وجود

... loading ...

وجود

تاریخ پررحم کھائیں

منگل 02 فروری 2021 تاریخ پررحم کھائیں

ٹیچر نے کلاس میں ایک طالبعلم سے پو چھا وہ کون سی چیز ہے جو ہے تو آپ کی لیکن زیادہ تر اسے دوسرے استعمال کرتے ہیں؟ ۔۔۔۔طالبعلم سوچ میں گم ہوگیا دماغ بھی کھپایا ،لیکن بات نہ بنی ۔شرمندہ شرمندہ انداز سے ٹیچرکی طرف دیکھا گویا ہار مان لی ہو ۔۔ٹیچر نے کہا آپ کا نام ایسی چیز ہے جو زیادہ تر دوسرے استعمال کرتے ہیں طالبعلم لاجواب ہوگیا۔ کہتے ہیں نام زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتاہے اسی لیے لوگ خوبصورت نام رکھتے ہیں اس کے باوجود آپ نے یہ محاورہ تو اکثر سناہوگا کہ نام میں کیا رکھاہے پھول کو کسی نام بھی پکارو ۔وہ تو اپنی خوشبو سے پہچانا جاتاہے لیکن نام ۔تونام ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ پہچان کی علامت ہے انسانوںکے نام کی بات اورہے شہروں،قصبوں اور علاقوںکے ناموںکی بات اور ان کی ایک تاریخ ہوتی ہے اور نام رکھنے کی وجہ تسمیہ بھی۔

انگریزوںنے بر ِ صغیرپر غاصبانہ قبضہ کیا تو سب سے پہلے اس نے ہندوستان کو’’ انڈیا ــ‘‘ کا نام دیکر اس کی پہچان پرحملہ کیا اور بہت سے شہروںکے نام تبدیل کرکے رکھ دئیے یہ بر ِ صغیرکی تہذیب پر حملہ تھایہ دراصل ایک مخصوص سوچ کا آئینہ دارہے ایک منتشر،تعصبانہ اورغاصبانہ زاویہ فکر کی علامت جس کی کوکھ سے انتہا پسندی نے جنم لیاہے۔۔کئی سال پہلے ہندوستان میں اسی سوچ ،اسی فکر اوراسی خیال کے انتہا پسند ہندوئوںنے تاریخی بابری مسجدکو شہید کرکے وہاں رام مندر بنانے کااعلان کردیاجس نے کئی فتنوںکوہوا دی اس کی آڑمیں مسلم کشی کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے سینکڑوں مسلمانوںکو شہید اور معذور کردیا گیا ، تاریخی بابری مسجدکی تاریخی حیثیت مسخ کرنے اور متنازعہ بنانے کی کوشش تو ناکام ہو گئی اسی طرح دنیا بھر کے یہودی قبلہ ’ اول بیت المقدس کو شہید کرکے وہاں ہیکل ِ سلیمانی بنانے کی سازش کررہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کا امن کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر کام ہورہاہے ،اقوام ِ عالم میں جس ملک میں بھی ایسا ہورہاہے دراصل یہ سب کچھ ایک مخصوص ذہن کے لوگ کررہے ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر انتہا پسندی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں جو ہرکام متشدد انداز سے کرنے کے عادی ہیں یہ لوگ رواداری، برداشت ،تحمل اورپر یقین نہیں رکھتے جس کی بناء پر مذاہب کے درمیان تنائو قائم رہتاہے یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں،افواہوںیا واقعات سے لوگ بھڑک اٹھتے ہیں،مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں یہ رویہ تہذیبوںکا دشمن ہے اور امن کا قاتل ۔ اس سے مذاہب کے درمیان تصادم کے خطرات بڑھتے چلے جارہے ہیں پاکستان میں بھی کچھ لوگ ڈنڈے کے زورپر ہر چیز کو’’ اسلامی ‘‘بنانے پر تلے ہوئے ہیں ان کا کہناہے ایک اسلامی ملک میں غیرمسلموںکے ناموں سے شہروں علاقوں کے نام موسوم نہیں ہونے چاہئیں یہ غیر اسلامی بات ہے ۔

یہ لوگ کسی سیاق و سباق۔۔کسی منظق،فلسفے یالوجک کے بغیر اپنا ایجنڈا ہرکسی پر نافذ کرنے کے لیے پر جوش ہیںاور اس کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ملیا میٹ کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں۔شہروں،قصبوں اور علاقوںکے نام تبدیل کرنا ۔۔تاریخ سے ایک سنگین مذاق ہے بلکہ اسے تہذیب پر حملہ بھی قراردیا جا سکتاہے یہ تواپنی مرضی کی تاریخ مرتب کرنے والی بات ہوئی نا۔۔۔میری ایک شخص سے اس سلسلہ میں بات ہوئی اس کا کہنا تھا اندھا دھند نام تبدیل کرنے کے حامیو ں سے کوئی پوچھے کیا زہر کی بوتل پر تریاق لکھ دینے سے فائدہ ہوگا۔کیا ننکانہ صاحب کا نام تبدیل کرکے رسول پورہ رکھا جاسکتاہے؟ ۔کیانام بدل دینے سے اس شہرکے لوگوںکی سوچیںبدل جائیں گی؟۔ایک اور شخص کا کہنا تھا کسی شہر کا نام یاکسی چیزکی تاریخی حیثیت تبدیل کرنا اچھی بات ہے توتاریخی بابری مسجدکے معاملہ میں کیوں اتنا شور مچایا جارہاہے۔دراصل کسی بھی معاملہ کا انتہا پسندی کوئی حل نہیںبرِ صغیرپاک و بنگلہ ہند کی اپنی ایک تاریخ ہے یہ معاملہ ہر قسم کے تعصب،مذہب اور لسانیت سے بالاتر ہوکر سوچنے کا ہے اس خطے کی تاریخ کوبعینٰہ تاریخ رہنے دیں اپنی مرضی کا نصاب شامل کرنے کی کوشش خطرناک ہوسکتی ہے ،جو لوگ ہر قیمت پر پاکستان کے پرانے شہروں یا چیزوںکے ناموںکو ’’اسلامی ‘‘ بنانا چاہتے ہیں اگر ان کا مطالبہ مان بھی لیا جائے تو ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے ،جناب ِ عالی!سرگنگارام ہسپتال،میو ہسپتال،گلاب دیوی ہسپتال کانام بدل کر آپ کیا نام رکھنا پسند کریں گے؟مونجوڈارو، ہڑپہ کے نئے نام کیاہونے چاہئیں۔ اور وہاں سے دریافت ہونے والی صدیوںپرانی تہذیب کا کیا نام رکھا جائے کیا گندھارا تہذیب کو اسلامی قراردیا جا سکتاہے یا آرین تہذیب کو ۔ مسلمان بنایا جا سکتاہے۔؟ جناب یہ ہمارے خطے کی تہذیب، ثقافت، تمدن اورروایات کے امین نام ہیں انہی میں ان کا حسن پوشیدہ ہے لاہور،قصور، ایمن آباد،ٹیکسلاسمیت سینکڑوں نام ’’غیر مسلم‘‘ہیں آپ کس کس کا نام تبدیل کریں گے؟ اور اس کی بجائے لوگوںمیں حلال حرام کی تمیزاجاگرکی جائے،ہر سطح پر ظلم کے خلاف مو ٔثر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔نفرتوںکے خاتمہ کے لیے محبت ،رواداری اورمذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کچھ کیا جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔آج کے دور میں دنیا گلوبل ویلج بن کر سمٹ گئی ہے نفرتیں پال کر،دنیا سے کٹ کر یا دوسروںپر اپنے بے بنیاد نظریے ٹھونس کر زندگی نہیں گذاری جا سکتی ہم سب کو قول و فعل کا تضاد اور دہرا معیار ترک کرناہوگا دنیا میں امن ،سکون کا واحد حل یہ ہے کہ ’’اپنا عقیدہ مت چھوڑو ۔دوسروںکا عقیدہ مت چھیڑو‘‘ اس اصول کے بغیرسکون مل سکتاہے نہ ترقی کی جا سکتی ہے۔جولوگ کسی سیاق و سباق۔۔کسی منظق،فلسفے یالوجک کے بغیر اپنا ایجنڈا ہرکسی پر نافذ کرنے کے لیے پر جوش ہیںاور اس کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ملیا میٹ کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں ان کو اعتدال کی راہ اپنانا ہوگی ،اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اعتدال سکھاتاہے،توازن کا سبق دیتاہے اور میانہ روی کا حکم دیتاہے۔ مخصوص سوچ سے منتشر ،تعصبانہ اورغاصبانہ انداز ِ فکر پروان چڑھتاہے جس کی کوکھ سے انتہا پسندی جنم لیتی ہے ہم اور ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کا متحمل ہرگزنہیں ہو سکتا تہذیبوںکو تاریخ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا زیادہ بہترہے ۔ایک بچے کا نام تبدیل کرنے کے لیے نادرا والے سو جتن کرنے پر مجبور کردیتے ہیں اور آپ ہیں کہ کتنی سادگی سے صدیوں پرانے نام تبدیل کرنے کی بات کررہے ہیں خدا کے لیے تاریخ پر رحم کھائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔a


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر