... loading ...
عمران خان اڑھائی برس کے دوران بیس ارب ڈالر قرض قرضہ واپس کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف گزشتہ ایک برس کے دوران غیر ملکی قرض میں پانچ ارب ایک کروڑ کا اضافہ ہو ا۔ 2019 میں غیر ملکی قرضہ اگر 110ارب بہتر کروڑ ڈالر تھا جو اب ایک سو پندرہ ارب تہتر کروڑڈالر ہو گیا ہے اگر سعودیہ اوردبئی جیسے ممالک کے قلیل مدتی قرض شامل کرلیں تو دس ارب ڈالر کا مزید اضافہ ہو سکتا ہے قرض وا پس کرنے اور ساتھ ہی مزید قرض لینے کی آنکھ مچولی جاری ہے حکومتی دعوئوں اور اعداد شمار میں کافی تضاد ہے اِس لیے کچھ دعوے محض خیالی معلوم ہوتے ہیںآئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ)اور پاکستان کے درمیان قرضے کے معطل پروگرام کی بحالی پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے تحت چھ ارب ڈالر قرض کے تحت پچاس کروڑ ڈالر کی تیسری قسط کی اپریل میں منعقد ہونے والے ایگزیکٹوبورڈ کے اجلاس میں منظوری دی جائے گی قرض پروگرام کی بحالی پر اتفاق کی وجہ مالیاتی اور اِدارہ جاتی اصلاحات کے ضمن میں ہونے والی پیش رفت بتائی گئی ہے حالیہ اتفاق کے بعد عالمی مالیاتی اِدارے نے کورونا وبا کے دوران پاکستانی اقدامات کی تعریف کرنے کے ساتھ مستقبل میں پاکستانی معیشت میں مزید بہتری آنے کی نوید سنائی ہے یہ حکومتی مالیاتی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار ہے اعتماد کی وجہ بظاہر ناقابلِ فہم ہے کیونکہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی معاشی شرح نمو منفی رہی اور ایسا پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے ملک میں زلزلے آئے ،سیلاب سے تباہ کاریاں ہوئیں اور جنگوں سے معاشی نقصان ہوتا رہا لیکن شرح نمو منفی نہ ہو سکی موجودہ حکومت نے یہ ہدف محنت،کوشش اور عرق ریزی سے حاصل کیا تلخ سچ یہ ہے کہ پاکستان بساط سے ذیادہ قرض لے چکا ہے اورہماری معیشت مزید قرضوں کی متحمل نہیں رہی کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان ادائیگیوں میں توازن پیداکرنے کی صلاحیت کھو رہا ہے صورتحال اتنی گھمبیر ہوگئی ہے کہ قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرضے لینا پڑتے ہیں ا قرضوں پر انحصارختم کرنے کی ضرورت ہے لیکن آئی ایم ایف کے علاوہ پیرس کلب،ایشیائی ترقیاتی بینک ،ورلڈ بینک سمیت کئی ملکوں سے مزید قرض لیا جارہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار سب سے ذیادہ غیر ملکی قرض لینے والے ملک کے طور پرہوتا ہے جو کمزور معیشت کا عکاس ہے پھر بھی قومی مفاد کے منافی عالمی اِداروں کی شرائط مان کر چند کروڑ حاصل کرنے پر حکمران شاد ہیںجو سمجھ سے باہرہے۔
پاکستانی معیشت کو ایک نہیں کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں جس کا حل غیر ملکی قرضے نہیں بلکہ مالی وسائل میں بہتری ،بدعنوانی کاخاتمہ ،ٹیکس اہداف حاصل کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بناناہے لیکن کام کی بجائے حکومت قرض لیکر ملک چلانے کی آسان روش پر محوسفر ہے جومسائل میں اضافے کا موجب ہے پاکستان زرعی ملک ہے لیکن ناقص منصوبہ بندی سے ملک ہر سال زرعی اجناس کی درآمدات پر اربوں رپیہ صرف کر تا ہے حالانکہ مناسب منصوبہ بندی سے زرعی درآمدات ختم کرنا آسان ہے اِدارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس کے دوران زرعی اجناس کی درآمد پرہونے والے اخراجات میں 278ارب 19کروڑ کا ضافہ ہواہے حکومت کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر نتیجہ خیز اقدامات میں سُستی کا شکار ہے جس کا ثبوت جولائی تاجنوری کے دوران بیس ارب پچاس کروڑ کی چینی جبکہ 128ارب کی گندم درآمدکرنا ہے ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے جو چیزیں ہماری برآمدات کا حصہ ہوسکتی ہیں وہ درآمدات کا حصہ ہیں زرِ مبادلہ کے زخائر کا یہ مصرف ضیاع ہے صنعتوں کی بحالی کے ساتھ حکومت تھوڑا سا دھیان زرعی شعبے پر دے تو پچپن ارب کی چائے اور 54 ارب کی دالیں درآمد کرنے کے سلسلے کو بھی روکا جا سکتا ہے روئی کی کم پیدوار سے ملکی ضرورت بھی دیگر ممالک سے پوری کرنے کا امکان ہے جب تک حکومت
زراعت کو ترجیحات میں شامل نہیں کرتی تب تک معاشی بہتری کا ہدف حاصل ہیں ہو سکتا۔
ملک ادائیگیوں کے حوالے سے سخت دبائو کا شکار ہے بلکہ کچھ عرصے سے درآمدات پر اُٹھنے والے اخراجات میں غیر معمولی اضافے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے اسی لیے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دبائو کا شکار ہے لیکن اِس کا حل نئے قرضے نہیں معیشت کااستحکام ہے مگر زمینی حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت کی زبوں حالی کے تدارک کو ثانوی درجہ بھی حاصل نہیں ذیادہ ترمفروضوں پر مبنی پالیسیا ں رائج ہیں تارکین وطن کی ترسیلات زردوارب ڈالر سے ذیادہ ہونے کو تو اپنا کارنامہ قراردیا جاتا ہے اور حکومت صنعتی شعبہ میں تحرک لانے کی بھی دعویدار ہے لیکن یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ آئی ایم ایف کا تعطل کا شکارقرض پروگرام بحال کرنے کی تگ دو حکومتی کارکردگی کے دعوئوں کے منافی ہے بجلی مہنگی کرنے سے پیداواری لاگت بڑھنے کا اندیشہ ہے کیونکہ قرض کی تیسری قسط جاری کرنے سے قبل جو شرائط منوائی گئی ہیں وہ کسی صورت صنعتی شعبے کی بحالی میں مددگار نہیں ہو سکتیں آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولی کی شرح بہتر بنانے کے ساتھ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کا مطالبہ منوایا ہے تبھی باربار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے حالانکہ کرونا کی وجہ سے کساد بازاری کا شکار ملکی معیشت اِ س کی متحمل نہیں تقریباََ سبھی ممالک ریلیف دینے کی کوشش میں ہیں لیکن ہم بجلی کے نرخ بڑھاکر پیداواری لاگت میں اضافہ کر رہے ہیں اِس تناظر میں معیشت کی بحالی کا خواب غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ملکی اشیا مہنگی ہونے سے عالمی مارکیٹ میں مقابلے کے قابل نہیں رہیں گی دنیا بھر میں کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے مراعات دینے جبکہ پاکستان میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے غیر ضروری سختیاں کی جارہی ہیں جس سے معیشت پر مُضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جانے وزارتِ خزانہ کو یہ سامنے کی چیزیں بھی کیوں نظر نہیں آتیں کہیں ایسا تو نہیں سابق حکومتوں کے آئی پی پیز معاہدوںکی طرح موجودہ حکومت بھی قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے غیر ملکی مالیاتی اِدارے کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اگر ایسا ہے تو مدنظر رکھنے والی بات یہ ہے کہ بجلی اور تیل کے نرخ بڑھنے سے مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط بظاہر بہت سادہ اور انھیںملکی معیشت کی بہتری لیے ضروری کہا جارہا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اِداروں کو کسی ملک یا قوم کی بہتری سے کوئی سرکار نہیں ہوتا بلکہ اُن کی پہلی ترجیح دیے قرض کی بروقت وصولی ہے اگر انھیں یہ یقین ہو جائے کہ قرض کی وصولی کے امکانات نہیں تو وہ کسی کو ایک ڈالر بھی نہ دیں لیے اب بھی ہمارا مسلہ قرضوں کو غیر منافع بخش منصوبوں پر خرچ کرنا ہے اور اِس کا حل کسی حکومت نے نہیں سوچا اسی بنا پر ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ آیا ہے کئی شعبے ایسے ہیں جہاں ہر سال اربوں روپیہ ڈوب جاتا ہے جن میں پاکستان اسٹیل،پی آئی اے ،ریلوے سرِ فہرست ہیں اگر حکومت خسارے کو قرض لیکر پورا کرنے کی بجائے اِداری جاتی اصلاحات سے منافع بخش بنانے کے لیے نتیجہ خیز پالیسیاں بنائے تو ہر سال قرض لینے کے لیے عالمی اِداروں کی کڑی شرائط تسلیم کرنے کی نوبت نہ آئے اب بھی ماہرین کہتے ہیں کہ قرضوں کے انبار کے باوجود نئے قرضوں کے حصول سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور چند کروڑ کے قرض سے صرف مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو گا معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ویسے بھی جب حکومت کا منشورہی آئی ایم ایف و دیگر عالمی اِداروںکے قرضوں سے جان چھڑانا ہے تو پھر نئے قرض لینے کے لیے کڑی شرائط کیوں تسلیم کی جارہی ہیںاِس سوا ل کا جواب عوام نامی مخلوق کو ملنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔