وجود

... loading ...

وجود

سیاسی و انتظامی مفاہمت کا ’’کالاجادو‘‘

جمعرات 21 جنوری 2021 سیاسی و انتظامی مفاہمت کا ’’کالاجادو‘‘

پاکستان پیپلزپارٹی کافی عرصہ سے یہ دعوی کرتی دکھائی دیتی ہے کہ ’’انہوں نے صوبہ سندھ میں لسانیات کی بنیاد پر ہونے والی سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے سندھ میں بسنے والے ہر زبان بولنے والے کے لیے اپنی جماعت کے دروازے پوری طرح سے کھول دیئے ہیں اور کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی بھی قوم یا قبیلہ سے تعلق رکھتا ہویا اُردو ،پنجابی ،بلوچی ،سرائیکی ،پشتو غرض کوئی بھی زبان بولتا ہو وہ باآسانی پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوسکتاہے‘‘۔ بظاہر پاکستان پیپلزپارٹی کا یہ ’’سیاسی دعوی‘‘ کچھ اتنا غلط بھی نہیں ہے کیونکہ مفاہمت کے بادشاہ کہلائے جانے والے آصف علی زرداری نے واقعی گزشتہ کچھ برسوں سے پیپلزپارٹی سندھ میں دیگر اقوام کے ان گنت افراد کو اپنی جماعت میں اہم ترین عہدوں پر آنے کا خصوصی موقع فراہم کیا ہے ۔جس کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان پیپلزپارٹی ،دیہی سندھ کے ساتھ ساتھ شہری سندھ کی عوام میں بھی کافی مقبول اور مضبوط ہوئی ہے اور اندرون سندھ کے اکثر شہروں میں اُن انتخابی نشستوں پر بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے اُمیدوار تسلسل کے ساتھ کامیاب ہورہے ہیں جن پر ماضی میں ایم کیوایم یا دیگر سیاسی جماعتوں کے اُمیدوار کامیاب ہوا کرتے تھے۔ لیکن حیران کن طور پر پاکستان پیپلزپارٹی نے ’’سیاسی مفاہمت ‘‘ کی یہ پالیسی کراچی میں اختیار نہیں کی ۔جس کی وجہ سے کراچی کی سیاست اور پیپلزپارٹی کی سیاست میں گہری خلیج پائی جاتی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے کراچی کے عوام ساتھ اپنے ’’سیاسی تعلقات‘‘ استوار کرنے کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کاوش بھی نہیں کی ۔بلکہ اُلٹا سندھ حکومت نے اپنی حکومتی و انتظامی پالیسیوں سے اہلیانِ کراچی کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ اُن کے بغیر بھی سندھ حکومت بہت اچھی طرح سے چل سکتی ہے۔

ویسے تو سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے ساتھ معاندانہ انتظامی رویہ رکھنے کی کئی ایک مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔لیکن گزشتہ ہفتے تو کراچی کی طالبات کے ساتھ جس طرح کے انتظامی تعصب کا اظہار کرنے والی خبر میڈیا کی زینت بنی ،اُسے پڑھ کر اور سُن کر تو دل کو جو تکلیف اور صدمہ پہنچا شاید اُسے الفاظ بیان کرنا ممکن نہ ہوسکے ۔ خبر یہ تھی کہ ’’ جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نوابشاہ کی داخلہ پالیسی میں تین کروڑ کے شہر کراچی کی طالبات کے لیے میرٹ پر ایک نشست بھی مختص نہیں ہے اورجامعہ کے جاری کردہ داخلہ اشتہار میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے علاوہ پورے سندھ کے تمام اضلاع کی ڈومیسائل کی حامل طالبات جامعہ میں داخلے کے لیے رجوع کرسکتی ہیں لیکن کراچی کا ڈومیسائل رکھنے والی طالبات جامعہ میں داخلے کی اہل نہیں ہوں گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نوابشاہ داخلے کا یہ اشتہار واٹس اپ پر اتنی مرتبہ آگے بھیجا گیا ہے کہ اب اسے بیک وقت پانچ افراد کو بھیجنا ممکن نہیں رہا ہے اوراب اگر کوئی شخص اس اشتہار کو واٹس ایپ پر کسی کو بھیجنا چاہے تو وہ ایک وقت میں صرف ایک ہی شخص بھیج سکتاہے۔یاد رہے کہ کراچی کی طالبات کے ساتھ یہ اس لیے بھی بہت بڑی زیادتی ہے کہ صوبہ سندھ میں خواتین کی صرف 2 ہی جامعات ہیں اور نواب شاہ کے بعد دوسری جامعہ سکھر یونیورسٹی برائے خواتین ہے لیکن اس جامعہ کی داخلہ پالیسی پورے پاکستان کے لیے یکساں ہے ۔

واضح رہے کہ نواب شاہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا آبائی شہر ہے اور کہا جاتاہے کہ سندھ حکومت چلائی ہی نواب شاہ کے زرداری ہاؤس سے جاتی ہے ۔ ایسے میں اگر کراچی کے باسیوں کو معلوم ہو کہ نواب شاہ شہر کی ایک جامعہ میں داخلہ لینے کے لیے اُن کی بچیوں پر باقاعدہ سرکاری اشتہار کے ذریعے پابندی لگادی گئی ہے ۔اَب آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ اس تعصب زدہ خبر کو سُن کر اہلیانِ کراچی کے دلوں پر کیا گزری ہوگی ۔ یاد رہے کہ جب جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نوابشاہ کی داخلہ پالیسی پر ملک بھر کے میڈیا ، خاص طور پر سوشل میڈیا میں سخت تنقید کے بعد اس داخلہ پالیسی کو کراچی کے ساتھ ناانصافی قرار دے کر میرٹ کا قتل عام ہونے کی دہائیاں دی جانے لگیں تو متعلقہ جامعہ اور سندھ حکومت کے حلقوں کی جانب سے وضاحتوں کا ناختم ہونے والا اور نامطمئن کرنے ہونے والا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔

پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ کے رجسٹرار ڈاکٹر خان محمد بلو کا اس خبر سے متعلق موقف تھا کہ ’’کراچی کی طالبات کی تبادلے کی بنیاد پر10 نشستیں مختص ہیں مگر میرٹ پر ایک بھی نشست نہیں ہے اور سندھ جناح میڈیکل یونیورسٹی اور ڈاؤ میڈیکل کی پانچ پانچ طالبات اگر چاہیں تو یہاں تبادلے کی بنیاد پر آسکتی ہیں۔ کیونکہ کراچی کی طالبات کو میرٹ کی بنیادپر نشستیں دینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے ۔ بظاہر ہم محکمہ بورڈز و جامعات کے ماتحت ہیں مگر ہمیں داخلہ پالیسی محکمہ صحت دیتا ہے‘‘۔اس وضاحت کا سادہ سا مطلب یہ ہی لیا جاسکتاہے اگر کراچی کی کسی طالبہ کو جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نوابشاہ میں پڑھنے کو شوق ہے تو اُسے یہاں کی جامعہ میں پڑھنے والی طالبہ کی منت ،ترلے کرنا ہوں گے اگر اُسے رحم آگیا تو تبادلہ کی بنیاد پر کراچی کی طالبہ کو جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نوابشاہ میں پڑھنا کو موقع مل سکتاہے ۔ المیہ ملاحظہ فائدہ پھر بھی نواب شاہ کی جامعہ میں پڑھنے والی طالبہ کا ہی ہوگا۔ اسے آپ انتظامی و سیاسی تعصب کی بدترین مثال بھی کہہ سکتے ہیں۔

دوسری جانب لطیفہ ملاحظہ ہو کہ دائود انجینئرنگ یونیورسٹی کراچی میں اندرون سندھ کے طلبہ کے لیے 50 فیصد اور شہری علاقوں کے لیے الگ سے 50 فیصد نشستیں مختص ہیں۔نیز جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی اندرون سندھ کی 46 اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی میں اندرون سندھ کی 23 نشستیں مختص ہیں۔صرف یہ ہی نہیں این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی اندرون سندھ کے تعلیمی بورڈز کی بنیاد پر نشستیں مختص کی گئی ہیں جبکہ جامعہ کراچی میں بھی اندرون سندھ کے طلبہ کے لیے خصو صی اضافی نشستیں مختص کی گئی ہیں ۔اس کے علاوہ جامعہ کراچی کے21 ٹیسٹ والے شعبوں میں پورے سندھ کے طلبہ کے لیے داخلے کھلے ہیں۔ تاہم سب سے دلچسپ، انوکھی اور حیرت انگیز صورتحال لیاری میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی کی ہے جہاں50 فیصد نشستیں کراچی کے لیے اور باقی 50 فیصد اندرون سندھ کے طلبہ و طالبات کے لیے مختص کرکے اہلیانِ کراچی کو خدا جانے سندھ حکومت کی جانب کونسی ’’سیاسی و انتظامی مفاہمت ‘‘ کا سبق پڑھایا جارہا ہے ،ہم تو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں اگر آپ کو سمجھ میں آجائے تو اپنے تک ہی رکھیئے گا کسی کو مت بتائیے گا کیونکہ سچ بات کرنے سے صوبہ سندھ میں جاری سیاست کے مفاہمتی عمل کو نقصان بھی پہنچ سکتاہے۔

سُنا ہے ایک جادو ہے مفاہمت
یہ جادو ہے تو، اُلٹا پڑ رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر