وجود

... loading ...

وجود

قرض پروگرام کی بحالی

هفته 20 فروری 2021 قرض پروگرام کی بحالی

عمران خان اڑھائی برس کے دوران بیس ارب ڈالر قرض قرضہ واپس کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف گزشتہ ایک برس کے دوران غیر ملکی قرض میں پانچ ارب ایک کروڑ کا اضافہ ہو ا۔ 2019 میں غیر ملکی قرضہ اگر 110ارب بہتر کروڑ ڈالر تھا جو اب ایک سو پندرہ ارب تہتر کروڑڈالر ہو گیا ہے اگر سعودیہ اوردبئی جیسے ممالک کے قلیل مدتی قرض شامل کرلیں تو دس ارب ڈالر کا مزید اضافہ ہو سکتا ہے قرض وا پس کرنے اور ساتھ ہی مزید قرض لینے کی آنکھ مچولی جاری ہے حکومتی دعوئوں اور اعداد شمار میں کافی تضاد ہے اِس لیے کچھ دعوے محض خیالی معلوم ہوتے ہیںآئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ)اور پاکستان کے درمیان قرضے کے معطل پروگرام کی بحالی پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے تحت چھ ارب ڈالر قرض کے تحت پچاس کروڑ ڈالر کی تیسری قسط کی اپریل میں منعقد ہونے والے ایگزیکٹوبورڈ کے اجلاس میں منظوری دی جائے گی قرض پروگرام کی بحالی پر اتفاق کی وجہ مالیاتی اور اِدارہ جاتی اصلاحات کے ضمن میں ہونے والی پیش رفت بتائی گئی ہے حالیہ اتفاق کے بعد عالمی مالیاتی اِدارے نے کورونا وبا کے دوران پاکستانی اقدامات کی تعریف کرنے کے ساتھ مستقبل میں پاکستانی معیشت میں مزید بہتری آنے کی نوید سنائی ہے یہ حکومتی مالیاتی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار ہے اعتماد کی وجہ بظاہر ناقابلِ فہم ہے کیونکہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی معاشی شرح نمو منفی رہی اور ایسا پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے ملک میں زلزلے آئے ،سیلاب سے تباہ کاریاں ہوئیں اور جنگوں سے معاشی نقصان ہوتا رہا لیکن شرح نمو منفی نہ ہو سکی موجودہ حکومت نے یہ ہدف محنت،کوشش اور عرق ریزی سے حاصل کیا تلخ سچ یہ ہے کہ پاکستان بساط سے ذیادہ قرض لے چکا ہے اورہماری معیشت مزید قرضوں کی متحمل نہیں رہی کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان ادائیگیوں میں توازن پیداکرنے کی صلاحیت کھو رہا ہے صورتحال اتنی گھمبیر ہوگئی ہے کہ قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرضے لینا پڑتے ہیں ا قرضوں پر انحصارختم کرنے کی ضرورت ہے لیکن آئی ایم ایف کے علاوہ پیرس کلب،ایشیائی ترقیاتی بینک ،ورلڈ بینک سمیت کئی ملکوں سے مزید قرض لیا جارہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار سب سے ذیادہ غیر ملکی قرض لینے والے ملک کے طور پرہوتا ہے جو کمزور معیشت کا عکاس ہے پھر بھی قومی مفاد کے منافی عالمی اِداروں کی شرائط مان کر چند کروڑ حاصل کرنے پر حکمران شاد ہیںجو سمجھ سے باہرہے۔

پاکستانی معیشت کو ایک نہیں کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں جس کا حل غیر ملکی قرضے نہیں بلکہ مالی وسائل میں بہتری ،بدعنوانی کاخاتمہ ،ٹیکس اہداف حاصل کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بناناہے لیکن کام کی بجائے حکومت قرض لیکر ملک چلانے کی آسان روش پر محوسفر ہے جومسائل میں اضافے کا موجب ہے پاکستان زرعی ملک ہے لیکن ناقص منصوبہ بندی سے ملک ہر سال زرعی اجناس کی درآمدات پر اربوں رپیہ صرف کر تا ہے حالانکہ مناسب منصوبہ بندی سے زرعی درآمدات ختم کرنا آسان ہے اِدارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس کے دوران زرعی اجناس کی درآمد پرہونے والے اخراجات میں 278ارب 19کروڑ کا ضافہ ہواہے حکومت کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر نتیجہ خیز اقدامات میں سُستی کا شکار ہے جس کا ثبوت جولائی تاجنوری کے دوران بیس ارب پچاس کروڑ کی چینی جبکہ 128ارب کی گندم درآمدکرنا ہے ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے جو چیزیں ہماری برآمدات کا حصہ ہوسکتی ہیں وہ درآمدات کا حصہ ہیں زرِ مبادلہ کے زخائر کا یہ مصرف ضیاع ہے صنعتوں کی بحالی کے ساتھ حکومت تھوڑا سا دھیان زرعی شعبے پر دے تو پچپن ارب کی چائے اور 54 ارب کی دالیں درآمد کرنے کے سلسلے کو بھی روکا جا سکتا ہے روئی کی کم پیدوار سے ملکی ضرورت بھی دیگر ممالک سے پوری کرنے کا امکان ہے جب تک حکومت

زراعت کو ترجیحات میں شامل نہیں کرتی تب تک معاشی بہتری کا ہدف حاصل ہیں ہو سکتا۔
ملک ادائیگیوں کے حوالے سے سخت دبائو کا شکار ہے بلکہ کچھ عرصے سے درآمدات پر اُٹھنے والے اخراجات میں غیر معمولی اضافے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے اسی لیے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دبائو کا شکار ہے لیکن اِس کا حل نئے قرضے نہیں معیشت کااستحکام ہے مگر زمینی حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت کی زبوں حالی کے تدارک کو ثانوی درجہ بھی حاصل نہیں ذیادہ ترمفروضوں پر مبنی پالیسیا ں رائج ہیں تارکین وطن کی ترسیلات زردوارب ڈالر سے ذیادہ ہونے کو تو اپنا کارنامہ قراردیا جاتا ہے اور حکومت صنعتی شعبہ میں تحرک لانے کی بھی دعویدار ہے لیکن یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ آئی ایم ایف کا تعطل کا شکارقرض پروگرام بحال کرنے کی تگ دو حکومتی کارکردگی کے دعوئوں کے منافی ہے بجلی مہنگی کرنے سے پیداواری لاگت بڑھنے کا اندیشہ ہے کیونکہ قرض کی تیسری قسط جاری کرنے سے قبل جو شرائط منوائی گئی ہیں وہ کسی صورت صنعتی شعبے کی بحالی میں مددگار نہیں ہو سکتیں آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولی کی شرح بہتر بنانے کے ساتھ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کا مطالبہ منوایا ہے تبھی باربار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے حالانکہ کرونا کی وجہ سے کساد بازاری کا شکار ملکی معیشت اِ س کی متحمل نہیں تقریباََ سبھی ممالک ریلیف دینے کی کوشش میں ہیں لیکن ہم بجلی کے نرخ بڑھاکر پیداواری لاگت میں اضافہ کر رہے ہیں اِس تناظر میں معیشت کی بحالی کا خواب غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ملکی اشیا مہنگی ہونے سے عالمی مارکیٹ میں مقابلے کے قابل نہیں رہیں گی دنیا بھر میں کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے مراعات دینے جبکہ پاکستان میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے غیر ضروری سختیاں کی جارہی ہیں جس سے معیشت پر مُضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جانے وزارتِ خزانہ کو یہ سامنے کی چیزیں بھی کیوں نظر نہیں آتیں کہیں ایسا تو نہیں سابق حکومتوں کے آئی پی پیز معاہدوںکی طرح موجودہ حکومت بھی قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے غیر ملکی مالیاتی اِدارے کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اگر ایسا ہے تو مدنظر رکھنے والی بات یہ ہے کہ بجلی اور تیل کے نرخ بڑھنے سے مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔

آئی ایم ایف کی شرائط بظاہر بہت سادہ اور انھیںملکی معیشت کی بہتری لیے ضروری کہا جارہا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اِداروں کو کسی ملک یا قوم کی بہتری سے کوئی سرکار نہیں ہوتا بلکہ اُن کی پہلی ترجیح دیے قرض کی بروقت وصولی ہے اگر انھیں یہ یقین ہو جائے کہ قرض کی وصولی کے امکانات نہیں تو وہ کسی کو ایک ڈالر بھی نہ دیں لیے اب بھی ہمارا مسلہ قرضوں کو غیر منافع بخش منصوبوں پر خرچ کرنا ہے اور اِس کا حل کسی حکومت نے نہیں سوچا اسی بنا پر ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ آیا ہے کئی شعبے ایسے ہیں جہاں ہر سال اربوں روپیہ ڈوب جاتا ہے جن میں پاکستان اسٹیل،پی آئی اے ،ریلوے سرِ فہرست ہیں اگر حکومت خسارے کو قرض لیکر پورا کرنے کی بجائے اِداری جاتی اصلاحات سے منافع بخش بنانے کے لیے نتیجہ خیز پالیسیاں بنائے تو ہر سال قرض لینے کے لیے عالمی اِداروں کی کڑی شرائط تسلیم کرنے کی نوبت نہ آئے اب بھی ماہرین کہتے ہیں کہ قرضوں کے انبار کے باوجود نئے قرضوں کے حصول سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور چند کروڑ کے قرض سے صرف مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو گا معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ویسے بھی جب حکومت کا منشورہی آئی ایم ایف و دیگر عالمی اِداروںکے قرضوں سے جان چھڑانا ہے تو پھر نئے قرض لینے کے لیے کڑی شرائط کیوں تسلیم کی جارہی ہیںاِس سوا ل کا جواب عوام نامی مخلوق کو ملنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر