... loading ...
امریکی صدرکی تبدیلی سے ایران کی بجائے سعودی عرب کے لیے مسائل بڑھنے لگے ہیں ٹرمپ نے صدر کے ساتھ اسلحہ کے تاجر بھی رہے مگر اب لگتا ہے نئی قیادت کے پیش نظر معاشی اہداف کے ساتھ انسانی حقوق کا تحفظ بھی ہے یہ الگ بات ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی صرف ایسے ممالک میں نظر آتی ہے جہاں مفادات کم ہوں جوتزویراتی حلیف ہوں وہاں قتلِ عام ہو یا گرفتاریاں لب کشائی سے گریز کیا جاتا ہے یہ دوہرا معیار ہی جنوبی ایشیا میں واضح نظر آتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں شاہ فیصل کے بعدسعودی قیادت نے ہمیشہ امریکی طرفدارہو کر منظورِ نظر کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا قصد کیا تو سعودی عرب نے اسلحے کی بڑی ڈیل سے مہمان کادل جیتنے کی کوشش کی کیونکہ دس ارب ڈالر سے امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں بڑے پیمانے پر کام شروع ہوا مگر اب امریکی تیور بدل رہے ہیں دونوں ممالک کے تعلقات میں سردمہری اور کھنچائو سا ہے قطر کے بائیکاٹ کے ایام میں بھی سعودی قیادت کوامریکی رویے سے شاک لگاواشنگٹن نے دوحہ سے فاصلہ رکھنے کی بجائے قربت بڑھائی اب بھی باربارحملوں کے باوجودریاض کے تقاضے پرامریکا نے حوثی باغیوں کو دہشت گرد قرار نہیں دیا بلکہ اب تو ایسی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ حوثیوں سے امریکا مراسم اُستوار کر چکاہے تاکہ علاقے میںبحری قزاقوں کو قدم نہ جمانے دیا جائے اور سمندری تجارت بلاروک ٹوک جاری رہے اٹھائیس فروری اور یکم مارچ کوچوبیس گھنٹوں کے دوران سعودی عرب پر سات ڈرون اور میزائل حملے ہوئے جس کی امریکا نے مذمت تک نہیں کی جو سے دونوں ممالک میں بڑھتے فاصلے کاثبوت ہے سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی میں تعطل آنے لگا ہے وجہ کیا ہے عالمی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین جواب کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں کیونکہ اتنی جلدی دوقریبی اتحادیوں کے تعلقات میں بگاڑخلافِ توقع ہے برسوں سے خطے میں امریکی مفادات کے محافظ سے اچانک بے رُخی کی بادی النظر میں کوئی وجہ نظر نہیں آتی مگر ریاستوں کے تعلقات اصول یا کسی ضابطہ اخلاق کی بجائے مفادات کے تابع ہوتے ہیں اسی لیے وقت کے ساتھ تعلقات میں اُتارچڑھائو آتارہتا ہے ۔
وائٹ ہائوس کی ترجمان جین سکی نے رواں ہفتے ہی یہ عزم ظاہر کیا کہ دیرینہ تعلقات کی بناپراگر سعودی عرب پر حملہ ہوتا ہے تو ہم سعودیہ کا ساتھ دیں گے اور اِس حوالے سے جلد خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے صدرجوبائیڈن رابطہ کرنے کا ارادہ ہے مگر امریکی نبض شناس کہتے ہیں کہ جو بائیڈن کے رابطے کی بڑی وجہ ترکی میں سعودی عرب کے سفارتخانے میں مارے جانے والے معروف صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہوسکتا ہے کیونکہ پہلی بارامریکی انٹیلی جنس نے کانگرس کو پیش کی جانی والی رپورٹ کے مندرجات میں ولی عہدشہزادہ محمدبن سلیمان کانام لیا ہے جسے سعودی عرب نے مسترد کرنے میں تاخیر نہیں کی دوسری طرف متحدہ عرب امارات ،کویت ،بحرین ،خلیجی تعاون کونسل اور عرب پارلیمنٹ نے بھی امریکی رپورٹ پر سعودی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودیہ کی وجہ سے علاقائی امن برقرارہے مگر امریکاکا خیال مختلف ہے بظاہر وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی رپورٹ پیش ہونے کے بعد سعودی عرب سے تعلق کو اہم قراردیتے ہوئے مشترکہ مفادات کے لیے مملکت کے دفاع کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن بیان اور عمل میں کافی تضاد ہے خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی قیادت کے لہجے میں آنے والی تلخی کی وجوہات میں ایک سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر ہونے والی پکڑدھکڑ بھی ہے کیونکہ کچھ ایسے افراد پر بھی سختیاں کی گئی ہیں جو امریکا کے منظورِ نظر ہیں لیکن ولی عہد شہزادہ محمد نے سختی کرتے ہوئے کاِس پہلو کو قطعی اہمیت نہیں دی انھوں نے بدعنوانی کے نام پر اقدامات سے نہ صرف مستقبل میں اقتدار کے لیے خطرہ کا باعث بننے والوں سے جان چھڑالی ہے بلکہ نیوم کے نام سے نیا شہر بسانے کے لیے بھی اربوں ریال کا بندوبست کر لیاہے جس پرمریکی ناخوش ہیں اور ولی عہد پر دبائو ڈال کر امریکیوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں سے نرمی چاہتے ہیں ۔
یمن میں آئینی حکومت کے دفاع کے لیے قائم عرب اتحادی فوج کا کہنا ہے کہ دس فروری کو حوثی باغیوں نے ابہاکے بین الاقوامی ہوئی اڈے پر جو میزائل حملے کیے جس میں ایک سویلین مسافر طیارے کو نقصان پہنچا تاہم حکام نے جہاز پر لگنے والی آگ اور دیگر نقصان پرچاہے جلد ہی قابو پا لیا مگربڑے پیمانے پر حملوں کی طاقت کسی تیسری قوت کے بغیر ممکن نہیں عرب اتحاد کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کو ہتھیار اور مالی مدد میں ایران ملوث ہے وگرنہ طویل لڑائی کی صلاحیت اور اہلیت نہ تھی مگر خدشات والزامات کی نئی امریکی انتظامیہ کو کوئی پرواہ نہیں بلکہ اُلٹا وہ ایران سے جوہری معاہدے کے احیا کے لیے کوشاں ہے حوثیوں پر پابندی سے گریز اور ایران کے خلاف کسی نوعیت کی کاروائی سے پرہیز سے سعودی قیادت کو پریشانی لاحق ہے کہاں ایران سے جوہری معاہدے میںسعودیہ کردار کا خواہشمند تھا کہاں کردار دینا تو درکنا راب سرے سے الگ تھلگ کر دیاگیا ہے جس سے ولی عہد اور شاہ سلمان ناخوش ہیں اور امریکی انتظامیہ کو اپنی طرف مائل کرنے کی کاوشیں ثمر آور نہ ہونے کی بنا پر عارضی طور پر ہی سہی کا سلسلہ روک چکے ہیں ۔
امریکااور اسرائیل دونوں ہی ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے پر بظاہرمتفق ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کرنا نہیں چاہتے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے دوٹوک لہجے میں کہا ہے کہ صبر کی بھی حدود ہیں ایران پر عائدپابندیاں نہیں اُٹھائیں گے مگر ساتھ ہی معاملہ سفارتکاری اور بات چیت سے حل کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں جب ایرانی جنرل قاسم سلمانی کو بغداد ائرپورٹ کے قریب نشانہ بنایا گیا تو ایران نے جوابی کاروائی کے دوران میزائل برسائے جس پر امریکا نے حیران کن صبروتحمل کا مظاہرہ کیا لیکن سعودی عرب کی بات ہو تو دس ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے دفاع کی طاقت سے محرومی کا الزام لگاکرتضحیک کی اسی روش پر موجودہ انتظامیہ بھی گامزن ہے اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز بھی ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے کی تیاری کا کام ذاتی جنگ نہیں اتحادیوں سے مل کر کام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں اور یہ اتحادی کون ہیں ظاہر عرب امارات کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟مگر شام پرفضائی حملوں کے دوران املاک اور سویلین آبادی کو بے دریغ نشانہ بنایا جاتا ہے مطلب ہے قول وفعل میں تضاد ہے ایرانی حکام جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے اِدارے آئی اے ای اے سے تعاون ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہیں تو جواب میں مزمتی بیان سامنے آنے کے سوا خاموشی رہتی ہے ممکنہ طورپر امریکہ اور اسرائیل کومسلم امہ میں تفرقہ بڑھانے سے غرض ہے اسی لیے وہ کوئی ایسا قدم اُٹھانے کو تیار نہیں جس سے ایران کمزور ہوبلکہ مضبوط ایران کی موجودگی مشرقِ وسطیٰ میں اہداف کے حصول کے لیے ذیادہ اہم ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سعودی قیادت دبائوکا سامنا کرنے کے لیے ثابت قدم رہتی ہے یا ملک سے قدامت پسندی ختم کرنے اور امریکی کٹھ پتلی کا کرداراداکرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے بادی النظر میں امریکی تیوربدل چکے ہیں اور سعودیہ کو ایران جبکہ ایران کو سعودیہ کاخطرہ دکھا مفادات کے حصول کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔