وجود

... loading ...

وجود

دل خراش

جمعه 22 جنوری 2021 دل خراش

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ایک اور لہر آنے کا شورمچاہواہے یہ وباء اتنی بھیانک ہے کہ ہرطرف خوف وہراس ہے ،اس سے متاثرہونے والوں کے لوگ قریب بھی نہیں جاتے ،وہ جوان کے لیے کورونامتاثر مریض ساری زندگی کما کما کر تھک جاتاہے جن کو ایک خراش لگے تو اس کی نیند حرام ہوجاتی تھی وہ بھی ا س کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ،حتیٰ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل ا سٹاف بھی ان سے خوف کھاتا ہے، گذشتہ سال لاہورکے میو ہسپتال میں کورونا وائرس کا ایک مریض طبی امداد کے لیے کئی گھنٹے چلاتارہا،کوئی اس کے قریب بھی نہ پھٹکا اسی دوران بے بسی کے عالم میں اس کی موت ہوگئی اس کی سنگینی کااندازہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ چین،امریکا،بھارت اور اٹلی میں ہزاروں افراد دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ ٔ اجل بن گئے یہ وباء اتنی تیزی سے پھیلی کہ لوگوںکو سنبھلنے کاموقع ہی نہ ملا کہیں بچے، کہیں بوڑھے اورکہیںعورتیں سڑکوںپر چلتی چلتی اچانک گرتیں خوفناک انداز میں چیختیں کسی کو قے آتی، کسی کا خون آلودہ تھوک اسی کے کپڑوںپر گرتاکوئی تیڑھا میڑھاہوکر آڑا ترچھاوہیں جان دے دیتا۔سینکڑوں بچوںنے اپنے والدین کے ہاتھوں میں چل بسے اور جن کے ہاتھوںمیں ان کے پیارے جان بحق ہوئے وہ بھی اس وائرس کا شکارہوگئے ان کاانجام بھی اسی انداز سے ہوگیا گھر،بس ا سٹاپ، سڑکیں،دفاتر،ہوٹل ،شاپنگ مال الغرض ہرجگہ لوگ مرتے چلے گئے ،شہرکے شہرلاشوںسے بھرگئے گھنٹوں کوئی لاشوںکو اٹھانے والا نہیں آیا، سب کے سب خوفزدہ تھے ڈرے، ڈرے،سہمے،سہمے سب پر موت کا خوف طاری تھا ،جو ایک ایک خراش لگنے پر آسمان سرپر اٹھالیاکرتے تھے ان کے دلخراش واقعات سننے والا کوئی زندہ نہیں بچا ،کیونکہ یہ وباء یہ مرض کتنا خوفناک ہے ا س کا اندازہ ان2 واقعات سے لگایاجاسکتاہے جو قیامت سے کچھ کم نہیں ہیں؟ ایک فرانسیسی ڈاکٹر نے “Tv5” نامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: آج ایک گھڑی ایسی آئی کہ مجھے لگا میں “شدت تکلیف سے” اندر ہی اندر جھلس رہا ہوں۔

ہوا یہ کہ “کورونا” کے ایک مریض نے اپنے آخری وقت میں ہم سے درخواست کی کہ وہ آخری مرتبہ اپنی اولاد سے ملنا چاہتا ہے۔ پہلے تو ہم نے صاف انکار کر دیا۔لیکن جب وہ بری طرح رو رو کر اصرار کرنے لگا کہ اب زندگی کا کیا بھروسہ میں آخری وقت اپنے پیاروںکو دیکھناچاہتاہوں ان سے باتیں کرنے کو دل مچلتاہے ،تو ہمیں اس پر بہت ترس آیا اور ہم نے اس کی بات ماننے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ہم ایک جگہ کاانتخاب کیا خصوصی طور پر صفائی اور دیگرحفاظتی انتظامات کیے تاکہ مریض کے گھر والوں کے لیے کوئی خطرہ نہ رہے۔ پھر “بطور ڈاکٹر” جب ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ اب “وہ ” کسی اندیشہ کے بغیر آسکتے ہیں تو ہم نے “موت کی آغوش میں آخری سانسیں لیتے شخص کی ” آخری خواہش ” پوری کرنے کے لیے ” اس کے گھر والوں کو فون کیا۔

لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ مریض کے گھر والوں نے باپ سے آخری مرتبہ ملنے سے انکار کردیا کہ کہیں ان کو بھی یہ وائرس نہ لگ جائے۔ ہم نے ان سے بہت التجا کی اور لاکھ یقین دلایاکہ ہم نے حدسے زیادہ احتیاطی تدابیر کر لی ہیں اور آپ کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن وہ نہیں مانے اور فون کاٹ دیا۔ یہ کہتے ہوئے فرانسیسی ڈاکٹر آبدیدہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قیامت کا ہولناک منظر کھینچتے ہوئے فرمایا: یہ وہ دن ہے کہ جس دن انسان اپنے بھائی سے بھاگے گا،اپنے ماں باپ اور اپنی بیوی بچوں سے دور بھاگے گا۔ میرے نزدیک تو یہ قیامت کاسا منظر تھا۔۔دوسرا واقعہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک دلخراش تصویر ہے جس نے دنیا کی بے ثباتی آشکارکرکے رکھ دی ہے اس کی آنکھوں کی یہ بے بسی لاکھوں آنکھوں کو نم کرگئی یہ تصویر انڈونیشیا کے ڈاکٹر علی کی آخری تصویر ہے جوکوروناوائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود کو کورونا وائرس سے نہیں بچا سکے ،تو اس عظیم ڈاکٹرکو جب لگاکہ اب وہ زندہ نہیںبچیں گے تو انہوںنے اپنی اہلیہ کو فون کرکے تمام صورت ِ حال سے آگاہ کیا انڈونیشیا کے ڈاکٹر علی نے اسے کہا تم بچوںکو لے کر گیٹ کے سامنے آجائو میں اپنے پیاروںکاآخری دیدار کرناچاہتاہوں لیکن خبردار تم یا بچے بھول کربھی میرے پاس آنے کی غلطی نہ کرنا تم نہیں جانتی یہ غلطی کتنی بھیانک ثابت ہو سکتی ہے ،یہ میری تم لوگوںکے ساتھ آخری ملاقات ہوگی ا سکے بعدمیں جتنے دن بھی زندہ رہوں مجھے ملنے کی ضدنہ کرنا ان شاء اللہ ہماری ملاقات جنت میں ہوگی بس میں جی بھرکر تمہیں دیکھنا چاہتاہوں ۔ ڈاکٹر علی اپنے گھر گئے اور گیٹ کے باہر کھڑے ہوکر اپنے بیوی بچوں کا جی بھر کے آخری دیدار کیا اور دور کھڑے رہے وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ بیماری بیوی بچوں کو لگے یہ تصویر انکی اہلیہ نے اپنے موبائل فون سے لی تھی ڈاکٹر علی انسانی روپ ایک فرشتہ ثابت ہوئے ،مرنے سے پہلے گھر آئے بچوں کو گیٹ کے باہر سے دیکھا اور چل دیا اسکے بعد دنیا کو الوداع کہہ دیا ،ذراتصورکی آنکھ سے دیکھئے دل ہی دل میں محسوس کیجئے کتنا تکلیف دہ وہ لمحہ رہا ہوگاجب اپنے معصوم بچوں کو اپنے سینے سے بھی نہیں لگا سکے، نہ پیار کرسکے اور نہ ہی چوم سکے ،ڈاکٹر علی اپنے فرض پرقربان ہوگئے یقینا انسانیت ڈاکٹر علی کی ہمیشہ مقروض رہے گی۔پاکستان میں گلگت بلتستان ڈاکٹر اسامہ ریاض کروناوائرس کے مریضوںکا علاج کرتے کرتے خودمریض بنکر چل بسے اب دنیا میں درجنوں ڈاکٹراور پیرا میڈیکل ا سٹاف میں اس خطرناک مرض کے وائرس کانکشاف ہواہے ،اللہ تبارک تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ سب متاثرین کو صحتِ کاملہ سے نوازے( آمین) اس وقت دنیا بھرمیں12لاکھ سے زائد افراداس وباء کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لاکھوںمتاثرہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب میڈیکل ٹیمیں اس وباء سے محفوظ نہیں رہ سکیںتو عام آدمی کو تو اور بھی زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے آپ بھی احتیاط کیجئے کہ احتیاط ہی اس وباء سے بچنے کا واحدطریقہ ہے۔ اپنے ،اپنے خاندان اور اپنے پیاروںکی خاطراحتیاط ہی عافیت ہے لہذا اپنی حفاظت کے لیے اپنی حکومت کا ساتھ دیجئے اورڈاکٹروںکی تجاویز پر عمل کیجئے یقین اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے ایک بار پھر گذارش ہے احتیاط کیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر