وجود

... loading ...

وجود

جب سات، ساتھ نہیں تھے

پیر 15 مارچ 2021 جب سات، ساتھ نہیں تھے

ایوانِ بالا میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے اُمیدوار عبدالغفور حیدری نے مرزا محمد آفریدی سے عبرت ناک شکست کھانے کے فوراً بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پی ڈی ایم کو اپنے گریبان میں بھی جھانکناچاہئے‘‘۔ یاد رہے کہ عبدالغفور حیدری نے اپنے اس بیان میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے جس ’’چاکِ گریبان ‘‘ کی جانب اشارہ کیا ہے ۔بادی النظر میں یہ اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں کا وہی گریبان ہے جسے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے دوران وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت نے پوری طرح سے چاک کر دیا ہے۔دراصل عبدالغفور حیدری اپنے بیان کے توسط سے جمعیت علمائے اسلام ف کی اعلی قیادت کو یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ اگر پی ڈی ایم ایک بار اپنے گریبان میں جھانک لے تو اُسے باآسانی معلوم ہوجائے کہ پی ڈی ایم کے مضبوط ’’سیاسی گریبان‘‘ کو باہری کنارے سے نہیں بلکہ اندرونی طور پر اندرونی دوستوں کی جانب سے ہی چاک کیے جانے کی ’’سیاسی واردات ‘‘ کی گئی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد میں شامل گیارہ جماعتوں میں سے کس جماعت نے اتنی بڑی ’’انتخابی بغاوت ‘‘ کرنے کی جسارت کی ہوگی۔ پہلا شک تو مسلم لیگ ن پر ہی کیا جارہا ہے کہ اُ ن کے سینیٹرز نے اپنے دوسرے درجے کے قائد میاں شہباز شریف کی خفیہ ہدایات کے عین مطابق یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے کے بجائے ،اُسے ضائع کرکے اپنی صف اول کی قائد محترمہ مریم نواز پر واضح کردیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر ز کسی بھی صورت میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ’’سیاسی مفادات ‘‘ کی ساری بالائی تن تنہا ہڑپ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔لہٰذا مسلم لیگ ن کے سات سینیٹرز نے پوسف رضا گیلانی کے نام کے اُوپر مہر لگا کر پیپلزپارٹی کو ایوانِ بالا میں مزید اُوپر جانے سے روک دیا ہے۔

دوسرا شک پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹرز پر کیا جارہاہے کہ جنہوں نے جب دیکھا کہ اُن کے نامزد کردہ اُمیدوار سید یوسف رضاگیلانی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب سات مسترد شدہ ووٹوں کے باعث ہار چکے ہیں تو پیپلزپارٹی کے سینیٹرز نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا ووٹ عبدالغفور حیدری کو ڈالنے کے بجائے حکمران اتحاد کے اُمیدوار مرزا محمد آفریدی کے کھاتے میں فقط اس لیے ڈال دیا ،تاکہ مولانا فضل الرحمن ڈپٹی چیئرمین کے لالچ میں آکر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے مبینہ طور پر ’’غداری ‘‘ کے مرتکب نہ ہوسکیں ۔ یاد رہے کہ عبدالغفور حیدری بھی اپنے بیان میں ڈھکے ،چھپے لفظوں میں یہ ہی کچھ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے سید یوسف رضاگیلانی کے ہارنے کے بعد ایوان بالا کے باہر میڈیا کے نمائندوں کے سامنے ایسا منفی تاثر دیا، جیسے کہ سینیٹ انتخابات کا سارا کھیل، صادق سنجرانی کی جیت کے ساتھ ہی ختم ہوگیا ہے اور اَب انہیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے نتائج سے قطعی دلچسپی نہیں رہی۔ حالانکہ اُصولی طورپر ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کا حتمی نتیجہ آنے کے بعد ہی ایوانِ بالا کے انتخابی نتائج کے متعلق اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں کو اپنے سیاسی خیالات عالیہ کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تو ساری بساط ہی اپنے نامزد اُمیدوار سید یوسف رضا گیلانی کی جیت کے لیے ہی بچھائی تھی ،جب انہیں ہی مات ہوگئی تو پھر سینیٹ انتخابات میں عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین بنانا تو خود اپنے لیے ایک ’’سیاسی مصیبت ‘‘ پالنے کے مترادف تھا ۔لہٰذا آصف علی زرداری نے اپنے اہم ترین مہرے کے پٹ جانے کے بعد پوری بساط ہی اُلٹ دی اور یقینا شطرنجی سیاست کا ہر چالاک کھلاڑی ایسا ہی کرتا۔ویسے بھی اپنے شہ کو بُری طرح سے مات ہوجانے کے بعد آصف علی زرداری نے عبدالغفور حیدری جیسے پیادہ کے ساتھ آگے کھیل کر بھلا حاصل بھی کیا کرلینا تھا۔

اپوزیشن اتحاد میں شامل بعض رہنماؤں کی طرف سے تیسرا شک جمعیت علمائے اسلام ف کی قیادت پر کیا جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے اُمیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنوانے کے لیے خفیہ طور پر حکومتی حلقوں سے ساز باز کرلی تھی اور قوی خدشہ ہے کہ 7 اپوزیشن سینیٹر کو سید یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگا کر اپنا ووٹ مسترد کروانے کی’’خفیہ تربیت ‘‘ بھی مولانا کی جانب سے ہی فراہم کی گئی تھی۔ تاہم سید یوسف رضا گیلانی کے ہارتے ہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو احساس ہوگیاکہیں مولانا اُن کے ساتھ خاموشی سے ہاتھ تو کرنے نہیں جارہے اور اپنے اسی اندیشے کو ختم کرنے کے لیے دونوں جماعتوں نے جان بوجھ کر اپنے 7 ووٹ تحریک انصاف کے اُمیدوار مرزامحمد آفریدی کو ڈال کر ڈپٹی چیئر مین سینیٹ بنوادیا ۔ اس طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایوان بالا کے انتخابات سے قبل چلنے والی اُن خبروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ،جن میں کہا جارہاتھا کہ ’’ صادق سنجرانی کو چیئر مین سینیٹ اور مولانا غفور حیدری کوڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنوا کر پی ڈی ایم اتحاد کا مردہ ایوان ِ بالا کی راہ داریوں میں ہی دفنا دیا جائے گا۔
بہرکیف نو منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے 48 اورڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی کے54 حاصل شدہ ووٹوں نے ثابت کردیا کہ حکمران اتحاد اِس مرتبہ ابتداء سے لے کر انتہا تک پوری طرح سے متحد و یکجان تھا۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اس بار میڈیا کو بھی شکوک وشبہات کے تمام سائے اپوزیشن سینیٹر ز کے سروں پر ہی لہراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ نیز ایوانِ بالا کے حالیہ نتائج نے پاکستانی عوام کو بھی بخوبی سمجھا دیا ہے کہ ایک زرداری اس قدر بھی بھاری نہیں ہے ،جس قدر اُس کے بارے میں میڈیا میں ڈھول پیٹا جاتا رہاہے ۔دراصل زرداری کے سیاسی جثہ میں جوڑ توڑ کی ہوا ،’’کوئی اور‘‘ بھرتا ہے اور اگریہ ہی’’ کوئی اور‘‘ ایک زرداری کے سیاسی تن ِ نازک میں ہوا نہ بھرے تو پھر زرداری کی سیاست کا ہلکا پن قابل دید ہی نہیں بلکہ قابل عبرت بھی بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر