وجود

... loading ...

وجود

کورونا ویکسین اور امیر ممالک

هفته 30 جنوری 2021 کورونا ویکسین اور امیر ممالک

پیٹر گڈ مین

اگر امیر ممالک کورونا ویکسین کی فراہمی پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے انسانی تباہی کا سبب بننے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کے نتیجے میں پھیلنے والی معاشی تباہی متمول ممالک کو بھی اتنی ہی شدت سے متاثرکرے گی جیسے وہ ترقی پذیر ممالک کو برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ سوموار کو ایک تحقیقی رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کا نچوڑ یہ ہے۔اس کا سخت ترین منظر نامہ یہ ہو سکتا ہے کہ امیر ممالک کے شہریوں کو اس سال کے وسط تک کورونا ویکسین لگائی جا سکتی ہے اور زیادہ تر غریب ممالک میں روز مرہ سرگرمیاں بالکل ہی بند ہو سکتی ہیں۔ سٹڈی میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ کووڈ کی وجہ سے عالمی معیشت کو 9 ٹریلین ڈالرز سے زائد کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو اتنی بھاری رقم ہے کہ جاپان اور جرمنی کی مجموعی ا?ئوٹ پٹ سے بھی زیادہ بن جاتی ہے۔ اس نقصان کا نصف سے زیادہ تو امریکا، کینیڈا اور برطانیا جیسے متمول ممالک ہی برداشت کریں گے۔ ریسرچرز کے خیال میں کچھ ایسے پس منظر کے ابھرنے کا امکان ہے جس میں اس سال کے اختتام تک غریب ممالک میں نصف سے بھی کم ا?بادی کو کورونا کی ویکسین لگ سکتی ہے اس کے باوجود عالمی معیشت کو پھر بھی 1.8 سے 3.8 ٹریلین ڈالرز تک نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ان تکلیف دہ مشکلات کا نصف سے زیادہ حصہ امیر ممالک کو ہی سہنا پڑے گا۔

اس ریسرچ‘ جو انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس نے کرائی ہے‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ویکسین کی منصفانہ تقسیم ہی سب ممالک کے مفاد میں ہے‘ خاص طور پر وہ ممالک جن کا سارا انحصار ہی تجارت پر ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ غریب ممالک کو ویکسین میں سے حصہ دینا ایک طرح سے خیرات کرنے کے مترادف ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر سلو ڈیمیرلیپ جو اس سے پہلے فیڈرل ریزروز واشنگٹن میں بھی کام کر چکے ہیں اور اس سٹڈی کے معاون مصنف بھی ہیں‘ کا کہنا ہے ’’تمام معیشتیں ایک دوسرے کے ساتھ باہم جڑی ہوئی ہیں۔ کوئی ایک اکانومی بھی اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک کہ دوسری معیشتیں بحال نہیں ہو جاتیں‘‘۔ ڈاکٹر ڈیمیر لیپ نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ انسان دوستی پر مبنی عالمی اقدام جو (ACT) Accelerator کے نام سے معروف ہے اور اس کا مقصد کورونا سے متاثرہ غریب ممالک کو وسائل فراہم کرنا ہے مگر اب تک 38 ارب ڈالرز سے زائد کے وعدوں کے جواب میںصرف گیارہ ارب ڈالرز کی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ اس سٹڈی میں ہدف اور وعدوں کے درمیانی خلا کو پر کرنے کے لئے ایک معاشی لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ بقیہ 27 ارب ڈالرز دیکھنے میں ایک بڑی رقم لگتی ہے مگر یہ کورونا وائرس کو اپنے حملے جاری رکھنے کی اجازت دینے کے مقابلے میں تو ایک حقیر رقم ہے۔

یہ ایک عمومی آئیڈیا ہے کہ کووڈ کی عالمی وبا نہ سرحدوں کا احترام کرتی ہے اور نہ ہی اسے کسی نسل یا اس طبقے کی کوئی پروا ہے جسے کارپوریٹ چیف ایگزیکٹوز اور پنڈتوں نے جنم دیا ہے؛ تاہم اس بات کو اس حقیقیت نے جھٹلا دیا ہے کہ کووڈ کی پھیلائی ہوئی تباہی اور موت نے کم آمدنی والے ورکرز خاص طور پر نسلی اقلیتوں کے روزگار کو ختم کر دیا ہے جبکہ سفید کالر والے ملازمین زیادہ تر اپنے گھروں میں رہ کر بھی اپنی ملازمتیں بچانے میں کامیاب رہے اور دنیا کے امیر ترین افراد اس کورونا کے دوران اپنی قیمتی کشتیوں میں بیٹھ کر اپنے نجی جزیروں کی طرف بھی نکل سکتے تھے مگر اس ریسرچ سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ عالمی تجارت کے لیے کورونا وائرس سے بچائو کے لیے کوئی ٹھکانہ دستیاب نہیں ہے۔ عالمی سپلائی چینز انڈسٹری کے لیے پارٹس فراہم کر رہی ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتا جب تک وائرس کی شدت برقرار ہے۔ کاک یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی اور میری لینڈ یونیورسٹی کے ماہرین معیشت پر مبنی ایک ٹیم 65 ممالک کی 35 صنعتوں سے متعلق اعدادو شمار کو سٹڈی کرنے کے بعد کورونا وائرس کی ویکیسن کی نامنصفانہ تقسیم کے معاشی اثرات کا جائزہ لیا ہے۔

اگر ترقی پذیر ممالک کے لوگ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے ہونے والے لاک ڈائون کے نتیجے میں اپنے روزگار سے محروم ہو جاتے ہیں تو ان کے پاس اتنی رقوم میسر نہیں ہوں گی کہ وہ اپنی روزمرہ استعمال کی اشیا بھی خرید سکیں۔ اس کا لازمی نتیجہ اس کے سوا کیا نکل سکتا ہے کہ شمالی امریکا، یورپ اور جنوبی ایشیا میں ایکسپورٹرز کی سیلز میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جائے گی۔ ترقی یافتہ ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیاں پارٹس اور اشیائے ضروریہ کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گی۔ ا سٹڈی سے پتا چلتا ہے کہ غریب ممالک میں کورونا کی وجہ سے ان صنعتوں کے حالات بہت خراب ہوں گے جو زیادہ تر دنیا بھر کے سپلائرز پر انحصار کرتی ہیں جن میں آٹو موٹیو، ٹیکسٹائل تعمیرات اور ریٹیلز شامل ہیں اور ان کی سیلز میں پانچ فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
عالمی کساد بازاری کی وجہ سے کموڈوٹیز کی طلب میں کافی کمی آچکی ہے اور کاپر پیدا کرنے والے ممالک زمیبیا اور کانگو، تیل پر انحصار کرنے والے ممالک جیسے کہ انگولا اور نائیجیریا‘ سب کی پیداوار اپنی نچلی ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔کووڈ پھیلنے سے سیاحت بند ہو چکی ہے اور اسی باعث تھائی لینڈ انڈونیشیا اور مراکش میں روزانہ کی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ بہت سے غریب ممالک کورونا کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں جس سے ان حکومتوں کی آمدنی ختم ہو گئی ہے اور وہ صحت عامہ جیسے شعبوں میں اخراجات کرنے کے قابل نہیں رہے۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ‘ دونوں نے ریلیف فراہم کرنے کے وعدے تو کیے تھے مگر اس مقصد کے لیے ڈالر فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ ٹرمپ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے پانچ سو ملین ڈالرز کے فنڈز میں توسیع کی مخالفت کی جسے عالمی حکومتیں ہارڈ کرنسی کے طور پر نکلوا سکتی تھیں۔ جو بائیڈن کے صدر بننے سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ ان کی حکومت اس فنڈ کی توسیع کی حمایت کرے گی۔

واشنگٹن اور برسلز میں اخلاقی بنیاد پر ترقی پذیر ممالک کی حمایت کرنے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے کہ کرہ? ارض کے غریب ترین ممالک کے لیے وہ کس قدر فنڈز فراہم کر سکتے ہیں۔ اس سٹڈی میں اس فنڈکے فریم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ترقی پذیر اقوام کو ویکسین کی فراہمی میں ناکامی دراصل ان امیر ممالک کو نقصان پہنچانے کا باعث ہی بنے گی۔ انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کے سیکرٹری جنرل جان ڈینٹن کہتے ہیں کہ جب تک پوری دنیا سے کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیا جاتا، دنیا کی کوئی معیشت اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے ویکسین کی خریداری متمول ممالک کی طرف سے سخاوت کا اظہار نہیں ہو گا۔ اگر دنیا بھر کی حکومتیں اپنی داخلی معیشت کو اوپر اٹھانا چاہتی ہیں تو انہیں ویکسین کی خریداری پر سرمایہ کاری کرنا ہی پڑے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر