... loading ...
(مہمان کالم)
مارین ڈاؤڈ
میں اپنے بچپن سے ہی جانتی تھی کہ یہاں اس عمارت میں کوئی زبردست کام ہو رہا ہے۔ مجھے یہ علم نہیں تھاکہ گنبد کے روشن ہونے کا مطلب ہے کہ یہاں کانگرس کا اجلاس جاری ہے۔ مجھے اس بات کا بھی علم نہیں تھاکہ ہیڈ ڈریس میں ملبوس یہ مجسمہ کسی مقامی امریکی نہیں بلکہ آزادی کی دیوی کا ہے۔ میں تو صرف اتنا ہی جانتی تھی کہ ہم رات کے وقت پینسلوینیا ایونیو کی طرف اپنے والد کو لینے جا رہے ہیں جو وہاں ایک گارڈ کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ہم کیپٹل کی حفاظت کو اپنا فیملی بزنس سمجھتے تھے۔ موسم گرما میں ہم سب وہاں کام کرتے تھے۔ میرے دو بڑے بھائی مائیکل اور مارٹن‘ 1950ء کے عشرے میں خدمت گار کے طور پر کام کرتے تھے۔ کیون اور پیگی ڈاک والے کمرے میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ پھر میں نے بھی سرا کیوز سے تعلق رکھنے والے ایک کانگرس مین کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ میری عمر سترہ سال تھی اور میں روزانہ اس ماربل سے بنے ہال میں سے گزرا کرتی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ میرے والد جب کیپٹل کی حفاظت پر مامور تھے تو وہ بھی اسی جگہ گھومتے پھرتے ہوں گے۔
ہمارے دل اس عمارت کے احترام سے سرشار تھے۔ مائیکل کو ایک شرابی سینیٹر کے قدموں سے اگالدان کھینچ کر باہر نکالنا پڑتا تھا اور مارٹن کو سینیٹرز کی بیویوں کے ساتھ جھوٹ بولنا پڑتا کہ ان کے شوہر کہاں تھے۔ پریسکاٹ بش کو پانی پلانا، رچرڈ نکسن کو ڈاک دینا اور جان ایف کینیڈی کو بارش میں ان کا مخصوص سرخ اور سفید رنگ کا رین کوٹ دینا اور جیکی کینیڈی کو ملاقاتیوں کی گیلری میں بٹھانا‘ میرے بھائیوں کے فرائض میں شامل تھا۔ میری بہن کا کمرہ ہماری اور اس کیپٹل کی تصویروں سے مزین ہوتا تھا جس کی چند روز پہلے بے حرمتی کی گئی ہے۔میرے والد نے چالیس سال تک واشنگٹن کی پولیس فورس میں ملازمت کی ہے جن میں سے گزشتہ تیرہ سال وہ سفید کپڑوں میں سینیٹ کی حفاظت کرنے والے جاسوسوں کی ٹیم کے انچارج رہے۔ وہ آٹھ دوسرے جاسوسوں کی نگرانی کرتے تھے۔ کیپٹل پولیس ایک چھوٹی سی ایجنسی تھی جو سکیورٹی گارڈ کے فرائض سر انجام دیتی تھی۔ میرے والد جو کیپٹن مائیک کے نام سے مشہور تھے‘ اپنی ملازمت سے جنون کی حد تک عشق کرتے تھے اور واشنگٹن کے لوگ بھی ان سے اور ان کے بھاری جوتوں سے اتنا ہی پیار کرتے تھے۔ اس عمارت کے مشرقی حصے میں ان کا وہیں پر چھوٹا سا دفتر ہوتا تھا جہاں سے ہجوم نے بدھ کے دن حملہ کیا تھا۔ لوگوں کے نام یاد رکھنا ان کے لیے بڑا مسئلہ تھا‘ اس لیے سب کو بگ شاٹ کے نام سے ہی پکارتے تھے۔میری والدہ مجھے یکم مارچ 1954ء کے ان خوفناک لمحات کے بارے میں بتایا کرتی تھی جب پورٹو ریکو کے قوم پرستوں نے کانگرس پر ہلہ بول دیا تھا اور تماشائیوں کی گیلری سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی تھی۔ کانگرس کے پانچ ارکان شدید زخمی ہو گئے تھے۔ میرے والد سینیٹ والے حصے سے بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے اور شوٹر کے ہاتھ سے پستول چھین لی۔ میری والدہ گھر پر تھیں اور خوف سے ان کا جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ وہ کسی بری خبر کی منتظر تھیں۔ میرے والد نے پستول کے ہینڈل پر ایک چاقو کی مدد سے اپنا نام کنداں کر دیا تھا۔ جب مقدمہ چلا تو ملزموں کے وکیل نے مائیک جوزف ڈائوڈ کو سخت سوالات سے پریشان کرنے کی کوشش کی۔ آپ کیسے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جرم میں جو پستول استعمال ہوا تھا‘ یہ وہی ہے جو عدالت میں پیش کیا گیا ہے؟ میرے والدنے اسے فوراً جواب دیا کہ اس پستول کا ہینڈل دیکھو‘ اس پر MJD لکھا ہوا نظر آجائے گا۔
وہ سیاست دانوں کا احترام ان کے نظریے کے بجائے ان کی انسانیت سے کرتے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انسانیت دشمنی، جھوٹ کے انبار اور اشتعال انگیزی پچھلے بدھ کو اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی جب ایک بے قابو ہجوم نے واشنگٹن کی سڑکوں کو خونِ نفرت اور موت سے تر کر دیا تھا۔ کم از کم ٹرمپ نے میرے قدامت پسند بہن بھائیوں اور مجھے ایک دوسرے کا ہم خیال بنا دیا۔ ہم اس بات پر متفق نظر آئے کہ ہم حملہ آور ہجوم اور جان جانے کے خوف سے کانپتے کانگرس ارکان کو دیکھ رہے تھے جو ادھر ادھر چھپ رہے تھے اور پولیس کو فون کال کر رہے تھے کہ جیسے بھی ممکن ہو‘ ان کی جان بچائی جائے۔ یہ بے حرمتی اور توہین کا ایک دل فگار منظر تھا۔ یہ منظرمیرے والد کو غصے سے پاگل کر دیتا۔ نہ صرف یہ کہ ایک پولیس والا آگ بجھانے والا آلہ لگنے سے اپنی جان گنوا بیٹھا بلکہ جمہوریت کی حفاظت پر مامور پورا سکیورٹی نظام بھی زمین بوس ہو گیا تھا۔ کیا اس انارکی اور ہنگامہ آرائی سے نمٹنے میں ناکامی ٹرمپ کے سازشی ذہن کی اختراع تھی؟یہ ایسا کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ انہوں نے اسی حکومت کو سبوتاژ کیا ہو جسے وہ خود ہی چلا رہے ہیں۔ انہوں نے تو اپنے نائب صدر کو بھی بچانے کی کوشش نہیں کی جو اس حملے کے وقت اپنے چیمبر میں موجود تھے۔ نیویارک میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک کرپٹ جوکر تھے جو بونوٹ ٹیلر کی تاریخی عمارت کے لیے لڑتے تھے۔ وہ واشنگٹن میں ایک نحوست بن کر آئے تھے۔ وہ تاریخ، ہمارے اداروں، ہماری شائستگی اور ہماری جمہوریت کے خلاف نبرد آزما رہے۔ انہوں نے اپنے آمرانہ رویے کے لیے امریکی جھنڈے کا استعمال کیا۔ ابراہام لنکن، واشنگٹن، جیفرسن، ایف ڈی آر، ایم ایل کے اور جنگی شہدا کی یادگاروں کے جلو میں اس بزدل انسان نے سازشی عناصر، سفید فام نسل پرستوں، نیو نازیوں اور دھوکے باز مذہبی خادموں کے ٹولے کی مدد سے اپنے لیے الیکشن چوری کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ اپنے ان حامیوں کے ساتھ کیپٹل ہل کی طرف مارچ کریں گے مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ انہوں نے ایک جاہل اور بھکاری کی طرح اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت کو ٹی وی ا سکرین پر دیکھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ ٹرمپ خود بھی تباہ ہو گئے۔ حتیٰ کہ ٹویٹر بھی کئی سال تک ان کی لگائی ہوئی آگ کے شعلوں کو ہوا دینے کا موقع دے کر ان سے تنگ آ گیا اور ان کا ٹویٹر اکائونٹ بند کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اب ایوان ان کا مواخذہ کر سکتا ہے اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں۔شاید سینیٹ کے پاس انہیں نکال باہر کرنے کے لیے وقت نہ ہو۔ اٹارنی جنرل Josh Hawley کا سیاسی مستقبل ا?نسو گیس کے دھوئیں میں اڑگیا اور ٹیڈ کروز نے خود کو ایک بار پھر اتنا ہی طاقتور بنا لیا جس کی وجہ سے ہر کوئی ان سے نفرت کرتا ہے۔ جب ٹرمپ نے اس ہجوم کو اپنی کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا تو اس کے صرف دو دن بعد ہی روڈی جولیانی نے بیان جاری کر دیا ’’جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کل یہ کہا تھا کہ یہی وقت ہے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا اور قوم کو متحد کرنے کا‘‘ یقینا ہمارے زخم بھر جائیں گے بس اس وحشی کو وائٹ ہائوس سے باہر جانے دو، اس طرح برائی کسی نہ کسی راستے سے باہر نکل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔