... loading ...
افتخار عارف اپنی شاعری کی پرتوں میں تجربے کے جزوی اظہار پر قانع نہیں رہتے، گاہے پورا تجربہ نچوڑتے ہیں، اپنی ایک نظم میں تب ہی مصرعے سے سوال اُٹھایا:۔
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مقتدر راہداریوں میں سرگوشیوں پر دھیان رکھنے والے ”خبر“ دے رہے ہیں کہ بلاول بھٹو نے تحریک عدم اعتماد کا ”شوشہ“ یوں ہی نہیں چھوڑا۔ آصف علی زرداری کی صحت ہر چند دن بعد ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بن جاتی ہے۔ مگر یہ کیا، وہ اچانک فعال کیوں ہوگئے؟
نواز لیگ پارلیمنٹ میں تبدیلی کی تجویز سنجیدگی سے لینے پر راضی نہیں۔دوسری طرف سڑک کے ذریعے تبدیلی کے راستے پر پیپلزپارٹی چلنے کو تیار نہیں۔ اس عالم میں مولانا فضل الرحمان کا ”جنون“ فارغ بیٹھنے کو آمادہ نہیں،وہ مستعار زمین وآسمان پھونک ڈالنے پر بضد ہیں۔اُنہیں چراغِ حجرہئ درویش کی بجھتی ہوئی لو کہہ گئی ہے کہ ”اب تماشا ختم ہوگا“۔ایسی ہی ایک سرگوشی کے نتیجے میں وہ 13/ نومبر 2019 کو ایک تیرہ روزہ دھرنا دے کر خود ایک تماشا بن چکے تھے۔ اقتدار کی راہداریوں میں جاری کھیل کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ اس لیے گاہے یہاں تماشائی بھی تماشا بن جاتے ہیں۔
کسی کویاد نہیں رہا کہ پی ڈی ایم کی محرک پیپلزپارٹی تھی۔ جس نے حزب اختلاف کی سیاست پر قابو رکھنے کے لیے اکثر رسیاں اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ یہ جے یو آئی اور نواز لیگ کی ناکامی تھی کہ وہ پیپلزپارٹی کے مقاصد کو بھانپ نہیں سکیں۔ پیپلزپارٹی موجودہ بندوبست کی دوسری بڑی منافع خور شراکت دار ہے۔ پی ڈی ایم کے مقاصد سے وابستگی کی صورت میں اُسے کوئی عملی اور حقیقی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ نواز لیگ کے حامی ذرائع ابلاغ کے شہسواروں نے پی ڈی ایم کے ذریعے ایک طوفان اُٹھانے کی کوشش کی۔ مگر خود پی ڈی ایم کے داخلی انتشار کو فراموش کیے رکھا۔ پیپلزپارٹی کے لیے اپوزیشن اتحاد دراصل ایک ایسی طاقت کا ذریعہ تھا جو اِسے مرکزی طاقت کے غضب سے بچائے رکھے۔ بدعنوانی کے بے شمار قضیوں سے اپنی گردن کی حفاظت کے لیے وہ مرکزی طور پر اپوزیشن اتحاد کو ایک ڈھال سمجھتی ہے۔ لہٰذا جہاں وہ پی ڈی ایم کو سڑک کے ذریعے احتجاج سے روکنے کا ”باریک“ کام دکھا رہی ہے، وہیں وہ اس اتحاد کو بھی بچانے کی جدوجہد کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، کیونکہ اپوزیشن اتحاد اُسے یہ طاقت دیتاہے کہ وہ طاقتور حلقوں کی ضرورت کے طور پر اپنی سیاست اور اقتدار کا تحفظ کرتی رہے۔
پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم سے وابستگی کی وجوہات کچھ اور بھی ہیں۔ پیپلزپارٹی عملی طور پر اب صوبہ سندھ کے علاوہ ملک کے کسی حصے میں کوئی قابل ذکر وجود نہیں رکھتی۔ آصف علی زرداری بہرصورت بلاول بھٹو کو قومی افق پر اُبھارنا چاہتے تھے۔چنانچہ بلاول بھٹو کو سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں ایک مضبوط لیڈر کے طور پر پیش کرنے کے لیے اپوزیشن اتحاد سے بہتر پلیٹ فارم مہیا نہیں ہوسکتا تھا۔ جہاں بلاول کو خطاب کے لیے زیادہ بڑے ہجوم میسر آسکتے تھے۔ بلاول بھٹو کو اس سے قبل پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے متعدد مرتبہ متعارف کرایا گیا مگر اُن کی شخصیت کا کوئی خاص جادو نہیں چل سکا تھا۔ پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم اس اعتبار سے پیپلز پارٹی کے لیے انتہائی موثر رہا جہاں بلاول بھٹو کو نسبتاً قومی سطح کے رہنماؤں کے ساتھ ملک کے تمام علاقوں میں خطاب کے مواقع میسر آئے۔ پیپلزپارٹی کے لیے پنجاب ایک بڑا ہدف ہے جہاں وہ نواز لیگ کے باعث عوامی سطح پر بالکل غائب ہوگئی ہے۔ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں جتنی بڑی تعداد میں رہنما میسر ہیں، اتنی تعداد میں کارکنان میسر نہیں۔ چنانچہ پنجاب کے اندر پیپلزپارٹی کے پرانے جذبات کو بیدار کرنے کے ایک موقع کے طور پر پی ڈی ایم سے بہتر منچ کوئی نہیں تھا، جہاں بلاول بھٹو کو عوامی رجحانات میں داخل ہونے کے لیے اپنے سابق حریف نواز لیگ کی رفاقت بھی میسر تھی۔ یہ پورا کھیل سیاسی ضرورتوں کا تھا۔ چنانچہ پی ڈی ایم نے جب حکومت ہٹاؤ مشن کے انتہائی اقدامات یعنی استعفوں اور دھرنے کا اعلان کیا تو پیپلزپارٹی نے نہایت چابک دستی سے ان اقدامات کو غیر موثر بنادیا۔
کسی اندھے کو بھی نظر آسکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے سارا انحصار سینیٹ انتخابات پر تھا۔ اپوزیشن اتحاد کو اپنا سارازور اسے ناکام بنانے کے لیے لگانا تھا۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز استعفوں اور دھرنوں کے لیے تاریخوں میں الٹ پھیر بھی سینیٹ انتخابات کی تاریخ کو سامنے رکھ کر کرتے رہے۔ حیرت انگیز طورپر پی ڈی ایم رہنماؤں کو لاہور میں منعقدہ اپنے جس سربراہی اجلاس سے دھرنے اور استعفے دینے کی تاریخ دینی تھی، وہاں سے وہ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ لے کر اُٹھے۔
اس سے سیاسی رہنماؤں کی صلاحیتوں کا اندازا بھی لگایا جاسکتا ہے۔ آج تک پاکستان میں حکومت مخالف جتنی بھی تحریکیں برپا ہوئیں، اُس میں کھلا یا خفیہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ رہامگر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپوزیشن تحریک سیاسی رہنماؤں کو اپنے بل بوتے پر چلانی پڑی تو وہ اس تحریک سے کوئی موثر فضا بنانے میں مکمل ناکام ہوگئے۔ پیپلزپارٹی نے سیاسی بیانیہ جو بھی اختیار کیا ہو، مگر پی ڈی ایم تحریک کے غلغلے کو ایک بلبلے میں تبدیل کرنے کا پورا سہرا اُسی کے سر ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز جب سینیٹ انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے مختلف راستوں پر غور کررہے تھے، تو بلاول بھٹو نے ایسے وقت میں اچانک تحریک عدم اعتماد کا سوشہ چھوڑا اور ساتھ ہی سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کابھی اعلان کردیا۔ عملاً اب صورتِ حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں کسی سیاسی جماعت کو تحریک عدم اعتماد کی اس تجویز سے اتفاق نہیں مگر تمام دیگر جماعتیں بھی سینیٹ میں حصہ لینے پر کمر بستہ ہو چکی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی تجویز دراصل عمران خان کی حکومت کے خلاف نہیں اپوزیشن اتحاد کی ناکامی کا اعلان کرتی ہے۔ تماشا یہ ہے کہ اب اپوزیشن اتحاد پیپلزپارٹی سے تحریک عدم اعتماد کے لیے عددی کھیل کے متعلق سوال کررہی ہیں۔ پی ڈی ایم کا سارا زور ختم ہوچکا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی نواز لیگ اور پی پی سے ناراضیوں کی خبریں عام ہیں۔ اب یہ ایک ایسا اتحاد بن چکا ہے جس میں اتحاد کے علاوہ باقی سب دکھائی دیتا ہے۔
نوازشریف، مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کے دیگر قائدین یہ سمجھنے میں کیوں ناکام رہے کہ پیپلزپارٹی موجودہ بندوبست میں اپنی رسائی کی حدتک پورا سوفیصد رکھتی ہے۔ وہ اس سے باہر نکل جائے تو پھر بھی ایک نئے بندوبست میں وہ اتنا کچھ حاصل نہیں کرسکتی جو اس کے پاس اب ہے۔ ایسی صورت میں وہ کیونکر اس بندوبست سے پی ڈی ایم کی خاطر باہر نکلنے کا انتہائی فیصلہ کرگزرے گی۔ پھر موجودہ بندوبست کی جو لڑائی اس وقت نوازلیگ کے ساتھ ہے، وہ پیپلزپارٹی کے لیے بجائے خود سیاسی طور پر فائدہ مند ہے۔ کیونکہ یہی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے پیپلزپارٹی کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ جس کے باعث اُسے سندھ حکومت کے ذریعے کھل کھیلنے کا موقع میسر آتا ہے۔اور احتساب کے سخت شکنجے میں راحت بھی ملتی ہے۔ یہ راز بہت جلد کھل جائے گا کہ پیپلزپارٹی اس پورے کھیل میں کس کی طرف سے کھیل رہی تھی؟
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
٭٭٭٭٭