... loading ...
کئی ماہ کے صبر آزما اور سنسنی خیز لمحات کے بعد بالآخر امریکا میں منتقلی اقتدار کا اونٹ اپنی اُلٹی کروٹ پر بیٹھ چکا ہے اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے وائٹ ہاؤس کے پرانے مکین ڈونلڈ ٹرمپ کو خاموشی کے ساتھ طویل جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔جبکہ اُن کی جگہ جوزف بائیڈن کو کرسی اقتدار پر متمکن کیئے جانے کا اہم ترین فریضہ بھی خوش اسلوبی سے مکمل کیا جاچکا ہے۔ کیپیٹل ہل واشنگٹن کی راہ داریوںمیں ہونے والی یہ تبدیلی امریکا کے لیے کتنی نفع بخش ثابت ہوگی اور دنیا بھر کے لیے کس طرح سے نیک یا بد سیاسی اثرات کا موجب بنے گی یہ تو اگلے چند برسوں میں معلوم ہوہی جائے گالیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جس انداز میں وائٹ ہاؤس سے بزورِ طاقت بے دخلی عمل میں آئی ہے۔ اُسے دیکھنے کے بعد تو یہ ہی سمجھ میں آتاہے کہ جو بائیڈن کو ،ٹرمپ انتظامیہ کا ہر نقش کہن کو مٹانے کی بہت زیادہ عجلت ہے اوراگر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جوبائیڈن کی حمایت بدستور جاری رکھی تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ٹرمپ انتظامیہ کی تشکیل دی گئی ہر پالیسی کو کوڑے دان کی نذر کردیا جائے گا۔
واضح رہے کہ امریکی اُمورِ سیاست میں یہ ایک بالکل غیر معمولی اور غیرروایتی پیش رفت ہے کیونکہ واشنگٹن کے متعلق ہمیشہ سے دنیا بھر کا عام تاثر یہ ہی رہا ہے کہ ’’اس عالمی شہر اقتدار میں حکمران ضرور بدلتے ہیں، مگر اُن کی بنائی گئی پالیسیاں کبھی تبدیل نہیں ہوتیں ‘‘۔ لیکن اس مرتبہ معاملاتِ سیاست امریکا میں بھی یکسر مختلف انداز میں چلائے جا رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر دنیا بھر پر حکمرانی کرنے والے نئے چہرے بلکہ یہ نئے مہرے ،پرانی بساط اُلٹ کر ازسرِ نو بساط بچھانے کی تیاری میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی ہم یہ تسلیم کرلیں کہ تاریخ واقعی اپنے آپ کو دہراتی ہے تو پھر یقینا ہمیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ امریکا میں بارک حسین اوباما کا دور ِ اقتدار ،امریکی صدر جوزف بائیڈن کی صورت میں واپس آچکا ہے۔
لیکن ہمارے درج بالا جملے سے یہ مطلب اخذ کرنا انتہائی غیر مناسب ہوگا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کے اُمور ِ صدارت کی دیکھ ریکھ سابق امریکی صدر بارک حسین اوباما فرمائیں گے یا اوباما سے ڈکٹیشن لے کر بائیڈن اپنی حکومتی پالیسیاں ترتیب دیاکریں گے۔کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ اگر امریکی سیاست زوال کی اتہاہ گہرائی میں بھی پہنچ جائے ،تب بھی جمہوریت کے ساتھ ایسا مذاق امریکا میں روا نہیں رکھا جائے گا۔لہٰذا ہماری عرض داشت کی مختصر سی وضاحت یہ ہے کہ جوبائیڈن ،بارک حسین اوباما کی طرز پر صدارت کرنے کی کوشش کریں گے اور دنیا بھر کے لیے ترتیب دی جانے والی امریکی پالیسیوں کا سلسلہ وہیں سے استوار کرنا چاہیں گے ،جہاں اوباما نے اُدھورا چھوڑا تھا یا یوںسمجھ لیجئے کہ جس مقام پر ٹرمپ انتظامہ نے عالمی امریکی پالیسیوںکو منقطع کیا تھا ، اُنہیں وہیں سے جوڑنے کا بنیادی ہدف جوبائیڈن انتظامہ کا مرکزی چیلنج ہوگا۔ یعنی جوبائیڈن کے اندازِ جہاں بانی کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے اوبامہ دورِ حکومت میں بنائی جانے والی امریکی پالیسوں کا مطالعہ اور مشاہدہ ازحد ضروری ہوگا ۔
ہمارے اس موقف کو تقویت جوبائیڈن کے منتخب کردہ حکومتی ٹیم کے اراکین کا جائزہ لینے سے بھی ملتی ہے ۔دراصل نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی انتظامیہ میں چن چن کر ایسے افراد کا بطور خاص انتخاب کیا ہے جو یا تو براہ راست ماضی میں اوبامہ انتظامیہ کا حصہ رہ چکے ہیں یا پھر بالواسطہ طور پر کسی ایسی این جی ا و ،اور تھنک ٹینک سے منسلک رہے ہیں ،جنہیں اوبامہ کے دورِ صدارت میں امریکی پالیسیوں کے موثر نفاذ کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ بظاہر جوبائیڈن نے اپنی حکومتی ٹیم کے انتخاب کے ذریعے یہ ثاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے داعی اور محافظ بن کرسامنے آنا کا ارادہ رکھتے ہیں۔لیکن چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ جو بائیڈن کے آنے والا دورِ صدارت بھی بارک حسین اوبامہ کے دورِ حکومت کی مانند جنگ و جدل اور کشت و خون کے نئے نئے حادثات سے عبارت ہوگا۔
ہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت پر چاہے کتنی ہی کڑی تنقید کیوں نہ کریں ،لیکن کم ازکم ایک کریڈٹ تو اُنہیں ضرور دیا جانا چاہئے کہ انہوںنے اپنے دورِ اقتدار میں امریکا کو کسی نئی عالمی جنگ میں نہیں جھونکا بلکہ اُن کی حتی المقدور کوشش اور کاوش تو آخری دن تک یہ ہی رہی کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے امریکا کو جنگ و جدل کی دلدل سے نکال باہر کیا جائے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انفرادی زندگی میں کتنے بھی جھگڑالو طبیعت کی مالک کیوں نہ واقع ہوئے ہوں لیکن انہوں نے امریکا کو غیرضروری عالمی جنگوں سے نکالنے کے لیے جو غیر اقدامات کیے ،اُن کی مثال امریکی کی پوری سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے تو( جیسے کہ اُن کے بارے میں گمان ظاہر کیا جارہاتھا ) اپنے دورِ صدارت کے اختتامی ایام میں کوئی نئی جنگ چھیڑ کر امریکی انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بناسکتے تھے لیکن انہوں نے دنیا کو ڈرایا ،دھمکایا تو بہت، مگر عملی طور پر عالمی سطح پر امریکا کو کسی بھی جنگ کا ایندھن بنانے سے گریز ہی کام لیا۔ ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن بظاہر دنیا کو اپنا ہنستا مسکراتا چہرے سے خوش آمدید تو کہہ رہاہے لیکن درپردہ ،وہ دنیا بھر میں امریکا کے لیے نئے محاذ جنگ گرم رکھنے کے خطرناک عزائم بھی رکھتا ہے۔ جس کا اولین ثبوت بائیڈن انتظامیہ نے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر نظرثانی کرنے کا بیان داغ کر دے ہی دیا ہے۔
طالبان سے معاہدہ پر نظر ثانی کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے ایام میں جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے معاہدہ کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے ایسی سخت شرائط پیش کی جائیں گی ،جو طالبان قیادت کے لیے قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہوں گی ۔جس کے بعد جوبائیڈن ، طالبان پر ہٹ دھرم ہونے کا الزام عائد کریں گے اور افغانستان میں جنگ بجھتے ہوئے الاؤ کو ایک نئے انداز میں دہکادیں گے۔نیز افغانستان میں شروع کی جانے والی اِس جنگ کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے گی ۔تاکہ چین کی جانب سے اس خطے میں شروع کیا جانے والا عالمی تجارتی منصوبہ ،ون بیلٹ ،ون روڈ کا مستقبل مخدوش صورت حال سے دوچار کیا جاسکے ۔اس مقصد کو فوری طور پر حاصل کرنے کے لیے واشنگٹن یقینا کابل میں نئی دہلی کی اجارہ داری قائم کرنا چاہے گا۔
اس لیے جو سادہ لوح افراد یہ گمان رکھتے ہیں جوبائیڈن انتظامیہ ،نریندر مودی سے بھارت اور کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر باز پرس کرے گی ،بلاشبہ ایسی سطحی سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ ویسے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اگر منصفانہ باز پرس کے لیے کوئی عالمی عدالت تشکیل دی جائے تو اُس کے کٹہرے میں سب سے پہلی صف میں امریکا ہی کوکسی مجرم کی طرح کھڑا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںجتنی امریکا نے کی ہیں ،وہ صرف بیان سے ہی نہیں بلکہ خواب و خیال سے بھی باہر ہیں ۔ لہٰذا جوبائیڈن کے انسانی حقوق میں دھوکے میں فقط وہ آئے گا جسے سرے سے معلوم ہی نہ ہو کہ انسانی حقوق کس چڑیا کا نام ہے؟۔
اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ اگر ٹرمپ کے دور ِ صدارت میں کیے جانے والے امریکا اور طالبان معاہدے کی بقا کو کسی بھی قسم کے سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں تو اس کی تپش براہ راست پاکستان تک بھی ضرور پہنچی گی۔نیز یہ بھی قوی امکان ہے کہ ڈو مور جیسے قصہ پارینہ بن جانے والے الفاظ کی گونج ایک بار پھر سے پاکستانیوں کی سماعت میں زہر گولنے لگے۔ کیونکہ لفظ ڈو مور کی اصطلاح متعارف کروانے والے سفارتی بزرچمہر ہر وقت وائٹ ہاؤس میں جوبائیڈن کے دائیں ، بائیں ہی موجودر ہیں گے اور ان کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو کسی بھی قسم کی سیاسی ، سفارتی اور معاشی رعایت کا مستحق قرار دیا جاسکتاہے۔
مگر دوسری جانب امریکا کی جانب سے متوقع طور پر اختیار کردہ غیر منصفانہ سفارتی سلوک کا مثبت پہلو یہ بھی برآمد ہوسکتاہے کہ پاکستان کے لیے امریکا سے اپنی برسوں پرانی سفارتی دوستی کو ختم کرکے ،مکمل طور پر چین کے کیمپ میں چلے جانا آسان ہوجائے۔ بہرحال پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات کا تمام تر انحصار جوبائیڈن انتظامیہ کی اُس پالیسی پر ہی ہوگا،جو وہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اختیار کریں گے۔ اگر جوبائیڈن کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہوا تو اس بار پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے درمیان فقط دراڑ نہیں پڑے گی بلکہ پورا گڑھا پڑ جائے گا ،بعد ازاں جس کی مرمت کرپانا نہ تو امریکا اور نہ ہی پاکستان کے لیے ممکن ہوسکے گا۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کے درمیان وہ نازک موڑ آچکا ہے ،جس کے بعد مل کر چلنے ، مل جل کر بچھڑ جانا زیادہ آسان ہوجاتاہے۔بقول ساحر لدھیانوی
تعارف روگ ہوجائے تو اُس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اُس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے ایک خوب صورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔