... loading ...
(مہمان کالم)
کرس کونز
6 جنوری امریکی جمہوریت کا سیاہ ترین دن تھا۔ ہماری جمہوری تاریخ میں یہ صرف دوسرا موقع ہے کہ امریکی دارالحکومت کو روندا گیا ہے مگر اس مرتبہ یہ سب کچھ برطانوی فوجیوں نے نہیں کیا۔ یہ ٹھگوں کا ایک فسادی ٹولہ تھا جسے ایک صدر نے اشتعال دلایا تھا اور اس کی کوشش تھی کہ صدارتی الیکشن کے نتائج کا تصدیقی سرٹیفکیٹ جاری ہونے سے روکا جائے۔ جب میں اپنے سینیٹ کے ایک ساتھی کے ساتھ چھپا ہوا تھا میرے ذہن میں سب سے پہلا خیال اپنے سٹاف کی حفاظت کا ا?یا۔ پھر یہ کہ میں اپنی فیملی تک کیسے پہنچوں گا؟ جب مجھے ایک مرتبہ ٹی وی سیٹ تک رسائی مل گئی تو میں نے واشنگٹن کو لوٹنے کے بڑے ہی دلخراش مناظر دیکھے۔ میں حیران تھا کہ ساری دنیا بھی ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اسی دن سے میں یکجہتی اور تشویش پر مبنی میسج پڑھ رہا ہوں، امریکا کے قریبی اتحادیوں جن میں فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان اور کینیڈا سمیت دیگر کئی ممالک شامل ہیں‘ کی طرف سے فسادیوں کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکی سرحدوں کے اندر سے ہونے والے اس حملے نے ہماری جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ اس کمزوری کی سرعام نمائش کی گئی ہے اور دنیا بھر میں لوگوں کو یہ سوال کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ کیا ہمارے جمہوری نظام کا مستقبل خطرے میں تو نہیں۔ یہ ایک سنگین بات ہے مگر ہمیں اس پر زیادہ حیرانی کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ چار سال میں صدر ٹرمپ نے جمہوریت کی سرحدوں کو کافی پیچھے دھکیل دیا ہے ان اداروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے جو گزشتہ 230 برسوں سے ہماری جمہوریت کا تحفظ کر رہے تھے۔ ٹرمپ سفید فام نسل پرستوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہے، انہوں نے ہماری عدلیہ کو چیلنج کیا ہے اور صحافیوں کو عوام دشمن قرار دیا ہے۔ انہوں نے 2020ئ کے الیکشن کے مہینوں میں ووٹنگ کے دن سے پہلے ہی ہمارے اعتماد کو مجروح کرنا شروع کر دیا تھا۔بیرونِ ملک بھی ان کے قدامات ہمارے لئے پریشان کن تھے۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے ا?مر کم جونگ ا?ن کی تعریفوں کے پل باندھ دیے تھے جبکہ امریکا کے بعض قریبی اتحادی لیڈروں کی توہین کے مرتکب ہوتے رہے۔ حال ہی میں انہوں نے روسی حکومت کی طرف سے امریکی حکومت اور نجی شعبے کی معلومات کو ہیک کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کیا۔ اس ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ہمیں بالکل ہی پریشان نہیں ہونا چاہئے، اگر ٹرمپ اپنے اس ا?ئینی حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے حامیوں کے ہمراہ کیپٹل ہل پر حملہ ا?ور ہو جائیں مگر ہمیں اس بات پر ضرور تشویش ہونی چاہئے، اگر ہمارے اتحادی ایک جمہوری پارٹنر کی حیثیت میں ہم پر اعتبار اور اعتماد کرنے پر سوالات اٹھانا شروع کر دیں یا اگر ہمارے حریف اپنے جیو پولیٹکل مفادات کے لیے امریکی جمہوریت کے اس سیاہ ترین دن کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیں۔
آخر یہ ہماری جمہوریت کی مضبوطی ہی ہے، یہ ہماری قانون پسندی ہی ہے اور یہ ہمارے فرد کے وقار کا احترام ہی ہے جو عالمی منظرنامے پر ہمارے اثر ورسوخ کو پروان چڑھاتا ہے۔ جب ہمارا صدر ہی ہمارے الیکشن کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہو تو ہم کس طرح بیلاروس اور ا?ئیوری کوسٹ میں منصفانہ الیکشن کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے اتحادی ہماری عسکری قوت پر انحصار کر سکتے ہیں اور کیا ہمارے دشمن ہماری عسکری قوت سے مرعوب ہو جائیں گے جب ہم اپنے اداروں کے تحفظ سے ہی قاصر نظر آئیں گے۔ اگر ہم اپنی ان خطرناک کمزوریوں پر توجہ نہیں دیں گے تو ہم اپنے اوپر منافقت کے الزامات کو خود دعوت دیں گے۔ اس سے دنیا بھر کے ان آمروں کے موقف کو تقوت ملے گی جو یہ کہتے ہیں کہ ان کا سسٹم جمہوری اداروں سے برتر ہے اور امریکا انسانی حقوق کا اسی وقت احترام کرتا ہے جب اس کے لیے موزوں ہو۔ صدر ٹرمپ اور ان کے حواریوں نے جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ ان کے جانے کے بعد بھی جاری رہے گا۔
مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری جمہوریت کے احیا کیلئے اور امریکا کے دنیا بھر میں اپنی اقدار کے تحفظ اور احترام کے لیے ہمیں فوری طور پر اپنے اتحادیوں اور دشمنوں کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہماری جمہوریت اس آزمائش پر پوری اتری ہے۔ جب گزشتہ بدھ کی رات کیپٹل ہل کو خالی کروا لیا گیا تو کانگرس نے فوری طور پر الیکشن کے نتائج کی توثیق سے متعلق اپنا کام شروع کر دیا۔ ہمیں دنیا کو ایک بھرپور پیغام دینا ہے کہ آج بھی امریکا میں قانون کی حکمرانی ہے اور ہمیں پچھلے ہفتے ہنگامہ آرائی کے مجرموں‘ جن میں سب سے بڑا مجرم ٹرمپ ہے‘ کا احتساب کرنا ہوگا۔ نائب صدر مائیک پینس کو چاہئے کہ وہ آئین کی 25ویں ترمیم کو بروئے کار لاتے ہوئے انہیں اس منصب سے ہٹا دیں۔ ایسا کرنے کا اختیار صرف نائب صدر اور کابینہ کے پاس ہے۔ اگر وہ بھی ناکام ہو جاتے ہیں توکانگرس کو چاہئے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھے اور ان کا مواخذہ کرے۔ دوم یہ کہ کانگرس میں ٹرمپ کے ان حامیوں کو‘ جنہوں نے اس ہنگامہ آرائی کو ووٹرز کے ساتھ فراڈ کے نام پر ہوا دی ہے‘ کو چاہئے کہ وہ سچ بولنے کی جرات پیدا کریں۔ انہیں چاہئے کہ وہ یہ اعلان کر دیں کہ جو بائیڈن ایک آزاد اور منصفانہ الیکشن کے ذریعے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ بیس جنوری کو جمہوریت کے احیا اور اقتدار کی پْرامن منتقلی کے اس مرحلے میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں۔ ریپبلکن پارٹی کے وہ ارکان جو زخموں پر مرہم رکھنے کے دعوے کر رہے ہیں‘ انہیں چاہئے کہ وہ مصالحت کا راستہ اختیار کریں۔ ہمارے سامنے چیلنج سے بھرپور کئی دن ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم یہ امر سب پر واضح کر دیں کہ ہمارا کوئی بھی صدر جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے بعد تادیبی کارروائی سے نہیں بچ سکتا۔ جب جو بائیڈن صدر کاحلف اٹھا لیں‘ کانگرس کو چاہئے کہ وہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے اور کووڈ کی زد میں آنے والوں کے لیے ریلیف پیکیج کی منظوری دینے کا کام شرو ع کر دے۔6 جنوری واقعی ہماری آزمائش کا دن تھا۔ ہمارے ردعمل سے ہی اس بات کا تعین ہوگا کہ کیا ہم تقسیم اور انتشار کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں یا اپنے زخم بھرنے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ دنیا ہماری طر ف دیکھ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔