... loading ...
(مہمان کالم)
ڈیوڈ بروکس
چند مہینے قبل معیشت دان نوح سمتھ نے نوٹ کیا کہ سائنسی ترقی کان کنی کی طرح ہوتی ہے۔ آپ کو کسی معدنی دولت کا کوئی سرا مل جاتا ہے جس کے بارے میں آپ بہت پْرامید ہوتے ہیں۔ آپ رسک لیتے ہیں اور پھر اس پر بھاری سرمایہ کاری کر ڈالتے ہیں۔ آپ اپنا سرمایہ ختم ہونے تک کھدائی کرتے رہتے ہیں۔ مسئلہ یہ رہا ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے معدنیات کی کھدائی سے شاید ہی کبھی منافع ہوا ہو اور کسی کی زندگی بدلی ہو۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت زیادہ ایجادات ہوئی ہیں مثلاً انٹرنیٹ اور سمارٹ فون۔ تھوڑی بہت سرکاری سرمایہ کاری کا بھلا ہو، کلین انرجی میں بھاری اور تیز رفتار جدت دیکھنے میں آئی ہے۔ 1976ء کے بعد سولر ماڈیولز کی قیمتوں میں 99.6 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے مگر زندگی میں انقلاب لانے والے بریک تھرو اہم ہونے کے باوجود اتنے نہیں ہیں جتنے یہ کبھی ہوا کرتے تھے۔
اگرآ پ 1900ء میں پیدا ہوئے ہوتے اور 1970ء میں انتقال کر گئے ہوتے تو آپ نے گھوڑوں سے چلنے والی بگھیوں کا زمانہ بھی دیکھا ہوتا اور انسان کو چاند پر قدم رکھتے ہوئے بھی دیکھا ہوتا۔ آپ نے بجلی کا وسیع تر استعمال، ایئرکنڈیشنگ، ایوی ایشن، آٹو موبل، پینسلین اور بہت کچھ دیکھا ہوتا۔ لیکن اگر آپ 1960ء میں پید ا ہو کر آج تک زندہ ہوتے تو آپ کو ڈرائیونگ اور فضائی سفر کا محفوظ اور شاندار تجربہ ہوتا۔ بصورت دیگر مائیکرو ویو کے علاوہ آپ کے کچن کے تجربے میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ آتی۔
2011ء میں اکانومسٹ ٹیلر کوون نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا The Great Stagnation جس میں اس نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سائنسی ترقی کی رفتار سست کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ پیٹر تھیل کو شکوہ ہے کہ ہم اڑنے والی گاڑیاں چاہتے تھے مگر ہمیں ان کی جگہ ٹویٹر مل گیا ہے مگر شاید ٹیکنالوجی کی یہ میٹھی لوری اب اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ اچانک اب بہت سے ہوشیار لوگوں نے ایسے بڑے بڑے خزانوں کے بارے میں لکھنا شرو ع کر دیا ہے جن سے بھاری رقم کمائی جا سکتی ہے۔ ان میں سب سے پہلا اور نمایاں خزانہ ویکسین ہے۔ کووڈ 19 کی ویکسین کے بارے میں حیران کن بات یہ ہے کہ ماڈرنا کے سائنسدانوں نے سب سے پہلی ویکسین 13جنوری 2020ء کو ڈیزائن کر لی تھی۔ ابھی لوگوں کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ کورونا ہمارے لیے کوئی بڑا خطرہ ہو سکتا ہے کہ اس کی ویکسین تیار کی جا چکی تھی۔ یہ صرف نئی ویکسین ہی نہیں تھی بلکہ یہ ویکسین کی ایک نئی قسم تھی۔ mRNA نامی ویکسین ہمارے جسموں کو بیکٹریا کے خلاف زیادہ موثر انداز میں لڑنا سکھائے گی اور تمام بیماریوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم بریک تھرو کا باعث بنے گی۔ مثال کے طور پر اب ریسرچرز کو امید ہے کہ وہ کینسر کے علاج کے لیے بھی mRNA ویکسین تیار کر لیں گے مگر یہ آپ کے جسم کے کینسر کی بعض اقسام کے خلاف ہی لڑ سکے گی۔
اسی طرح انرجی کے شعبے میں بھی بڑے بڑے بریک تھرو زبردست دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں۔ جیسا کہ ڈیوڈ رابرٹس نے بتایا ہے کہ ہماری زمین کی پگھلی ہوئی تہہ کا درجہ حرارت 10000 ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے جو وہی ٹمپریچر ہوتا ہے جو ہمارے سورج کا درجہ حرارت ہے۔ اگر ہم زمین کی تہہ میں چھپی انرجی کا محض 0.1 فیصد بھی استعمال کرنے کے قابل ہو گئے تو ہم انسانوں کو ان کی ضرور ت کی کل انرجی بیس لاکھ سال تک سپلائی کر سکتے ہیں۔ انجینئرز یہ تخمینہ لگا رہے ہیں کہ انہوں نے کس طرح زمین کی چٹانوں کے نیچے سے حرارت کو باہر نکالنا ہے۔ رابرٹس لکھتا ہے ’’اگر اس بات کے پْرجوش حامی درست کہتے ہیں تو اس دنیا میں ہر فرد کو سو فیصد صاف بجلی فراہم کرنا ہو تو اس میں بنیادی کردار جیو تھرمل کا ہوگا‘‘۔ یہاں فیوڑن (پگھل کر ایک ہو جانا) کا ذکر کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس طرح کی کہانیوں کو جب ہم پڑھتے ہیں تو وہ اپنے عصرسے جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔
ٹائمز میں میرے ایک ساتھی ہنری فائونٹین نے گزشتہ ستمبر میں یہ بتایا کہ کس طرح M.I.T کے ریسرچرز نے ایک کمپیکٹ نیوکلیئر ری ایکٹر ڈیزائن کیا تھا جو کام بھی کر سکتا تھا۔ حال ہی میں چین نے بھی ایک ایسا تجرباتی تھرمو نیوکلیئر ری ایکٹر بنا لیا ہے جس کا درجہ حرارت 270 ملین ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خودکار گاڑیاں جو پہلے ہم سے دس سال کی دوری پر تھیں اب ہم سے محض تین سال کی دوری پر رہ گئی ہیں۔ مگر جلد یا بدیر وہ یہاں پہنچ جائیں گی۔ ویمو نے پہلے ہی امریکی شہر فینکس میں ڈرائیور کے بغیر اوبر اور لفٹ کی طرح ایک رائیڈر سروس شروع کر دی ہے جس میں فرنٹ سیٹ پر کوئی نہیں بیٹھتا۔ اسی دوران الیکٹرک کار کے شعبے میں ایک جاپانی کمپنی نے ایسی کار بنا لی ہے جو ایک دفعہ چارج کرنے پر 310 میل کا سفر طے کر سکتی ہے اور وہ صرف دس منٹ میں دوبارہ بھی چارج ہو جاتی ہے۔
آگے سنیے۔ مصنوعی ذہانت اور خلا نوردی میں تیزی ا? رہی ہے۔ اینٹی ایجنگ ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ پچھلے ہی ہفتے ٹائمز نے موٹاپا ختم کرنے والی دوائی کو رپور ٹ کیا ہے۔ لیبارٹری میں مصنوعی گوشت بھی تیار کیا جا چکا ہے۔ یہ گوشت جانوروں کے خلیوں سے تیار کیا گیا ہے۔ اب ہم گائے یا مرغی ذبح کیے بغیر چکن میک نگٹس یا سیخ کباب سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ مگر اس سب کچھ کے بجائے ہمارے لیے سب سے مفید بات یہ ہوگی اگر ہم رفتہ رفتہ دنیا کے لیے سستی انرجی، ڈرائیور لیس کاریں اور اپنی زندگی کے لیے زیادہ پیداوار دینے والے سال مہیا کر سکیں۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ عالمی پیداوار میں بہت اضافہ ہوگا۔ جسے ماہرین معیشت ٹوٹل فیکٹر پیداوار کہتے ہیں کئی سال سے محض زیرو سے دو فیصد سالانہ کے اضافے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مگر بریک تھروز کی ایک سیریز اس پیداوار میں مسلسل اضافہ کر سکتی ہے۔ پھر ہماری دنیا اور ہماری معیشت بالکل ہی مختلف نظر آئے گی۔ اس کامنفی پہلو یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگ علاقہ بدر ہوں گے۔ ان سب ڈرائیورز کا کیا بنے گا؟ اگر لیبارٹریز میں بننے والے گوشت نے ہی مارکیٹ پرقبضہ کر لیا تو بڑے بڑے کیٹل فارمز میں کام کرنے والے لوگ کہاں جائیں گے؟ اس بات کی وجہ سے سیاسی مشکلات مزید پیچیدہ ہو جائیں گی کہ اس ہائی ٹیک انڈسٹری سے منافع کمانے والے افراد ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نیلے علاقے میں رہنا پسند کریں گے جبکہ پرانی صنعتوں میں کام کرنے والے ورکرز اپنے گھر بار چھوڑنے پرمجبور ہو جائیں گے اور ملک کے کم تعلیم یافتہ ریڈ یعنی سرخ علاقوں میں رہنا شروع کر دیں گے۔ ہم تیز رفتار تبدیلی کے ایرانی شیر پر سواری کر رہے ہوں گے۔ معیشت تیز رفتاری سے ترقی کرے گی مگر لاکھوں کروڑوں افراد کو اس میں جگہ ملنا مشکل ہو جائے گا۔ آفاقی بنیادی آمدنی ایک گرم موضوع بن جائے گا۔ اس ترقی کے پیش نظر سرکاری سرمایہ کاری میں کافی تیزی آ چکی ہے۔ ان صدموں سے لگنے والے جھٹکوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت کو بڑے جارحانہ طریقے استعمال کرنا پڑیں گے۔ مگر بہتر ہو گا کہ ہم ایک ہی جگہ منجمد یا بے حرکت بیٹھنے کے بجائے حرکت سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ انسانی عمر بڑھ جائے گی اور صحت کا معیار بھی بہتر ہو جائے گا۔ صاف اور سستی انرجی دستیاب ہوگی۔ مجھے امید تھی کہ سیاسی طور پر اس غمناک عہد میں آپ کوئی اچھی خبر بھی سننا پسند کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔