وجود

... loading ...

وجود

سب ٹھیک نہیں

بدھ 27 جنوری 2021 سب ٹھیک نہیں

بیس جنوری کوجو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ کے کئی اقدامات اور فیصلوںکو ختم کرنے کے احکامات دیے جن سے تبدیلی کا احساس ہوا ہے تبدیلی کا احساس تو حلف برداری کی تقریب سے بھی ہوا جب واشنگٹن ڈی سی اور ورجینیا کو ملانے والے متعددپل بند کر نے اورامن و امان یقینی بنانے کے لیے نیشنل گارڈ کے پچاس ہزارنوجوان تعینات کیے گئے پھربھی وسوسے و خدشات دامن گیر رہے لیکن کام کے آغاز سے نئے صدرنے احساس دلایا ہے کہ وہ تعصب کی بجائے رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کریں گے سات ماہ قبل امریکی پولیس کے ہاتھوں بے دردی سے مارے گئے سیاہ فام کی بچی سے گھٹنوں کے بل جُھک کر معافی مانگ کر پیغام دیا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں خیر ایک تصویر کی اشاعت سے ذیادہ توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ کشمیر،مشرقِ وسطیٰ ،میانمارکے مسائل کا برقراررہنا امریکی انتظامیہ کا تجارتی فوائد کو انسانی حقوق پرفوقیت دینا ہے اب تونسلی تعصبات وسیاسی تقسیم امریکی معاشرے میں بھی سرایت کرنے لگی ہے اصل تبدیلی یہ ہے کہ 78سالہ نومنتخب صدر کسی کواپنی ٹیم کا حصہ بناتے وقت انسانی حقوق کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں کو ترجیح دیں۔

پاک بھارت ذرائع ابلاغ میں صدرکی کابینہ کا حصہ بننے والے چہروں پربحث زوروشور سے جاری ہے نائب صدر کمیلا ہیرس چاہے بھارتی نژاد سہی لیکن اُن کے خیالات سے پاکستانی خاصے پُر امید ہیں کہ کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ رکوانے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ چاہے عملی طور پر کاروائی نہ سہی لیکن زبانی طور پر ہی سہی سرزنش ضرور کرے گی لیکن ایسی اُمیدیں یا توقعات کا پورا ہونا محال ہے کیونکہ امریکہ کو چین سے بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے اِس لیے چین کی تیزرفتارمعاشی ترقی کو سُست روی کا شکارکرنے کے لیے بھارتی ساتھ کی ضرورت ہے بھارت جس کا امریکا سے تجار ت کا حجم سترارب نوے کروڑ ڈالر کے قریب ہے جبکہ پاک امریکا تجارت چھ ارب ڈالر سے بھی کم ہے امریکا میں بسنے والی بھارتی ستائس لاکھ ساٹھ ہزارکے قریب یعنی کل آبادی کا ایک فیصد ہو گئے ہیں جبکہ پاکستانی اٹھاون ہزار دوسوہیں اس لیے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجودبھارت مستقبل میں بھی امریکی چہیتا رہے گا۔

ٹرمپ کی طرف سے مسلم ممالک پر لگائی سفری پابندیاں میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے فیصلوں کو جو بائیڈن نے ختم کر دیا ہے لیکن افغانستان کے حوالے سے طے پانے والے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کا عندیہ دیا جارہا ہے اور فریقین معاہدے کے نکات پر کتنا عمل کر رہے ہیں جائزہ لینے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ سب سے پہلے امریکا کے فلسفے کی قائل نہیں بلکہ مفادات کے تناظر میں جہاں مناسب سمجھے گی مداخلت کرسکتی ہے جس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں مثال کے طور پرجو انتظامیہ میں سیکرٹری آف ا سٹیٹ یعنی وزیرِ خارجہ جیسا اہم عہدہ اینٹونی بلنکن جیسے شخص کو سونپا گیا ہے جن کا امریکی افواج کے دومئی 2011کو ایبٹ آباد آپریشن میں اہم کردار ہے جس میں مدد کرنے پر جب پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر شکیل کی غداری کے الزام میں گرفتاری عمل میں آئی تو اینٹونی بلنکن نے رہاکرانے کی سرتوڑ کوشش کی یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی اِداروں نے کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں نئے وزیرِ خارجہ کو پاکستان سے پہلے ہی شکوے شکایات ہیں بیس سے زائد اہم عہدوں پر فائز بھارتی نژاد افراد کی موجودگی میں آسانی سے جو انتظامیہ سے گرمجوشی پر مبنی تعلقات اُستوار ہونا خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔

سیاہ فام لائیڈ آسٹن کو وزیرِ دفاع کی زمہ داری تفویض کی گئی ہے اُنھیں فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعدعوامی عہدے کے لیے مروجہ روایات سے استثنیٰ دیکر ڈیفنس سیکرٹری بنایا گیا جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بات چیت سے مسائل سُلجھانے کی بجائے طاقت کے اظہار پر یقین رکھتے ہیں سلالہ چیک پوسٹ پر جب امریکی فوج نے حملے کے دوران کئی پاکستانی فوجی شہید کر دیے تو یہی لائیڈ آسٹن افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر تھے نیز افغانستان میںامریکی فوج اکثر پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتی رہی اِس لیے یہ تو کسی صورت ممکن نہیں کی لائیڈ آسٹن کے ذہن سے بطور کمانڈر پیداہونے والی تلخیاں محو ہو چکی ہوں ذیادہ امکان یہی ہے کہ وہ پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیں گے اِس لیے پاکستان کو خوش فہمیوں سے نکل کر تمام ممکنہ آپشن پر غور کرنے اور مناسب تیاری کرنی چاہیے کیونکہ سلالہ حملے پر چاہے ہیلری کلنٹن نے معذرت کی تھی مگر لائیڈ آسٹن نے ندامت ظاہر کرنے کے حوالے سے آج تک ایک لفظ نہیں بولااب وہ کیونکر پاکستان پر ریشہ خطمی ہوسکتے ہیں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں اہم کردار اداکرنے والی خاتون بھی اہم عہدے پر فائز ہوچکی ہے پھربھی پاکستان کا سب کچھ ٹھیک تصور کرنا حقیقت کے خلاف ہوگا۔
ترکی کا روس کے قریب ہونا امریکا کے لیے پریشانی کا باعث ہے جو نیٹو ممبر ہونے کے باوجود روس سے مہلک میزائل سسٹم ایس 400 خریدچکااوراب امریکی پابندیوں کے نرغے میں ہے پاکستان بھی ترکی سے بحریہ کے لیے جہازتیار کرارہا ہے روس اور ترکی سے خراب امریکی مراسم کے باوجود پاکستان نہ صرف دونوں ممالک سے متواتر مشترکہ فوجی مشقیں کرتا ہے بلکہ مذکورہ ممالک کو امریکی دفاعی پابندیوں کا متبادل سمجھنے لگا ہے اِس لیے یہ تصور کر لینا کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کو بھارت پر ترجیح دے گی غلط ہوگا کیونکہ چین ،روس اور ترکی جیسے ممالک سے قربت رکھنے کی پاداش میں پاکستان اُسے حلیف کی بجائے حریف نظر آئے گا چاہے چین سے امریکاکے تعلقات بہتر بنانے کی پیشکش کر ے یا پاکستان نیک تمنائوں کا اظہار کر ے امریکا کی طرف سے جواب میں نیک تمنائوں کا خون انہونی نہ ہو گی یادرہے نئی نتظامیہ ٹرمپ کی طرح منہ پھٹ نہیں بلکہ اظہارِ خیال میں محتاط ہے اور لازمی نہیں کہ جو کہے اُس پر عمل بھی کرے عین ممکن ہے دایاں دکھا کر بائیں سے وارکردے۔

نئی امریکی انتظامیہ نے دوبرس سے تعینات نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کو اپنے عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جنھیں یقین ہے طالبان اور پاکستان ایک پیج پر ہیں وہ افغانستان،عراق کے ساتھ اقوامِ متحدہ میں امریکی سفارتکار جیسے اہم عہدوں پرکام کر چکے ہیں نیز افغان حکومت کے علاوہ قبائلی بودوباش اُن سے پوشیدہ نہیںاِس لیے پاکستان کو اپنے پتے کھیلتے ہوئے انتہائی احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا زراسی سُستی یا بے احتیاطی نئی انتظامیہ سے دور کر سکتی ہے موجودہ دور میں کسی بڑی طاقت سے کٹ کر رہنا دانشمندی نہیں بلکہ مراسم بڑھا کر معاشی، دفاعی اور تجارتی سہولتیں حاصل کی جا سکتی ہیں مگر حکمت و تدبر سے ہی مفادات کا حصول ممکن ہے ۔

پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ علی زیدی ماحولیات کے مشیر جبکہ سلمان احمد خارجہ پالیسی ٹیم کا حصہ ہیں یہ پاکستانی نژادامریکی ہیں علاوہ ازیں عائشہ شاہ اور سمیرا فاضلی کا جو بائیڈن انتظامیہ کا حصہ بننے سے نئی قیادت کو کشمیر کی دگرگوں صورتحال سے درست آگاہی ملنے کا امکان ہے جس سے ممکن ہے کشمیریوں کی جہنم بنی زندگی میں کچھ بہتری آجائے کیونکہ جو کی انتخابی مُہم میں شامل اہم بھارتی نژاد سونل شاہ اور امیت جانی کو شامل نہیں کیا گیا عام خیال یہ ہے کہ انھیں بی جے پی اور آرایس ایس سے تعلقات کی بنا پر نئی انتظامیہ کا حصہ نہیں بنایا گیا اگر پاکستان حسین حقانی طرز کے فیصلوں کی بجائے مربوط سفارتی مُہم پر کام کرے تو پاکستان امریکی انتظامیہ میں جگہ بنا سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر