... loading ...
ایک زمانہ تھا، بلکہ اب بھی شاید وہی زمانہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ’’پریشر ‘‘ برداشت نہیں کر پاتے تھے ۔اور اُن، بالز پر بھی آؤٹ ہوجاتے تھے ، جن بالز کوخود پتا بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ آؤٹ کرنے کیلئے پھینکی گئی ہیں ،یا چھکا کھانے کیلئے ۔ پریشرلینے کی یہ نفسیاتی عادت کرکٹرز کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں ، اداروں اور قوم میں بھی سرایت کرگئی۔
پی ایس ایل منسوخ کرنے کا پی سی بی کا فیصلہ ہی لے لیں۔کورونا نے پی سی بی کو ایسا پریشر میں لیا کہ وہ ٹورنامنٹ ہی ملتوی کرڈالا،جس کیلئے لاکھوں ڈالر داؤ پر لگا چکا تھا بلکہ کراچی کے دسیوں لاکھ عوام کوبھی عزاب میں ڈال چکا تھا۔عوام اس خیال میں تھے کہ تیزی سے دن گزریں اورعلاقے میں کرفیو جیسی صورتحال سے جان چھوٹے ۔ لیکن ان کے ذہن پر اب یہ بوجھ طویل کردیا گیا ہے کہ ، پی ایس ایل ابھی مکمل ہونا باقی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کورونا پازیٹو کھلاڑیوں کو سائیڈ لائن کردیا جاتا اور ٹورنامنٹ جاری رکھاجاتا ۔کیونکہ کورونا تو اب ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہے گا۔ چاہے آپ ٹورنامنٹ جاری رکھیں ، یا ایک ماہ بعد کرائیں یا ایک سال بعد،آپ کی تمام پریکٹس اب کورونا سے جڑی ہی رہے گی۔کھیل سے پہلے ، کھیل کے درمیان اور کھیل کے بعد ٹیسٹ کراتے کراتے ہی آپ خود نفسیاتی مریض نظر آنے لگیں گے۔ کیونکہ کورونا اب بیماری تو اپنی جگہ ہے لیکن اب یہ بیماری سے ذیادہ وہم کی شکل اختیار کرگئی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ کورونا اب اتنا خطرناک نہیں رہا۔جتنا کہ اس کا پریشر لیا گیا۔پی سی بی نے اپنے ہی سجائے گئے پی ایس ایل میلے کو اجاڑ کر عوام کو شدید کوفت سے دوچار کیا۔حالانکہ ان پر کوئی خاص عالمی یا عوامی دباؤ بھی نہ تھا۔اسے کہتے ہیں نفسیاتی دباؤ سے بلاوجہ متاثر ہوجانا۔
نفسیاتی دباؤ پر یاد آیا کہ ڈسکہ الیکشن میں بیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں مبینہ دھاندلی کے خدشے پر ، الیکشن کمیشن نے پورے حلقے کا ہی نتیجہ منسوخ کرڈالا۔اس معاملے میں الیکشن کمیشن بھی پی سی بی کی طرح پریشر کے شدید دباؤ میں نظر آیا۔اس دباؤ کا تعلق بھی نفسیاتی ہی زیادہ لگتا ہے کہ کیونکہ اس بارے میں میڈیا پر شور و غوغا اس قدر تھا کہ لگتا ہے یہ ادارہ اس سے متاثر ہوگیا۔کیا کریں کہ اب ادارے اپنے کام کے بجائے اس شور و غوغے کی روشنی میں فیصلے ذیادہ کرتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے ڈسکہ کے حلقے این اے 75 میں ٹوٹل پولنگ اسٹیشنز 360 تھے ، جب کہ دھاندلی کے الزامات صرف 20 پولنگ اسٹیشنز پر عائد کئے گئے تھے ، باقی 340 میں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔لیکن پھر بھی تمام تر حلقے کے نتیجے کو کالعدم قراردے دیا گیا، جو الیکشن کمیشن کے بظاہر کسی دباؤ سے متاثر ہونے کا ہی ثبوت تھا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پریشر کا دباؤ لینے کی ایک اور بڑی مثال اس وقت سامنے آئی، جب سپریم کورٹ نے رائے دی کی سینیٹ الیکشن کا انتخاب بھلے خفیہ ہو لیکن ووٹ دینے والے ارکان کی شناخت کا ریکارڈ رکھا جاسکتا ہے ۔تاہم الیکشن کمیشن نے آئین کو آڑ بناتے ہوئے تمام معاملات کو جوں کا توں رکھا اورسینیٹ الیکشن پرانے قوانین کے تحت ہی کرادیئے ۔نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔
نتیجہ تو ایک اور بھی آیا ، جس کے نتیجے میں کئی بڑے نتائج نکلنے کی امید کی جارہی ہے ۔یعنی گیلانی کی سینیٹ میں فتح کی کہانی۔ یہ کہانی جس نے بھی لکھی، کرداروں نے اپنے کردار کے ساتھ خوب انصاف کیا۔اس کے آفٹر افیکٹس نے بھی فریق مخالف پر نفسیاتی وار کیا۔اور عمران خان جیسا بندہ بھی پریشر کے دباؤ میں آگیا۔اسی دباؤ میں انہوں نے فوری اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرڈالا۔کپتان ایک طرف تو سینیٹ میں پیسہ چلنے پر افسوس کا اظہار کررہے تھے ، اور گیلانی کی کامیابی کیلئے اپنائے گئے حربوں کو غیر اخلاقی قرار دے رہے تھے تو دوسری ان غیر اخلاقی حربوں کے جواب میں اعتماد کے ووٹ لینے کا اعلان کرنا بھی نفسیاتی دباؤ کی شکل کے طور پر نظر آیا۔ ورنہ تو صاف کہہ دیتے کہ کہ نہیں لیتا اعتماد کا ووٹ ، کوئی اخلاقیات نہیں دکھانی تم جیسے غیر جمہوری لوگوں کو۔ جاؤ کرلو جو کرنا ہے ۔اور نتیجہ بھی کیا نکلا اس اخلاقی اعلان کا؟ مخالفین نے سراہنے کے بجائے الٹا بغلیں بجائیں اور کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا ڈراما نہ کرو اور ڈائریکٹ کرسی چھوڑو۔ تو یہ ہوتی ہیں اخلاقیات۔ اور پریشر کا دباؤ لینے کا الٹا نقصان۔
یہ پریشر کا دباؤ میڈیا کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے لیکن خود میڈیا ارکان بھی کئی طرف سے اسی دباؤ سے دبے نظر آتے ہیں۔پاکستان میں کوئی بھی عمل چاہے وہ کتنا بھی برا یا اچھا کیوٍں نہ ہو اسکرین پر آکر فوری ہی پس پردہ چلا جاتا ہے ۔اور دوسرا کھیل اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔مثال کے طور پر جب سندھ میں جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے تو زرداری خاندان اور پوری پیپلز پارٹی بیک فٹ پر چلی گئی، اور جب کیسز کی سماعتیں شروع ہوئیں تو ملزمان کو ٹی وی اس قدر ٹائم ملا کہ کیس ہی پیچھے چلا گیا اور ملزمان سیاسی طور پر پھر قوی ہوتے چلے گئے ۔اور پھر بعد میں سیاسی اتحاد بنتے گئے اور اصل معاملہ سیاست میں چھپتا گیا۔ بات کیونکہ پریشر کے دباؤ کی ہورہی ہے تو سندھ کے صحافی بھی پریشر کے دباؤ سے محفوظ نہیں، سندھ ہی کیا، پورے پاکستان میں یہی حال ہے ،کراچی میں جب صحافی وزرا سے سوال کرتے ہیں تو سوال ستائشی ہوتا ہے حالیہ انتخابی معاملے میں کسی صحافی نے مختلف ایونٹس کے دوران وزرا سے ناصر شاہ کی آڈیو کی بابت سوال نہ کیا۔اسی طرح جب بلاول سے صحافیوں کا سامنا ہوتا ہے تو کبھی جعلی اکاؤنٹس کے منظم نیٹ ورک پر سوال نہیں کیا جاتا۔
یہی صورتحال ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہے ۔صحافی خاص طور پر ان رہنماؤں کو زیادہ مقدس گائے کے طور پر لیتے ہیں ، جن پر مقدمات ہوں۔ تو جناب یہ ہیں دباؤ کی کچھ مثالیں ، جن کا ہمارا معاشرہ ،گروہ اور ادارے شکار نظر آتے ہیں۔لیکن کیا کیجئے اس دباؤ سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ایک معاملے کے بعد دوسرا معاملہ سامنے آکر اس پریشر میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہے ۔ رہے نام اللہ کا ۔۔
٭٭٭٭