتحاد ،تحریک انصاف کی حکومت کو بھلے ہی نہ گراسکے ، لیکن اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کر کے ،نہ صرف چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر حاصل ہونے والی اپنی عبرت ناک ہزیمت کا غم کچھ ہلکا کرسکتاہے بلکہ حکومت کی سیاسی پریشانیوں کو فزوں تر بھی کر سکتاہے۔شاید یہ وجہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی دانست میں 26 مارچ کی تاریخ کو پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے لیے مختص کرچکی تھی اور سینیٹ انتخابات کے’’سیاسی تماشہ ‘‘کے بعد سب ہی کو لانگ مارچ کے’’احتجاجی تماشے‘‘ کا بڑی شدت سے انتظار تھا۔ مگر پھر اچانک سے پی ڈی ایم اتحادکے جاری سربراہی اجلاس سے خبر برآمد ہوتی ہے کہ بھانت بھانت کے سیاسی جلسے ، انتخابی میلے اور احتجاجی تماشے دکھانے والے پی ڈی ایم اتحاد کا سرِ راہ اپنا تماشا بن گیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بے شمار سیاسی اتحاد بنتے بھی رہے ہیں اور بوقت ضرورت ٹوٹتے بھی رہے ہیں ۔اس لیے سیاسی اتحادوں کا ٹوٹنا کبھی کوئی معنی نہیں رکھتا ،لیکن جس’’عامیانہ انداز ‘‘میں پی ڈی ایم اتحاد ریزہ ،ریزہ ہوا ہے ۔ ایسی سیاسی رسوائی شاید ہی تاریخ میں کبھی اپوزیشن جماعتوں کے نصیب میں کاتبِ تقدیر نے لکھی ہو۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد کی اس ساری ٹوٹ پھوٹ میں حکومت کا ذرہ برابر بھی ’’انتظامی کردار‘‘ شامل نہیں ہے۔یعنی اس ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔

 

پی ڈی ایم اتحاد کا سیاسی چشم و چراغ بھی وہ موصوف، جس نے ابھی کچھ دن قبل ہی حکومت کی پارلیمانی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر پی ڈی ایم اتحاد کے تن مردہ میں سیاسی و احتجاجی توانائی کی ایک نئی روح پھونک کر ساری دنیا پر ثابت کردیا تھا کہ عمر کے اِس نازک ترین حصے میں بھی ’’ایک زرداری ، سب پہ بھاری ہے‘‘۔مگر کسی کو کیا خبر تھی کہ چند ہفتے بعد، یہ ہی زرداری اس قد ر بھاری بھرکم ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم ہی اس کے بوجھ تلے بے دردی سے کچلی جائے گی۔ دراصل آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم اتحاد کا مستقبل داؤ پر لگا کر پاکستان پیپلزپارٹی کا حال اور بلاول بھٹو زرداری کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ بنا لیا ہے اور سیاست تو نام ہی بے ہنگم ہجوم کی قربانی دے کر اپنی سیاست کو کمال مہارت سے صاف بچالینے کا ہے ۔اگر آصف علی زرداری نے دور اندیشی سے کام لے کر تھوڑی سی زیادہ سیاست فرما ہی لی ہے تو اُس میں برائی کیا ہے۔ ویسے بھی اگر وہ یہ نیک کام کرنے میں ذرا سی بھی چُوک یا تاخیر کردیتے تو یہ ہی بدنامِ زمانہ سیاسی ہاتھ نواز شریف یا فضل الرحمن میں سے کوئی ایک اُن کے ساتھ دکھا جاتا ۔کیونکہ ماضی تونواز،زرداری اور فضل الرحمن تینوں کا ہی ایسی سیاسی کاریگری سے برابر آلودہ ہے۔یوں سمجھ لیں کہ پی ڈی ایم کے ساتھ آج نہیں تو کل بھی ہونا ،یہ ہی سب تھا۔

 

ہمارے کچھ دوستوں کو خیال ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی ہے ،نیز چند تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ پی ڈی ایم مرچکی ہے ،جبکہ بعض خوش عقیدہ ،اور اپوزیشن سے خاص تعلقِ خاطر رکھنے والے سیاسی ماہرین کو ہنوز اُمید ہے کہ ابھی پی ڈی ایم زندہ ہے ۔ ہم نے سب دوستوں ہی کی رائے کو باہم ملاکر پی ڈی ایم کی صحت ، زندگی اور موت سے متعلق ایک مشترکہ اور محتاط نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد ، زرداری کی بھاری بھرکم سیاست تلے دب کر بُری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کر دائمی طور پر سیاسی معذور ی کا شکار ضرور ہو چکا ہے ،لیکن بہر کیف زندہ ہے ۔ ایک ایسے قریب المرگ بدقسمت جان دار کی طرح جس کا ’’سیاسی توازن ‘‘ بھی مکمل طور پر اُلٹ چکا ہو۔یاد رہے کہ پی ڈی ایم اتحاد کے رہنماؤں کا بگڑا ہو ایہ ہی سیاسی توازن آنے والے ایام میں غلط سیاسی فیصلوں کی شکل و صورت میں وزیراعظم پاکستا ن جناب عمران خان کی حکومت کو مزید سیاسی قوت اور طاقت فراہم کرنے کا باعث بھی بن سکتاہے۔بظاہر پی ڈی ایم اتحاد، عمران خان کی حکومت کو کمزور یا ختم کرنے کے لیے معرض ِ وجود میں آیا تھا لیکن شومئی قسمت کہ اَب اپوزیشن رہنماؤں کی حالیہ سیاسی حالتِ زار ہی تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ’’سیاسی آکسیجن ‘‘کا کام دے رہی ہے اور پی ڈی ایم اتحاد کی اپنی حالت ایک ایسے خطرنا ک اور زہریلے سانپ کی مانند بن چکی ہے ،جس کا تمام تر زہر نکال کر سپیرے نے اُسے اپنی پٹاری میں بند کرلیا ہے۔

 

واضح رہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے بے ضرر سے اِس سانپ کے پاس اَب فقط تین ہی راستے باقی بچے ہیں۔ پہلا محفوظٖ راستہ تو یہ ہے کہ وہ سیاسی سپیرے، آصف علی زرداری کی سیاسی خواہشات کے عین مطابق ’’سیاسی تماشہ‘‘ پاکستانی عوام کو بدستور دکھاتا رہے۔اس طرح سیاست میں خوب رونق میلہ بھی لگا رہے گا اور پی ڈی ایم کا سانپ طویل عرصے تک زندہ بھی رہ سکے گا۔ دوسرا غیر محفوظ راستہ پی ڈی ایم کے سانپ کے پاس یہ ہے کہ وہ سپیرے سے نظر بچا کر اور موقع ملتے ہی پٹاری سے نکل کر فرار ہو جائے مگر اس سیاسی ایڈونچر میں پی ڈی ایم کا زخمی،کمزور اور ناتواں سانپ کسی بھی لمحے، حکومت کے لیے لقمہ تر بھی بن سکتا ہے۔جبکہ پی ڈی ایم کے سانپ کے پاس تیسرا اور آخری مفاہمتی راستہ یہ ہی بچتا ہے کہ وہ بھی سنپولیوں کی قدیم نسلی روایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اپنی کینچلی بدل کر حکومت ِ وقت سے صلح و صفائی پر مبنی کوئی بامعنی قسم کے’’خفیہ مذاکرات‘‘ کرلے ۔یہ مشکل اقدام نہ صرف، اُسے سپیرے کے سیاسی قید سے نجات دلوا سکتاہے بلکہ اس طرح سے اُسے اپنا سیاسی زہر بھی پھر سے واپس مل سکتا ہے۔بہرحال فیصلہ پی ڈی ایم نے ہی کرنا ہے کہ اُس نے سپیرے کے پٹاری میں رہنا ہے یا پھر ریاست پاکستان کی عمل داری میں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر