... loading ...
مچھ میں دہشتگردوں کے ہاتھوں 10 مزدوروں کے سفاکانہ قتل کیخلاف 3 جنوری سے دیا جانے والا دھرنا بالآخر ہفتہ 9 جنوری کو مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد ختم کردیا گیا، میتوں کے ہمراہ دھرنا ہزارہ ٹائون سے متصل کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دیا گیا تھا۔ مجلس وحدت المسلمین کی کال پر کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے دیئے گئے۔ دراصل یہ احتجاج تھا ہی مجلس وحدت المسلین کا، جسے شہداء ایکشن کمیٹی کا لبادہ پہنایا گیا۔ورثاء تدفین ہی چاہتے تھے اور 3 جنوری کی رات ہی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان شیعہ کانفرنس، شیعہ علماء کونسل اور دوسرے ہزارہ نمائندہ اشخاص پر مشتمل جرگہ یا اجلاس میں طے پایا گیا تھا کہ صبح تدفین کردی جائے گی اور اپنے اپنے طور و انداز میں احتجاج کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں مجلس وحدت المسلمین شریک تھی اور فیصلہ تسلیم بھی کرلیا تھا۔ تاہم رات کے آخری پہر امام بارگاہوں سے میتیں اٹھا کر مغربی بائی پاس لے جاکر دھرنے میں رکھ دی گئیں۔یہاں یقیناً دوسرے سیاسی مقاصد بھی ہونگے مگر واضح طور پر ہدف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی تھی، جس کے بلوچستان اسمبلی میں ہزارہ عوام کی نمائندگی ہے، یعنی حلقہ پی بی 26 اور حلقہ پی بی 27 سے اس جماعت کے نمائندے کامیاب ہوئے ہیں۔ پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ کے پاس کھیل و سیاحت اور امور نوجوانان کے مشیر کا قلمدان ہے۔ یہ جماعت ہزارہ عوام کے تحفظ اور دوسرے مسائل سے غافل نہیں ہے۔ اپنے عوام کے وسیع تر مفاد کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔البتہ میتوں کے ہمراہ دھرنوں کی تب بھی مخالف تھی جب حکومت میں نہ تھی۔ چناں چہ مذکورہ دھرنے پر بھی ایچ ڈی پی نے میتوں کے ہمراہ دھرنے کو سیاسی مقاصد کے حصول کی کوشش کہا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی سیاست کی۔
دیکھا جائے تو دہشتگرد حملوں کا سلسلہ پرویز مشرف دور کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں بھی رہا بلکہ یہ دور عروج کا تھا، پھر 2013ء کے عام انتخابات کے بعد یعنی نواز شریف دور میں بھی بلوچستان اور ہزارہ عوام پر دہشتگردی ہوتی رہی، تاآنکہ موجودہ عمران خان کی حکومت میں بھی اس عفریت سے چھٹکارا نہ مل سکا۔مریم نواز اور بلاول بھٹو 7 جنوری کو کوئٹہ آکر دھرنے میں گئے، ان کے ہمراہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، احسن اقبال، مریم اورنگزیب بھی تھیں۔ 8 جنوری کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق پہنچے، مولانا فضل الرحمان کی نمائندگی مولانا عبدالغفور حیدری نے کی، مختلف سطح کے لوگ اور رہنماء بھی دھرنے میں جاتے رہے۔گویا ہر کسی نے بیٹھ کر دھرنے کے شرکاء کو میتوں کی تدفین پر آمادہ کرنے کی کوشش نہ کی۔ ہونا یہ بھی چاہئے تھا کہ سیاسی قیادت کابل کی حکومت سے احتجاج کرتی، جہاں ان دہشت گرد عناصر و گروہوں کی پشت پناہی ہو رہی ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال چھٹیوں پر دبئی گئے تھے، انہیں آڑے ہاتھوں لیا گیا کہ وہ موج مستی میں مصروف ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد دھرنے کے بعد وفاقی وزیر علی زیدی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کوئٹہ پہنچے۔یہ دونوں حضرات دھرنا ختم ہونے تک کوئٹہ میں مقیم رہے۔وزیراعظم عمران خان نے البتہ تدفین پر زور دیا کہ میتیں دفنائی جائیں گی تو وہ اسی دن پہنچ جائیں گے اور ایسا ہی ہوا، ابھی تدفین ہورہی تھی کہ عمران خان سفر کوئٹہ کے لیے نکل پڑے، وزیراعلیٰ ہائوس میں سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ لی۔ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں جاں بحق مزدوروں کے لواحقین سے ملاقات کی۔مجلس وحدت المسلمین نے پہلے پہل شرائط پیش کیں جس میں بعض تو قطعی قابل قبول نہ تھیں، بعد ازاں ان مطالبات سے لاتعلقی کا اظہار ہوا، حکومتی نمائندے مسلسل روابط رکھے ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں مذاکرات 6 نکات پر مشتمل معاہدے کی صورت میں کامیاب ہوئے۔سانحہ کی تحقیقات کیلئے صوبائی وزیر داخلہ کی سربراہی میں خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ اس کمیشن میں 2 ارکان اسمبلی، ڈی آئی جی رینک کا ایک آفیسر، شہداء کمیٹی کے نامزد کردہ 2 ارکان کو شامل کیا جائے گا۔ کمیشن مچھ واقعے کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ گزشتہ 22 سالوں میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی پر دہشتگرد حملوں کے مقدمات کی تفتیش کی بھی نگرانی کرے گا۔ ان واقعات میں ملوث گرفتار دہشتگردوں کو جلد سزائیں دلانے کے لیے کمیشن کردار ادا کرے گا۔ مچھ واقعہ میں نااہلی برتنے والے افسران کا تعین کیا جائے گا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات میں غفلت کے مرتکب قرار پانیوالے افسران کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے مقتولین کے لواحقین کو فی کس 15 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔وفاقی اور صوبائی سیکیورٹی ادارے بلوچستان میں سیکیورٹی صورتحال کا ازسر نو جائزہ لیں گے۔
4-کوئٹہ کراچی شاہراہ سمیت دیگر شاہراہوں اور ہزارہ برادری کے کوئلہ کان کنوں کے تحفظ کیلئے جامع سیکیورٹی پلان بنایا جائے گا۔ نادرا، پاسپورٹ اور امیگریشن دفاتر میں ہزارہ برادری کو درپیش مشکلات اور تحفظات دور کئے جائیں گے، اس سلسلے میں ڈی جی نادرا اور ڈائریکٹر پاسپورٹ خصوصی کمیٹیاں بنائیں گے۔مقتول کانکنوں کے شرعی وارث کو حکومت بلوچستان ملازمت دے گی۔بلوچستان حکومت نے فی میت 15 لاکھ روپے لواحقین کو ادا کرد یے ہیں، وفاقی حکومت نے بھی 10 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ شہداء ایکشن کمیٹی کے ایک ذمہ دار ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی جنرل سیکریٹری ارباب لیاقت علی ہزارہ (جو دھرنے کے فوکل پرسن بھی تھے) نے بتایا کہ حکومت نے ہر مقتول کانکن کے اہلخانہ کو 50 لاکھ روپے نقد د یے۔بلوچستان حکومت 2014ء میں منظور کردہ قانون کے مطابق دہشتگردی کے واقعات میں جاں بحق ہونیوالے افراد کے خاندان کو فی کس 15 لاکھ روپے امداد دیتی ہے۔معلوم نہیں رقم کی ادائیگی کا کیا طریقہ کار رکھا گیا ہے کیونکہ 7 مزدوروں کا تعلق افغانستان سے تھا۔افغان وزارت داخلہ نے پیر 4 جنوری کے ایک اعلامیہ میں اس کی تصدیق کردی تھی۔جس میں حکومت پاکستان سے تعاون کی اپیل کی گئی تھی۔ پھر کوئٹہ میں قائم افغان قونصل خانے کے امور برائے مہاجرین کے انچارج نثار عزیزی نے بھی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جاں بحق مزدوروں میں 7 افغان باشندے ہیں، جو افغانستان کے صوبے دائیکندی کے اضلاع شہرستان اور میرامور کے باسی ہیں۔ان میں تین میتوں کے ورثاء نے قونصل خانے سے لاشیں افغانستان آبائی علاقے منتقل کرنے میں مدد کی درخواست بھی کی تھی۔
علی زیدی نے بتایا کہ مقتول کانکنو ں کے ورثاء کو بلوچستان حکومت ملازمتیں دے گی اور خود ان کی وزارت پورٹ اینڈ شپنگ اسکالر شپ پر تعلیم فراہم کرے گی۔سوال یہ ہے کہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر سات گھرانے افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں، تو انہیں تعلیم اور سرکاری ملازمتیں دینے کا قانونی راستہ کیا ہوگا ۔ بہرحال متاثرہ غریب و ستم زدہ خاندانوں کی مالی امداد کرنا حکومت کا مستحسن اقدام ہے۔ معاہدے سے قبل ہی ڈپٹی کمشنر کچھی اور ڈی پی او کچھی کو عہدوں سے ہٹادیا گیا تھا۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ شاہراہوں پر خصوصاً کوئلہ کی معدنیات رکھنے والے علاقوں مچھ، ڈیگاری، مارگٹ، پیر اسماعیل، مارواڑ، سورینج، سپین کاریز، دکی، چمالانگ اور شاہرگ میں فرنٹیئر کور کے دستے تعینات ہیں، چوکیاں قائم ہیں اور پیٹرولنگ بھی ہوتی ہے۔ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ ایف سی کوئلہ کان مالکان سے ایک معاہدے کے تحت فی ٹن 220 روپے سیکیورٹی کے نام پر معاوضہ لیتی ہے۔بلوچستان حکومت کو کوئلہ کی کانکنی سے ملنے والے ٹیکس سے یہ رقم کہیں زیادہ ہے۔گویا پیش آنیوالے کسی بھی واقعے و سانحے کے لیے ذمہ دار صرف پولیس و لیویز نہیں ہے۔ مائنز اونرز اور مزدوروں کو ہمہ پہلو خطرات کا سامنا ہے۔بلوچ شدت پسند تنظیمیں الگ رقم لیتی ہیں، نہ دیں تو ان کی کانیں بند ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔