... loading ...
اگر ہماری دنیا کا نقشہ ایک میز پر پھیلا دیا جائے،اور اُس میز کے اطراف میں دو افراد موجود ہوں ،جن میں سے ایک شخص کا تعلق دورِ جدید سے ہو جبکہ دوسرے کا ہزار برس قدیم زمانہ سے اور اِن دونوں افراد سے سے کہا جائے کہ وہ باری باری میز پر رکھے ہوئے نقشے میں موجود کسی ایک ایسے ملک پر انگلی رکھیں ، جو اُن کے مطابق سب سے زیادہ جنگ و جدل اور خون ریزی کا شکارہو۔ ہمیں یقین ہے کہ دو مختلف زمانے سے تعلق رکھنے والے یہ افراد نقشہ میں موجود جس ایک ملک پر بیک وقت انگلی رکھیں گے۔ بلاشبہ اُس ملک کا نام ’’عراق ‘‘ ہی ہوگا۔درحقیقت عراق کی سرزمین ا تنی بار اُجڑ کا از سرِ نو آباد ہوچکی ہے کہ اَب تو اس کا شمار کرنا بھی ممکن نہیں رہاہے۔ ماہرین عمرانیات یہ ہی بتاتے ہیں کہ کوئی بھی ملک ہو یا سرزمین ، عموماًدو ،چار جنگوں کا بوجھ اور مضراثرات بھی سہہ نہیں پاتی اور نیست و نابود ہوجایا کرتی ہیں لیکن یہ عمرانی اُصول عراق پر لاگو نہیں ہوتا۔کیونکہ یہ ملک اور یہاں بسنے والے عجیب لوگ ہیں ہر جنگ و جد ل سے نکل کر دوبارہ سے اپنی تہذیبی بنیادیں استوار کرلیتے ہیں اور انہیں تہہ بالا کرنے والے ازخود ہی تاریخ کے صفحات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ جاتے ہیں ۔ کیا اِس بار بھی ایسا ہی ہونے جارہا ہے اور عراق کو اپنی جنگی طاقت سے تباہ و برباد کرنے کا خواب دیکھنے والی عالمی طاقت امریکا کہیں خود ہی تو تاریخ کے اوراق میں قصہ پارینہ بننے نہیں جارہا ،جبکہ عراق ماضی کی طرح ایک بار پھر سے تہذیب کے بام ِ عروج پر پہنچنے کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں تو مصروف نہیں ہے۔ عراق اور عراقیوں کے آنے والے مستقبل کے متعلق پیش گوئی کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کیوں نا! عراق کے ماضی پر اُچٹتی سے ایک نگاہ ڈال لی جائے تاکہ قارئین کے لیئے عراق کا حال ،ماضی اور مستقبل کو سمجھ پانا سہل ہوسکے۔
واضح رہے کہ عراق کا پرانا نام میسوپوٹیمیا ہے یہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے، دو دریاوں کے بیچ کی زمین۔ کیونکہ عراق کا زرخیز ترین علاقہ دریائے دجلہ و فرات کے درمیان کا علاقہ ہے، جہاں کرہ ارض کی قدیم ترین تہذیبیں سمیری، اکادی، اسیریائی، کلدانی، ساسانی اور بابلی پروان چڑھیں، تو اس لیے اسے اُردو زبان میں ’’مابین النہرین‘‘ اور انگریزی میں ’’میسوپوٹیمیا‘‘ کے نام سے پکاراگیاہے۔نیز بابلی تہذیب میں حمورابی کے دور میں اسی خطے سے باقی دنیا کو ابتدائی شہریت کے قوانین حاصل ہوئے اوراسی علاقے سے لکھنے کا آغاز ہوا اور ابتدائی ریاضیاتی علوم اور علم فلسفہ بھی سب سے پہلے یہیں پروان چڑھا ۔ جبکہ عراق انبیاء کرام کی سر زمین کے نام سے بھی مشہورو معروف ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اسی ملک کے علاقے ’’قرنہ‘‘ میں سکونت اختیار کی اور طوفان نوح کا اسی علاقہ سے آغاز ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، اور حضرت خضر علیہ السلام کا تعلق بھی اسی سرزمین سے تھا۔
علاوہ ازیں کچھ عرصہ یہ ملک سائرس اعظم کی سلطنت کا حصہ رہا، تو کچھ مدت کے لیے سکندر اعظم کے زیر نگیں۔ ایرانیوں نے بھی یہاں حکمرانی کی۔ بعد ازاں ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے اسے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کے خلیفہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسی ملک کے شہر کوفہ کو اپنا پایہ تخت بنایا اور بعد میں اموی اور عباسی حکمرانوں نے بغداد کو دارالحکومت بنا کر یہاں حکومت کی۔بالآخر 1258 ء میں منگول حملہ آور ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کر کے اس کو برباد کر دیا۔ کئی سو سال تک یہ ملک ترک عثمانی خلافت کے زیرنگیں بھی رہا۔ حتیٰ کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد اس پر برطانیا کا قبضہ ہو گیا۔3 اکتوبر 1932 کو اسے انگریزوں سے آزادی مل گئی۔ اور انگریزوں نے شریف مکہ کے بھائی شاہ فیصل کو یہاں کا حکمران بنا دیا۔ 1958 میں پہلی فوجی بغاوت ہوئی اور عراقی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ 1963 ء میں دوسری فوجی بغاوت کے بعد عراق مقامی سیاسی جماعت بعث پارٹی کے قبضہ میں چلا گیا۔ بعث پارٹی کے صدام حسین 2003 تک یہاں کے حکمران قرار پائے۔ بعث پارٹی کے دور میں تیل کی صنعت کو قومیا لیا گیا۔ یہی مختصر سا عرصہ عراق کی تعمیر و ترقی کا سنہرا زمانہ تھا۔
صدام حسین کے دورِ حکومت میں عراق نے معاشی ،سیاسی ،سماجی اور عسکری میدان میں خوب ترقی کی اور عراق کی یہ ترقی عالمی طاقتوں کو سخت کھٹکنے لگی اور انہوںنے عراق کی بڑھتی ہوئی طاقت کو لگام دینے کے لیے سازش سے بھرپور ایک ایسی بساط بچھائی ،جسے صدام حسین سمجھ ہی نہ سکے اور اپنے آپ کو اس جال میں پھنسا بیٹھے ۔انقلاب ایران کے فوراً بعد ہی امریکا کی جانب سے صدام حسین کو ایران سے اُلجھا دیا گیا۔ 8 سال تک جاری رہنے والی عراق اور ایران کی اس بے مقصد جنگ کے دوران امریکی، فرانسیسی اور برطانوی کمپنیوں نے اس کثرت سے عراق کو ہتھیار فروخت کیے کہ تیل سے مالامال یہ عرب ملک 120 ارب ڈالر کا مقروض ہو گیا۔اس جنگ کے فوراً بعد عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا۔یوں عراق کی طرف سے کویت پر ہونے والے حملہ نے عراق کی بربادی پر مہرتصدیق ثبت کردی اور عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کر امریکا نے تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک پر قبضہ کر لیا۔ کئی برس بڑے پیمانے پر عراقیوں کا خون بہانے کے بعد یہاں پر دکھاوے کی جمہوری حکومت قائم کرکے صدام حسین کو پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ یادرہے کہ موجودہ جمہوریہ عراق کا کل رقبہ 438317 مربع کلو میٹر ہے۔ اور آبادی تقریباً 39000000 نفوس پر مشتمل ہے۔ انتظامی طور پر ملک کو 18 صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نسلی اعتبار سے 75 سے 80 فی صد آبادی عرب، 15 سے 20 فی صد کرد اور پانچ فیصد ترک اور اسیریائی وغیرہ ہیں۔مذہبی اعتبار سے 97 فیصدی آبادی مسلمان ہے اور ان میں سے 60 سے 65 فی صد شیعہ 32 سے 37 فی صد سنی اور 3 فی صد عیسائی، بہائی، اور ایزدی وغیرہ ہیں۔ ملک کی جی ڈی پی 230 ارب ڈالر اور فی کس آمدنی 5000 ڈالر سے زیادہ ہے۔لیکن عراق کے تیل کے اصل مالک ابھی بھی امریکی اور برطانوی ہی ہیں ۔ بظاہر امریکا اور اس کے اتحادی اپنی بیشتر افواج کے عراق سے انخلاء کا اعلان کرچکے ہیں ۔مگر درحقیقت امریکی اور اسرائیلی افواج بلیک واٹر طرز کی نجی اور خفیہ ملیشیا کی صورت میں اَب بھی عراق میں بدستور قابض ہیں۔ جبکہ داعش جس کے عراق سے مکمل خاتمہ کا اعلان کردیا گیا تھا وہ بھی امریکا کی ایک بی ٹیم کے طور پر عراق کے مضافاتی مقامات پر موجود ہے اور ایک بار پھر سے داعش نے اپنے پر ، پرزنے نکالنا شروع کردیئے ہیں ۔ کیونکہ امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن جس طرح کی صدارتی ٹیم لے کر آئے ہیں، اُسے دیکھ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ امریکا ایک بار پھر سے عراق میںجنگ کا میدان لگانے کا بھرپور ارادہ رکھتا ہے۔ جس کا ایک قوی ثبوت گزشتہ ماہ عراق کے دارلحکومت بغداد کے ایک مصروف تجارتی علاقے میں ہونے خود کش حملہ ہے ،جس میں کم ازکم 32 افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ حیران کن طور پر یہ دھماکہ اُس وقت ہوا جب امریکا کے نو منتخب صدر جوبائیڈن اپنے عہدہ صدارت کو باضابطہ طور پر سنبھال رہے تھے۔ ذہن نشین رہے کہ اس سے پہلے عراقی دارلحکومت میں آخری خودکش دھماکہ جنوری 2018 میں عین اس مقام پر ہوا تھا۔
حیران کن طور پر امریکا میں نئی حکومت کے آنے کے بعد عراق میں فقط امن و امان کی صورت حال ہی خراب ہونا شروع نہیں ہوگئی ہے بلکہ عراق کی سیاست میں بھی تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہوچکی ہیں اور عراق کے نئے وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے تقریباً چھ ماہ سے جاری سیاسی کشمکش کے بعد گزشتہ دنوں ملک کی پارلیمنٹ کی طرف سے نئی حکومت کے لئے منظوری دئے جانے کے ساتھ ہی وزیراغم کا منصب سنبھال لیا۔واضح رہے کہ صدر برہم صالح نے حکومت مخالف مظاہروں کے پس منظر میں گزشتہ ماہ کابینہ تشکیل دینے کے لیے تیسرے امیدوار کے طور پر الکاظمی کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ یہ احتجاج اکتوبر 2019 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ہزاروں عراقی سڑکوں پر آ گئے اور ملک کے سیاسی اور بدعنوان حکمران طبقے کیخلاف آواز اٹھانے لگے ۔ سرکاری سیکیورٹی فورسز نے احتجاج کے خلاف سخت کارروائی کی جس کے نتیجہ میںسینکڑوں مظاہرین ہلاک ہو گئے، اس کے بعد وزیر اعظم عادل عبدالمہدی استعفا دینے پر مجبور ہو گئے، حالانکہ فروری کے اوائل میں علاوی کو نامزد کئے جانے تک وہ نگران وزیر اعظم کے طور پر کام کر تے رہے۔
یادر ہے کہ عراق کے نئے وزیراعظم کا مکمل نام مصطفی عبد لفعت مشتت ہے اور یہ 1967 میں دارالحکومت بغداد میں پیدا ہوئے تھے۔ 1985 میں انہوں نے عراق چھوڑ دیا تھا اور ایران چلے گئے تھے۔ جس کے بعد میں وہ جرمنی اور برطانیا چلے گئے اور برطانوی شہریت بھی حاصل کرلی۔ انہوں نے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور صحافی کے طور پر عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے دورانِ صحافت ہی الکاظمی کا لقب اختیار کر لیا تھا۔ نیز انہیں صدام حسین کی حکمرانی کی مخالفت کرنے کے لیے جانا جاتا تھا ۔ 2003 میں عراق پر امریکا کے حملے کے بعد الکاظمی عراق واپس آ گئے اور’ ’عراقی میڈیا نیٹ ورک‘ ‘کا قیام کیا۔ساتھی ہی انہوں نے ’’عراقی میموری فاؤنڈیشن‘‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔الکاظمی نے 2010 سے تین سال تک عراق کی نیوز ویک میگزین کے چیف ایڈیٹر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔جبکہ وہ امریکا کی ال مانیٹر ویب سائٹ کے عراق شعبہ کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔
جون 2016 میں الکاظمی نے عراقی نیشنل انٹلیجنس سروس کے ڈائریکٹر کی ذمہ داری سنبھالی اور انہوں نے داعش کے خلاف امریکاکی زیرقیادت بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ کام کرنے والے درجنوں ایجنسیوں اور مملاک کے ساتھ رابطے قائم کیے۔2017 میں سعودی دارالحکومت ریاض کے ایک غیر معمولی دورے کے دوران سابق عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کے ہمراہ الکاظمی کو اپنے دوست سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ راز و نیاز کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔ الکاظمی کو عراقی سیاسی میدان کے تمام اہم کھلاڑیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے علاوہ ایک عملی ذہنیت کے حامل شخص کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔مگر عراقی حکومت سنبھالنے کے بعدان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ آیا یہ اپنے پناہ تعلقات اور ذہانت کو درست خطوط پر بروئے کار لاتے ہوئے عراق کو عالمی طاقتوں کے چنگل کے چھڑانے کے لیے کوئی عملی اقدام کرپاتے ہیں یا نہیں ؟۔ بہرکیف الکاظمی اگر حقیقی سیاست سے کام لیتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیاسی چکمہ دے کر ترکی اور چین کے ساتھ اپنا نیا اتحاد قائم کرلیں تو وہ عراق اور عراقی عوام کے لیے مستقبل میں ایک نجات دہندہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔