... loading ...
مفتی محمد وقاص رفیعؔ
’’ویلن ٹائن ڈے‘‘(Valentine day) محبت کے نام ایک مخصوص عالمی دن ہے، جو ہر سال 14 فروی کو سرکاری وغیر سرکاری اور چھوٹے ، بڑے پیمانے پر دُنیا بھر میںبڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اِس دن نوجوان شادی شدہ وغیر شادی شدہ جوڑے آپس میں ایک دوسرے کو پھول اور مختلف قسم کے تحفے تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
تیسری صدی عیسویں میں ’’ویلن ٹائن‘‘ نامی ایک پادری تھا جو ایک راہبہ (Nun) کی زلفوں کا اسیر ہوگیا تھا، چوں کہ مسیحیت میں راہب اور راہبہ کے لیے نکاح ممنوع تھا، اِس لیے ایک دن ’’ویلن ٹائن‘‘ نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اُسے بتایا کہ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اِس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ کرلیں تو اِسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا، راہبہ نے اِس پر یقین کیا اور اِس طرح راہب اور راہبہ نے باہم صنفی ملاپ کرلیا۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی مذہبی روایت تو تھی نہیں کہ جسے مسیحیت آسانی سے ہضم کرجاتی، اِس لیے کلیسا کی روایات کی سرعام یوں دھجیاں اُڑانے پر اِن دونوں راہب اور راہبہ کو قتل کردیا گیا۔ بعد میں اُن کے اِس کے قتل کے ردّ عمل میں بعض منچلوں نے ’’ویلن ٹائن‘‘ کو ’’شہید محبت‘‘ کے درجہ پر فائز کردیا اور اُن کی یاد میں 14 فروری کا یہ دن ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ (Valentine day) کے نام سے منانا شروع کردیا۔
چرچ نے 14فروری کے اِس موقع پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اِس طرح کے آزادانہ میل جول کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسیحی پادریوں نے اِس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے ہیں ، بلکہ کچھ عرصہ پہلے تو ’’بینکاک‘‘ میں ایک مسیحی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرِ آتش کردیا جس پر ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ کارڈ فروخت ہورہے تھے۔
لیکن اِس کے باوجود حالیہ چند برسوں میں یورپ اور امریکا میں ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ کے موقع پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے سر عام برہنہ جلوس نکالے جاتے ہیں ، جن میں آوارہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے اعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چسپاں کرکے قلب میں لگی عشق و محبت کی آگ ٹھنڈی کرکے جنسی ہوس کی تسکین کا سامان اپنے لیے مہیا کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔
جنسی تسکین کی یہ آگ اگر یورپ اور امریکہ تک ہی محدود رہتی تو پھر تو خیر تھی کہ وہ لوگ ویسے ہی اِس فعل بد کے عادی ہیں، لیکن افسوس اِس امر کا ہے کہ یہ آگ اب وہاں سے نکل کر ہمارے اسلامی ممالک کی طرف بھی ’’جنگل کی آگ‘‘ کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ سے پھیلتی جارہی ہے۔
چنانچہ موجودہ صدی کے اوائل میں سعودی عرب کی طرف جب اِس آگ نے رُخ کیا تو 2002 ء اور 2008 ء میں سعودی پولیس نے ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ کے حوالے سے ہر قسم کی چیز کے فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی، لیکن اُن کی یہ حکمت عملی کارآمد ثابت نہ ہوئی اور اِس کے ردّ عمل میں وہاں ایک (Black market) بنادی گئی، جہاں ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ کے حوالے سے ہر قسم کے تحفے تحائف کی چیزیں بآسانی مل سکتی تھیں۔ 2012 ء میں مذہبی پولیس نے تقریباً 140 مسلمانوں کو یہ تہوار مناتے ہوئے پکڑا اور دکانوں پر فروخت ہوتے تمام پھول وغیرہ تحائف اپنے قبضے میں لے لیے۔
پاکستا ن میں ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ کا تصور اگرچہ نوے کی دہائی کے اواخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے قائم ہوگیا تھا، لیکن اُس وقت کے بزرگوں اور نیک لوگوں کی برکات اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی شدید قلت کی بناء پر اِس کو کوئی خاطر خواہ کام یابی اور توجہ میسر نہیں ہوئی تھی، لیکن جب سے اکیسویں صدی کا آغاز ہوا اور جدید سائنس نے سوشل میڈیا کے ذریعے دُنیا کو ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا ہے تو اُس کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں سے اِس دن کے جشن منانے کے جذبہ نے وطن عزیز ملک پاکستان کے مسلمان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بھی اپنی انگڑائیاں لینی شروع کردی ہیں،اور یہ سلسلہ سال بہ سال آگے کی طرف بڑھتا ہی جارہا ہے، اورہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مغربی آگ کے اِس الاؤ میں بہت بری طرح سے جھلس رہے ہیں۔
آج ہمارا معاشرہ جس سراسیمگی و انتشار کا شکار ہے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جس طرح سے خودکشیاں کر رہے ہیں، ظلم و فساد اور قتل و اغواء کے جو ہوشر با واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں، معصوم بچوں اور بچیوں کا جس طرح سے استحصال اور اُن کے ساتھ جنسی درندگی کا بھیانک کھیل کھیلا جارہا ہے، اُن سب کے پیچھے کار فرما مغرب کی یہی گندی تہذیب ہے، جس نے ہم مسلمانوں سے ماں باپ کی عزت لوٹی، بھائی بہنوں کا احترام چھینا، بیٹوں اور بیٹیوں کی شفقت دل سے ختم کی، نکاح اور شادی کو تاراج کیا، زنا اور بدکاری کو رواج دیا، شرم و حیاء کا احساس ختم کیا، فحاشی و عریانی کا بول بالا کیا، میاں بیوی کی سچی محبت کو داؤپے لگایا، بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کی جھوٹی محبت کو فروغ دیا،اسلام کا تمسخر کیا،مسلمانوں کا استہزاء کیا، قرآن کا ٹھٹھہ کیا، اورسب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن اور اُن کے آخری تاج دار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف انداز میں بہت ہی بری طرح سے مزاق اُڑایا، کبھی اُن کے کارٹون بنائے، کبھی اُن کے پتلے بنائے اور کبھی اُن کو طرح طرح کے بازاری القاب سے پکارا گیا۔
لیکن افسوس کہ ہمارا مسلمان معاشرہ پھر بھی اِس سے متاثر نہ ہوا اور مغرب اور یورپ کی گھٹا ٹوپ تہذیب اور اُن کی ظاہری ٹیپ ٹاپ پر ہمیشہ سو جان سے شیدا و فدا رہا، وضع قطع، رہن سہن، بود و باش ،زبان و کلام، کھانے پینے، اُٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے،غمی خوشی، غرض تمام شعبہ ہائے زندگی میں اُن کا پیروکاربنا رہا ، اُنہیں اپنا آئیڈیل قرا دیتا رہا، اُنہیں اپنا نمونہ خیال کرتا رہا، اور اُن کے طرزِ زندگی پر نازاں و فرحاں رہا ہے۔حالاں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں کئی مواقع پر واضح اور دو ٹوک الفاظ میں مسلمانوں کو کفار اور مشرکین کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے کہ: ’’جو جس قوم کی مشابہت کرے گا اُس کا حشر اُنہیں کے ساتھ کیا جائے گا۔‘‘(سنن ابی داؤد: ۴/۴۴)
حاصل یہ کہ ہم مسلمانوں کواپنی زندگی کے تمام تر شعبوں میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی خوب کھل کر مخالفت کرکے اُن کے ساتھ کفار دُشمنی کا اظہار کرنا چاہیے اور حضور نبی کریم ا ، صحابہ کرام ث، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہم کی مبارک سنتوں اور اُن کی نیک اداؤں پر مر مٹ کر اسلام دوستی کا ثبوت دینا چاہیے۔بالخصوص 14فروری ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ جیسے بدنام زمانہ ’’ڈے‘‘ کے موقع پر تو اور بھی زیادہ شرم و حیائ، اور حجاب و پردہ کو زیادہ سے زیادہ عام کرکے اِس کو خوب سے خوب تر فروغ دینا چاہیے۔اُمید ہے ہمارے نونہالانِ وطن ،قوم کے نوجوان بیٹے اور بیٹیاں امی عائشہ صدیقہ، طیبہ، طاہرہ رضی اللہ عنہا کے دو پٹے کی پوری طرح لاج رکھیں گے۔