... loading ...
ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد وزیرِ اعظم سے استعفے کا مطالبہ ابھی مناسب نہیںلیکن ایک بات طے ہے کہ ناقص کارکردگی کی وجہ سے حکمران جماعت کی مقبولیت میں کمی آچکی ہے سندھ کے شہری علاقے ملیر اورسانگھڑو تھرپارکر جیسے دیہی علاقوں سے پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی واضح اکثریت سے کامیابی بھٹو ووٹ کی مرہونِ منت ہے مگر تحریکِ انصاف کی صفوں سے حیرانگی یا پریشانی کا تاثر نہیں ملتا بلکہ یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ سندھ میںحکمران جماعت ہونے کے ناطے پی پی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ویسے ناقص کارکردگی سے لوگ نالاں ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں جب کے پی کے میں نوشہرہ کی صوبائی نشست پی کے63 پر مسلم لیگ ن کا امیدوارکی بائیس برس کے بعد پہلی بار کامیابی کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے تو اختیارولی کی یہ کامیابی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک کی حمایت کاجواز پیش کیاجاتا ہے حالانکہ ہارنے والے امیدوار کے ووٹوں میں اتنافرق ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے حکومتی امیدوار عوامی نفرت کے سیلاب میں بہہ گئے ۔
سیاسی لوگ جواز پیش کرنے کے ماہر ہوتے ہیں مگر لازمی نہیں کہ لوگ ہر جواز پر آنکھیں بند کرکے یقین کر لیں اب دیکھیں جے یو آئی کی کرم ایجنسی سے خالی کردہ نشست این اے 45 سے حکومتی امیدوارفخرالزمان فتح مند ہوئے لیکن نوشہرہ جیسی گھر کی نشست کھو دی جب سندھ سے ملنے والی ناکامیوں میں صوبائی حکومت کے عمل دخل کی بات کی جاتی ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومت کی حمایت کے باجود امیدوار کیوں ہار جاتا ہے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر کا ہاتھ قراردینے کو دل نہیں مانتا ارے بھائی آپ کہتے ہیں پی پی سے لوگ تنگ ہیں اور جان چھڑانا چاہتے ہیںلیکن سانگھڑ اور ملیرمیں الیکشن ہوتا ہے تو پی پی کے امیدوار پی ٹی آئی کے امیدواروں کو چاروں شانے چت گرادیتے ہیں مطلب کہیں خرابی موجود ہے یہ خرابی معمولی نہیں ۔
وزیرِ آباد کی صوبائی اور ڈسکہ کی قومی نشست پر عرصہ دراز سے مسلم لیگ ن کامیاب ہورہی ہے 2018 کے الیکشن میں بھی دونوں اضلاع میں پی ٹی آئی کا ایک امیدوار بھی کامیاب نہ ہوسکا اب بھی اِن نشستوں پر کسی اور جماعت کی جیت کے امکانات کم تھے علاوہ ازیںضمنی الیکشن میں امیدوار نامزد کرتے ہوئے بھی اپوزیشن قیادت نے احتیاط کی اور کسی نئے چہرے کا تجربہ کرنے کی بجائے معروف خاندانوں کی خواتین کو ٹکٹ جاری کیا یہ مشرقی معاشرے کی روایت ہے کہ لوگ مظلوم اور غمزدہ خاندان سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں جس کا شاید حکمرانوں کو ادراک نہیں ہوتا کیونکہ اقتدار کا نشہ کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتا مزید یہ کہ خودکو عقلِ کُل تصور کر تے ہوئے یقین ہوتاہے کہ عوام نامی مخلوق کووعدوں سے بہلانا آسان ہے یہ سوچ ہی تخت سے تختے کی راہ دکھاتی ہے پھر بھی روش تبدیل نہیں کی جاتی جس کا انجام ضمنی الیکشن سے ظاہر ہوا باتوں کے سوا عملی طورپرکچھ نہ کرنے کی صورت میںیہ شکست حیران کن نہیں۔
طلعت چیمہ نے شوہر کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پی پی 51 بڑے آرام سے اِس لیے جیت لی اور پنجاب اور وفاق کی حکمران جماعت کے وسائل کی چکاچوند سے نتائج متاثر نہ ہونے کی ایک اور وجہ ہے حامد ناصر چٹھہ سے عوام کی نفرت نے حکومتی چالیں ناکام بنا ئیں وزیر آباد کی صوبائی نشست کے لیے جاری الیکشن مُہم میں اتحادیوں نے بھی فاصلہ رکھا ایک اور وجہ چٹھہ خاندان کا انتظامی عہدیداروں سے غیر ضروری رعب و دبدبے کے ساتھ بات کرنا ہے حالانکہ ووٹوں کے لیے دستِ سوال دراز کرتے ہوئے نخوت کی بجائے عاجزی و انکساری کی ضرورت ہوتی ہے جس کاچٹھہ خاندان میں فقدان ہے اسی لیے حکومتی امیدوار سے عوام کے ساتھ انتظامی عہدیداروں نے بھی جی بھر کر نفرت دکھائی اور جب نتائج میں ہیراپھیری کے لیے کچھ کارکنوں نے کوشش کی تو مخالف امیداور کے کارکنوں کے ساتھ انتظامیہ نے بھی مزاحمت کی اسی بنا پر نتائج کے اعلان میں بدنظمی یا رکاوٹ کی کاوشتیں بارآور نہ ہوئیں۔
این اے 75ڈسکہ میں الیکشن کم جنگ وجدل کا ماحول زیادہ نظر آیا پولنگ اوقات میں سارادن ہی بدامنی کا راج رہالڑائی جھگڑے اور فائرنگ ہوتی رہی جس کے دوران دو افراد جان بحق ہوگئے حالانکہ خوف وہراس پھیلانے کی بجائے اگر منظم انداز میں رائے دہندگان سے رابطہ کیا جاتا تو نتائج میں تبدیلی مشکل نہ تھی پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی بیس پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائڈنگ آفیسر ووٹوں کے تھیلوں سمیت غائب ہوگئے اِس دوران پریزائڈنگ آفیسروں کے موبائل فون بھی بند رہے عملے کی گمشدگی کا دورانیہ چھ گھنٹے پر محیط رہاالگ الگ پولنگ اسٹیشنوں کے عملے کا اکٹھے نتائج لیکرحاضرہونا ثابت کرتا ہے کہ نتائج میں ردوبدل کرنے کے بعد اکٹھے رہا کیا گیا مگرعثمان ڈار جیسے لوگ اپنی حماقتوں سے جماعت اور قیادت دونوں کے لیے سُبکی کا باعث بنے یہ درست ہے کہ عثمان ڈار کی وزیرِ اعظم سے کافی قربت ہے لیکن محض قربت کے علاوہ اُن میں خوبی نہیں وہ بات کرتے ہوئے حکمیہ لہجہ اپناتے ہیں جیسے ووٹر نہیں غلاموں سے بات کررہے ہوں علی اسجد ملہی کو ہرانے کے لیے حکومتی کارندے ہی کافی تھے۔
عملے کے اغواسے حکمران جماعت کو فائدہ نہیں نقصان ہواہے اور الیکشن مشکوک و شفافیت میں ابہام ہے جس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں اول تو یہ کہ غائب ہونے والے پریزائڈنگ آفیسروں کے تھیلوں سے کاسٹ ہونے والے ووٹ اسی سے پچاسی فیصد ہیں جبکہ بقیہ حلقے میں پولنگ کی شرح پینتیس سے بیالیس فیصد ہے جس سے دھاندلی اور ہیراپھیری کے تاثر کو تقویت ملتی ہے دوم پریزائڈنگ آفیسروں کی اولیں زمہ داری ہے کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں گنتی کریں اور امیدواروں کے نامزد پولنگ ایجنٹوں کو دستخط شدہ رزلٹ دیں مگریہاں رزلٹ دینے کی بجائے راہ فرار اختیار کی گئی۔
الیکشن کمیشن کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسرتو عدلیہ سے مل جاتے ہیں جبکہ دیگر معاونین پریزائڈنگ آفیسر یا پولنگ آفیسر انتظامیہ ،تعلیم اور دیگر شعبوں سے لینے پڑتے ہیںجنھیں ترقیوں اور تبادلوں کے لیے ہمیشہ صاحبِ اختیارلوگوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے یہی مجبوریاں انتخابی عمل کی شفافیت کو داغدار کرتی ہیں جب تک الیکشن کمیشن کمزورلوگوں کی بجائے چھان پھٹک کر غیر جابندار افراد آگے لانے پر دھیان نہیں دیتا نتائج پر اُنگلیاں اُٹھتی رہیں گی سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی شکست کی وجہ ملازمتوں اور گھروں کی تعمیرکے حوالے سے وعدوں کا پورا نہ ہونا،بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں پے درپے اضافہ ہے الیکشن کمیشن بیس حلقوں میں دوبارہ الیکشن کراسکتا ہے عمران خان بھی آمادہ ہیں لیکن کیا حکومتی امیدوار جیت سکتا ہے حکومت کی عدم مقبولیت کے تناظر میں ہاں میں جواب نہیں دیا جا سکتا مگر حفاظتی اقدامات کے لیے فوج کی عدم موجودگی سے پولنگ اسٹیشنوں میںمداخلت کے خطرات ختم نہیں ہو سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔