... loading ...
(مہمان کالم)
ڈایانے کوئل
سال ہا سال سے امریکا میں ملازمت پیشہ خواتین کی کہانی اگرچہ سست روی سے مگر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی بیورو آف لیبر کی طرف سے ملازمت کی فراہمی سے متعلق مہیا کردہ اعداد و شمار کو دیکھ کر شدید صدمہ ہوتا ہے۔ اس سال صرف دسمبر میں 14400 ملازمتیں ختم ہو گئیں، جو موجودہ معاشی کساد بازاری کا تسلسل سمجھا جا سکتا ہے۔مگر ایک طرف مردوں کی ملازمتوں میں قدرے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، تو دوسری طرف 1 لاکھ 56 ہزار خواتین کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ان کا تعلق زیادہ تر ہوٹل انڈسٹری اور تعلیم کے شعبوں سے تھا۔ مگر حیران کن طور پر اس عرصے کے دوران سفید فام خواتین کی ملازمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کا زیادہ نقصان رنگدار یا سیاہ فام خواتین کو ہوا ہے۔
یہ سب کچھ کووڈ کی نحوست ہے۔ بدقسمتی سے یہ سارا نقصان ان لوگوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے جو اسے برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے؛ چنانچہ امریکی معاشرے میں صنفی، طبقاتی اور نسلی عدم مساوات کی خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔ حالیہ عشروں میں خواتین کی ورک فورس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا تھا۔ 1980کی دہائی کے اواخر میں مردوں کی تنخواہ کے مقابلے میں خواتین کی تنخواہ اوسطاً 62 سینٹ فی ڈالر سے 81 سینٹ فی ڈالر بڑھ گئی تھی۔ 1972ء میں ورک فورس میں خواتین کا حصہ 44فیصد تھا جو 2020ء میں بڑھ کر 50 فیصد ہوگیا تھا۔ 1970ء کے اوائل میں خواتین کی ورک فورس میں سیاہ فام خواتین کا حصہ 49 فیصد تھا جو اب بڑھ کر 59 فیصد ہو گیا ہے۔ اسی طرح 1970 میں ہسپانوی نسل کی خواتین کا ورک فور س میں 41 فیصد حصہ تھا، اب اس میں بھی اضافہ ہو گیا تھا مگر بے یقینی کا احساس ان فوائد کے لیے ہمیشہ ایک خطرہ ثابت ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے امریکی عوام کو چاہئے کہ وہ ورک فورس کی صنفی (Gender) نوعیت کا اچھی طرح سے جائزہ لیں۔
معاشی استحکام کے دور میں بھی خواتین کی ملازمتیں کم تر ا سٹیٹس اور کم تنخواہ کے زمرے میں آتی تھیں مثلاً تعلیم کے میدان میں خواتین کل ورک فورس کا تین چوتھائی حصہ ہیں۔ فوڈ سروسز میں بھی ان کی ہی اکثریت ہے۔ ان شعبوں میں دسمبر کے اعداد و شمار حیران کن ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں خواتین کی ملازمتوں میں 62ہزار 500 نشستوں کی کمی واقع ہوئی جبکہ فوڈ سروسز میں خواتین کی 3 لاکھ 72 ہزار ملازمتیں ختم ہوئیں۔ اس نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ دریں اثنا 2019ء میں انہی تنخواہوں یا کم سے کم معاوضے پر کام کرنے والی خواتین زیادہ تر فوڈ کی تیاری یا فوڈ سروسز میں ہی ملازمت کرتی تھیں اور بدقسمتی سے کووڈ نے سب سے زیادہ اسی شعبے کو متاثر کیا ہے۔
گزشتہ مہینے ملازمتوں سے محروم ہونے والی خواتین کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ تحقیق سے پتا چلاہے کہ سفید فام خواتین کے مقابلے میں رنگدار خواتین کے معاوضے سب سے کم ہیں اس لیے وہ بچت کرنے کے بجائے مزیدقرضوں کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ ملازمت کھو جانے یا کم تنخواہ کی وجہ سے انہیں سب سے زیادہ خطرہ گھروں سے بے دخل ہونے کا رہتا ہے۔سست رفتاری سے پیدا ہونے والا یہ بحران امریکا کے لیے نیا نہیں ہے۔ یونیورسل ہیلتھ کیئر اور مضبوط سیفٹی نیٹ کی عدم موجودگی نے اسے امریکا کے لیے مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ 2000ء کے معاشی بحران کے بعد سے کم یا درمیانی تنخواہ والے افراد کے معیارِ زندگی میں کوئی خاص بہتری دیکھنے میں نہیں ا?ئی۔ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والی رنگدار خواتین کے لیے معاشی سکیورٹی بمشکل دستیاب ہے۔ آئندہ برسوں میں جدید تعلیم سے آراستہ لوگ سافٹ ویئر انجینئرنگ، مالیاتی مہارت والے شعبوں یا نالج اکانومی کی طرف بھاگیں گے۔ زیادہ تر سفید فام مرد اربن سنٹرز میں رہنا پسند کریں گے تاکہ وہ معاشی زبان کی اصطلاح میں سپر ا سٹار آمدنی کے مواقع سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر اعلیٰ تعلیم تک رسائی استحکام کا باعث بنتی ہے تو خواتین کے لیے اس کے نتائج کہیں زیادہ سنگین ثابت ہو ں گے۔ اگر چہ امریکا میں بیچلر ڈگری ہولڈرز کی کل تعداد میں تما م نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا حصہ پچاس فیصد ہے مگر کل گریجویٹ خواتین میں سیاہ فام خواتین کی تعداد محض 6فیصد ہے۔
امریکا اور دیگر امیر ممالک میں سماجی سائنس دان اس حقیقیت کو ’’میتھیو ایفیکٹ‘‘ کی اصطلاح میں بیان کرتے ہیں جو بائبل کے ایک حوالے میتھیو 25:29 سے مستعار لی گئی ہے۔ ’’جس کسی کے پاس بھی کچھ ہے‘ اسے مزید دیا جائے گا اور اس کے پاس اس کی اکثریت ہو جائے گی مگر جس کسی کے پاس کچھ نہیں ہے اس کے پاس جو تھوڑا بہت ہے وہ بھی لے لیا جائے گا‘‘۔
چنانچہ معیشت نے متمول لوگوں کو مزید خوش حال اور پسے ہوئے طبقات کو مزید مفلوک الحال بنا دیا ہے۔ آنے والے مہینوں میں جب لوگوں کو بڑے پیمانے پر کورونا ویکسین لگے گی تو ہماری معیشت پھرسے اپنے پائو ں پر کھڑی ہو جائے گی اور ہماری سماجی سرگرمیاں پھر سے نارمل طریقے سے شروع ہو جائیں گی مگر گزشتہ ایک سال کے عرصے میں کورونا وائرس نے امیر اور غریب میں، مرد و خواتین میں، سفیدفام اور رنگدار لوگوں میں حائل طبقاتی خلیج کو مزید وسیع کر دیا ہے۔
ہسپتالوںاور ٹرانسپورٹیشن جیسے لازمی سروسز شعبوں میں ملازمت کرنے والے افراد جذباتیت کا شکار ہو گئے ہیں مگر انہیں قابل تبدیل آلہ کار سمجھ کر ڈیل کیا گیا ہے۔ ایک ہی مہینے کے ڈیٹا کو بار بار ا سٹڈی کرتے رہنا بھی دانشمندی نہیں ہوگی؛ تاہم ورکنگ کلاس خواتین خاص طور پر سیاہ فام اور ہسپانوی نڑاد خواتین کے حالات میں سست رفتار مگر مسلسل بہتری آنے کا سلسلہ ایک حد پر آ کر رک گیا ہے۔
کسی بھی معاشرے پر اگر ہم مسلسل بوجھ ڈالتے رہیں گے تو ایک مرحلے پر پہنچ کر ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ اس پر کس حد تک مزید بوجھ ڈالا جا سکتا ہے؟ تعمیر نو یا معاشی بحالی‘ خواہ وہ پہلے سے بہتر ہی کیوں نہ ہو‘ کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا۔ اگر ملازمت کرنے والی خواتین کی پروگریس کمزور یا ریورس بھی ہو گئی ہو تو ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ آنے والے دنوں میں اس پر مختلف طریقے سے عمل کرنے کے بارے میں سوچ لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔