... loading ...
جنگ کے بارے میں عموماً ایک مسلمہ اُصول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ’’جنگ میں پہلی گولی کس نے چلائی ہے یہ تو سب ہی کو معلوم ہوتا ہے لیکن آخری گولی کس کی طرف سے اور کس مقام پر چلائی جائے گی ،اس بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں ہوپاتی‘۔یاد ش بخیر ! کہ چین نے جنگ کے بارے میں کہے گئے برسوں پرانے ا س مقولے کو وادی گلوان میں بھارت کے ساتھ ہونے والے معرکہ میں مکمل طور پر غلط ثابت کردیا ہے ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ وادی لداخ میں بھارتی افواج کے خلاف جنگ کی پہلی گولی چین نے چلائی تھی اور اَب تازہ ترین خبر موصول ہوئی ہے کہ اس معرکہ کی آخری گولی بھی چین نے ہی چلادی ہے ۔ جبکہ پہلی گولی اور آخری گولی کے درمیان بھارتی افواج اور بھارت کی سیاسی قیادت کو عسکری اور سفارتی محاذ پرکس طرح سے اُلجھا کر ہزیمت اور شکست سے دوچار کرنا ہے ۔یہ سب روزِ اول ہی سے چین کے علم میں تھا۔مگر چین کی بہترین جنگی حکمت عملی ،سفارتی دُور اندیشی اور زبردست منصوبہ بندی نے بظاہر پیچیدہ عالمی سیاسی حالات میں ناممکن دکھائی دینے والی جنگی فتح کو ممکن بنادیا اور بھارت ،چینی افواج کے قبضے میں اپنا ہزاروں کلومیٹر کا علاقہ چلے جانے کے باجود بھی’’سفارتی اُف ‘‘ تک کرنے کی پوزیشن بھی نہیں رہا ۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ بھارتی سرکار اُلٹا اپنی عوام کو میڈیا کے ذریعے بہلاوا دینے کی ناکام کوشش کررہی ہے کہ ’’ بھارت کی شکست ،دراصل چین کی شکست ہے‘‘۔
ہوسکتا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندری مودی کے لایعنی قسم کے اس مبنی بر جھوٹے دعوی کو بھارتی عوام درست تسلیم بھی کر لیتے ،مگر مودی سرکار کے لیے مصیبت یہ ہوئی کہ بھارتی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے سابقہ افسران نے بھارتی حکومت کی جانب سے وادی گلوان کے بارے میں پیش کیے گئے جھوٹ کا پردہ یہ کہہ کر فاش کردیا کہ ’’ چین نے وادی لداخ میںبھارتی افواج کو جنگ کے میدان میں نہ صرف بُرے طریقے سے شکست سے دوچار کیا ہے بلکہ ہزاروں کلومیٹرز پر محیط بھارتی علاقے پر قابض بھی ہوچکاہے اور چین کے قبضے میں چلے جانے والا یہ وہ اہم ترین علاقہ ہے ، جس پر مستقبل میں بھارت کے دفاع کا تمام تر انحصار تھا‘‘۔نیز بھارت کے چند عسکری ماہرین کا تو یہ تک کہنا ہے کہ ’’ عموماً جو جنگیں میدان میں ہار دی جاتی ہیں ،انہیں مذاکرات کی میز پر جیت لیا جاتا ہے مگر نریندرمودی اس قدر نااہل اور بزدل نکلے کہ وہ چین سے وادی لداخ کے عسکری میدان میں تو خیر سے ہار ے ہی تھے ،مگر شومئی قسمت کہ مذاکرات کی میز پر بھی چین سے بُرے طریقے سے ہار چکے ہیں‘‘۔اگرچہ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کی بھارتی میڈیا میں خوب کردار کشی کرتے ہوئے انہیں غدار تک ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر اس کے باجود بھارتی عوام کی اکثریت یہ ہی سمجھتی ہے کہ چین کے ساتھ وادی لداخ میں ہونے والی جنگ پر نریندر مودی جھوٹ بول رہے ہیں اور درست موقف وہی ہے جو بھارتی افواج کے سابق افسران سوشل میڈیا یا بلاگز کے ذریعے بھارتی عوام کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
دوسری جانب چین نے بھی رواں ہفتے بھارتی فوجیوں کے ساتھ وادی گلوان میں ہونے والی جھڑپ اور تصادم کی ویڈیو جاری کر دی ہے۔چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز پر جاری کردہ اس ویڈیو میں چین اور بھارتی فوجیوں کو رات کے اندھیرے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اور چینی فوجیوں کے ہاتھوں کیلوں والے ڈنڈوں ،نوکیلے پتھروں سے بھارتی فوجیوں کی برے طریقے سے درگت بنتے ہوئے صاف ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔نیز اس ویڈیو میں ہلاک ہونے والے ان چار چینی فوجیوں کو سلامی پیش کرنے کا منظر بھی شامل ہے، جو بھارتی افواج کے ساتھ تصادم میں شدید زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہوگئے تھے۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے جاری کردہ اس ویڈیو میں بھارتی سرحد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ’ ’اپریل کے بعد سے ہی بھارتی فوج پرانے طے شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ انھوں نے پل اور سڑکیں بنانے کے لیے سرحد کو پار کیا اور چینی سرحد پر صورتحال تبدیل کرنے کے لیے من مانی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔جس کے جواب میںدونوں ملکوں کے درمیان معاہدوں کا لحاظ کرتے ہوئے ہم نے بات چیت سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن جب بھارتی افواج باز نہیں آئیں تو پھر ضروری اقدامات اُٹھانا ہم پر لازم ہوگیا ہے‘‘ ۔ چین کی جانب سے اس ویڈیو کے جاری ہونے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ میں اہم ترین سوال یہ اُٹھایا جارہاہے کہ آخر چین نے یہ ویڈیو ایک ایسے وقت میں ہی کیوں جاری کی ہے۔ جبکہ چین اور بھارت کے درمیان حال ہی میں ’’ڈس اینگیج ‘‘کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا ہے۔
ہمارے خیال میں چین اس ویڈیو کے ذریعے کم ازکم تین واضح پیغامات دنیا بھر کو خاص طور پر بھارت اور نئی امریکی حکومت تک پہنچانا چاہتاہے اول یہ کہ ’’چین کے عالمی حریف اس ویڈیو میں یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم نے کس مہارت اور کامیابی کے ساتھ بغیر جدید اسلحے کے اپنے خلاف لڑنے والی فوج کا بھرکس نکال دیا ہے اگر ہم اسلحہ استعمال کریں گے تو مخالف فوج کے سپاہیوں کی کیا درگت بناسکتے ہیں ‘‘۔دو م یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ’’ چینی قوم کے بارے میں یہ مغالطہ ذہن سے نکال دیا جائے کہ وہ صرف تجارت اور کاروبار کے راستے سے ہی نئی عالمی طاقت بننے کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں ‘‘۔ تیسرا پیغام ویڈیو میں یہ واضح ہے کہ ’’چین بہر صورت اپنے اُن تمام علاقوں کو اپنے قبضہ میں لے کر رہے گا ،جن مقامات پر چین کا کبھی بھی دعویٰ رہا ہے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی ذرائع ابلاغ پر جاری ہونے والی اس نئی ویڈیو میں زیادہ تر وہی مناظر ہیں جو سوشل میڈیا پر موجود اس حوالے سے بنائی جانے والی پرانی ویڈیوز میں شامل ہیں ۔ مگر اس کے باجود بھی اس ویڈیو کو دنیا بھر اس قدر دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔ جیسے یہ واقعہ گزشتہ برس جون کے مہینے میں نہیں بلکہ رواں ماہ فروری میں کسی دن رونما ہوا ہے ۔ دراصل چینی فوجیوں کے ہاتھوں بھارتی فوجیوں کی بننے والی درگت کی ویڈیوز مختلف حیلے بہانوں سے بار بار عالمی ذرائع ابلاغ پر شائع ہونے سے بھارتی افواج کامورال بھی خطرناک حدتک زوال کا شکار ہوتاہے اور یہ ہی وہ بنیادی ہدف ہے جس کے حصول کے لیے چین کی جانب سے یہ ویڈیو عالمی ذرائع ابلاغ کو جاری کی گئی ہے۔
اگرچہ چین اور بھارت کے مابین طے پانے والے ’’ڈس اینگیج ‘‘ کے معاہدہ کو مودی سرکار اپنی ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کررہی ہے اور بھارت کے سفارتی حلقوں کی جانب سے تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ جیسے چین اپنے موقف سے دستبردار ہوکر اپنے قبضے میں لیے گئے بھارتی علاقے سے اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے میں رضامند ہوگیا ہے۔ یقینا مذکورہ بالا معاہدہ کی رو سے بھارت اور چین دونوں ملکوں کی افواج ہی اپنی اپنی موجودہ پوزیشنوں سے پیچھے ہٹائی جارہی ہیں لیکن یاد رہے کہ چینی افواج کے پیچھے ہٹنے کے بعد جس سرحدی علاقے پر معاہدہ کی رو سے چینی افواج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے براجمان ہو جائے گی وہ علاقہ بھی بھارت کا ہی ہوگا ۔یوں سمجھ لیجئے کہ اگر گزشتہ برس چین نے900 مربع کلومیٹر کا بھارتی علاقہ پر بذور طاقت قبضہ کیا تھا تو معاہدہ کے نتیجہ میں چینی افواج چند کلومیٹر ضرور پیچھے کی جانب ہٹ جائیں گی لیکن چین کے پاس اَب بھی بھارت کا تقریباً 800 مربع کلومیٹر سے زائد کا سرحدی علاقہ قبضہ میں رہے گااور وہ بھی بھارت کی مرضی اور منشا سے ۔ یعنی بادی النظر میں دیکھا جائے تو لائن آف ایکچوئل پر ہونے والے تصادم میں جیت بہرحال چین کو ہی حاصل ہوئی ہے اور لائن آف ایکچوئل کا وہ سرحدی علاقہ جو اونچائی پر ہونے کی وجہ سے ماضی میں بھارت کے لیئے زبردست عسکری اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا، اَب مکمل طورپر چین کے زیرانتظام جاچکاہے۔
جس کی وجہ سے بھارتی افواج اور اُن کی عسکری تنصیبات ہمہ وقت چینی افواج کی زیرنگرانی رہیں گی اور اگر کبھی دوبارہ سے چین اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کے عسکری تصادم کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو غالب امکان یہ ہی ہے کہ چینی افواج کے اونچائی پر ہونے کی وجہ سے بھارتی افواج کو ہونے والے ممکنہ جانی اور مالی نقصانات پچھلے برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوں گے۔نیز بھارت اور چین کے درمیان طے پانے والے اس نئے معاہدہ سے یہ بات بھی پوری طرح سے واضح ہوگئی ہے کہ بھارت ،چین کے ساتھ کسی بھی محاذ پر اُلجھنے کی نہ تو صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی ارادہ ۔شاید اسی لیے بھارتی ہاتھی نے چینی ڈریگن کو وادی لداخ میں مل جل کر رقص کرنے کی دعوت دی ہے ۔ بظاہر مل کر ساتھ رقص کرنے کی یہ دعوت چینی ڈریگن کی جانب سے قبول کرلی گئی ہے لیکن بھارتی ہاتھی اور چینی ڈریگن کا یہ رقص کب تک جاری رہے گا۔ اس کا سارا درامدار پاکستانی شاہین کے ساتھ روا، رکھے جانے والے بھارتی ہاتھی کے رویے پر ہوگا۔ کیونکہ ایک بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ چینی ڈریگن اپنے دوست پاکستانی شاہین سے دوستی نبھانے کے لیے صرف ایک ہاتھی ہی کیا پورے جنگل کو بھی آگ لگاسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔