... loading ...
یوم یکجہتی کشمیر ہی نہیں اب خود کشمیر بھی ایک رسمی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ ابتر نظم مملکت نے پاکستان کے حیات وممات سے جڑے معاملات کو بھی نظروں سے اوجھل کردیا۔جب سیاست ہی اوڑھنا بچھونا بن جائے اور سیاست دانوں سے لے کر قومی اداروں کے ذمہ داروں تک سب کی ترجیح اول روزمرہ کی سیاست پر قابو پانا رہ جائے تو قومی مقاصد دھندلانے لگتے ہیں۔ کشمیر کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ شاید ہمیں یاد نہیں رہا کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور یہ روایتی جملہ نہیں۔
پاکستان کو جتنے سنہری مواقع اب دستیاب ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔ بھارت کا غیر فطری وجود اپنے تاریخی دائرہ کو مکمل کرکے انتشار و افتراق کے فطری انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بھارت میں موجود تمام لسانی، مذہبی، سیاسی اور نسلی اکائیاں مرکزی اقتدار میں موجود برہمن انتہاپسندی کے خلاف آمادہئ بغاوت ہے۔ سیکولرازم کے جس نقاب سے یہ کریہہ اور داغدار چہرہ چھپا تھا، وہ نریندر مودی کے اندازِ حکومت سے اب مکمل عریاں ہو چکا۔ کانگریس کا باطن بی جے پی کے ظاہر اور بی جے پی کا ظاہر کانگریس کے باطن میں اس طرح پیوست ہے کہ اب ان مسائل کی سیاسی چارہ جوئی ایک دوسرے کے متبادل سے بھی ممکن نہیں رہی۔ بھارت میں ہرسطح پر بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ انتہا پسند برہمنوں کے عزائم صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، یہ سکھوں اور عیسائیوں سمیت کسی دوسرے مذہب کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں تک کہ خود نچلی ذات کے ہندؤں کو بھی یہ اپنے پاؤں تلے رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ دلتوں میں بھی ایک جذبہئ مزاحمت انگڑائیاں لے رہاہے۔ کسانوں کی نئی ولولہ انگیز تحریک مودی حکومت کے خلاف مسلسل برسر پیکار ہے۔ پنجاب اور ہریانہ اس کے اصل میدان ہیں مگر دارالحکومت جانے والے راستوں پر بندشیں لگ چکی ہیں۔ دہلی کا پایہئ تخت لرز رہا ہے۔ مسلمان مختلف حیلوں بہانوں سے مسلسل ہندو حکومت کی چیرہ دستیوں کے شکار ہیں۔ بابری مسجد کے فیصلے نے واضح کردیا ہے کہ عدالتیں بھی ہندو تعصب کی شکار ہیں۔ اور بھارت بھر میں کسی بھی لسانی یا مذہبی اکائی کو ہندو دہشت گردی کے خلاف کوئی دستوری تحفظ حاصل نہیں۔ بھارت میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والی آسام ریاست میں ایک بل کے ذریعے دینی مدارس کو یکدم ختم کرکے اسکولوں میں تبدیل کردیا گیاہے۔ شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کا مسئلہ جوں کا توں لٹکتی تلوار بنا ہوا ہے۔ اُدھر اترپردیش میں ”لوجہاد“کے قانون کے تحت مسلمان نشانا بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ہمہ پہلو بے چینی ہے جو بھارت بھر میں تمام غیر ہندو شناخت رکھنے والوں میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اب بھارت میں غیر مسلم بھی برہمن مظالم کے خلاف پاکستان کی تخلیق کے جواز میں بلند آہنگ ہورہے ہیں۔ بھارتی کرکٹر یوراج سنگھ کے والد یوگراج سنگھ نے کسان تحریک کے ایک دھرنے میں اپنے پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے ہمیں تقسیم ہند کے وقت سمجھایا تھا۔ بھارت میں ہر روز ایک نئے پاکستان کی تخلیق کا جواز مہیا ہورہا ہے۔
مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے 5/ اگست2019ء کو جو اقدام اُٹھایا، اس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اس طرح کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ مودی کشمیر کو بھارت بنانے پر تُلے تھے مگر اب پورا بھارت کشمیر بن چکا ہے۔نریندری مودی معروضی حقائق سے آنکھیں بند کرکے جبر سے ملک کو ہانک رہے ہیں۔وہ مسلسل مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کی رواں برس ہونے والی مردم شماری کو 2026ء تک ملتوی کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔ دس سال قبل 2011ء کی مردم شماری کے تحت مقبوضہ وادی میں 68فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی، جبکہ 28 فیصد ہندواور 4 فیصد سِکھ اور بُدھ مت کے پیرو کار تھے۔ یہ اعدادوشمار بھی مسلمانوں کی اصل آبادی کو کم کرکے پیش کیے گئے تھے۔ مودی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہاں مسلم آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے لیے اسرائیلی طرز پر منظم سازشیں کررہے ہیں۔ مودی سرکار نے نئے ڈومیسائل قانون کے تحت ساڑھے 18 لاکھ سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا ہے۔جن میں گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجی بھی شامل ہیں، 10ہزار سے زائد مزدوربہار سے کشمیر میں بسائے گئے ہیں۔ اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں پانچ لاکھ کشمیری پنڈتوں کیلئے بنائی جا رہی ہیں۔مودی حکومت صرف آبادی میں اُلٹ پھیر ہی نہیں کررہی بلکہ مقبوضہ وادی کی زمین پر قبضے کو بھی وسیع کررہی ہے۔ اس مقصد کے تحت بھارتی افواج اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کووادی میں تعمیرات کے لیے کھلاچھوڑ دیا ہے۔اس مکروہ منصوبے کے تحت ہندو سرمایہ داروں کو 20 ہزار کنال اوربیرونی سرمایہ کاروں کو 2 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی دے دی ہے۔ سیکورٹی فورسز کے لیے خصوصی سرٹیفکیٹ کی شرط ختم کردی ہے چنانچہ بارہمولا میں فوجی کیمپ کے لیے 129 کنال اراضی پر نیا قبضہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی افواج پہلے ہی کشمیر میں 53 ہزار 353 ہیکٹرز اراضی پر قابض ہیں۔ آبادی اور زمین کے علاوہ سیاسی حقائق بدلنے کے لیے انتخابی حلقوں کو بھی مسلم ووٹوں کے ارتکاز کو ختم کرنے کے لیے توڑا جا رہا ہے۔ نئی حلقہ بندیاں اور نئے اضلاع کا تعین اسی سازش کے تحت کیا جارہا ہے۔
مودی کے ان ہتھکنڈوں کو لگام دینے کاو قت یہی ہے، جب بھارت بھر میں مختلف حوالوں سے احتجاج جاری ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ہرطرف الگ ہی قسم کی سیاسی مچ مچ مچی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت صرف ومحض بناؤٹی اقدامات اور اس سے بھی زیادہ بے روح اور بے عمل بیانات پر انحصار کررہی ہے۔ عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں 5/ اگست2019ء کے بھارتی اقدام کے بعد اپنے تئیں کشمیر کے سفیر ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد باسی کڑھی میں نیا جوش دینے کے لیے کشمیر کے وکیل بننے کی پھلجڑی چھوڑ دی گئی۔ اس دوران جمعہ کے روز کالی پٹی کے ساتھ احتجاج کے رسمی دکھاوے بھی سامنے آئے۔کچھ ٹوئٹس، چند بیانات سے ماحول کا رنگا رنگ کرنے کی کوشش بھی ہوئی۔ پھر ٹوئٹر سرکار بے حسی کے شرمناک سناٹے اور بے اعتنائی کی بدبو دار چادر اوڑھ کر کہیں سو گئی۔ فعال مملکتیں اپنے ضمیر اور حق کو سونے یا مرنے نہیں دیتیں۔ چین کی مثال سامنے ہے۔ مودی سرکار نے 5/ اگست کے اقدام کے تحت چین کے زیردعویٰ جن علاقوں سے چھیڑ چھاڑ کی تھیں، آج وہاں چین مسلسل بھارت کی ٹھکائی کررہا ہے۔ چین بھارت کو مختلف محاذوں میں اُلجھا کر اُس کے لیے مسلسل سامانِ ہزیمت پیدا کررہا ہے۔چینی صدر نے مودی سرکار کے 5/ اگست کے اقدام کے بعد اپنے زیردعویٰ علاقوں کے حوالے سے وکیل وسفیر بننے کا اعلان نہیں کیا۔ اپنے ہاتھوں پر کالی پٹیاں باندھنے کا ڈھونگ نہیں رچایا۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں شیخیاں نہیں بگھاریں۔ بلکہ انتہائی خاموشی سے منصوبہ بندی کی اور بھارت کو عملی جواب دیا۔ پاکستان چین نہیں بن سکتا تو کم ازکم اپنے ڈھونگی اقدامات کی نمائشی قدروقیمت تو برقرار رہنے دے،چلیں اور کچھ نہیں یہ تو بتادیں، کشمیرکا وکیل وسفیر آج کل کیا کررہا ہے؟
٭٭٭٭٭٭
ؔ