... loading ...
اخلاق دیانت اور امانت جیسی خوبیاں ہی انسانیت کی معراج ہیں۔ دولت مند ہونا کامیابی کی علامت نہیں ہے ہماری سوسائٹی میں دولت ہی معیار بن گیا ہے اور اخلاقی تصورات پیچھے چلے گئے ہیں۔ ایک بہت بڑے تاجر اور صنعت کار نے کامیابی کے اصول بیان کرتے ہوئے کہا کہ ،،کامیابی کا پہلا اصول محنت ہے۔ میں نے سب کچھ بھلا کر صرف کام کیا ہے۔ کاروبار کے ابتدائی دنوں میں، میں فجر کی نماز سے لے کر رات 11:00 تک کام کرتا تھا میں نے بزرگوں سے یہی سبق سیکھا تھا کہ اللہ محنت میں برکت ڈالتا ہے۔ میرا دوسرا صول دیانت داری اور سچائی ہے۔ کاروباری افرادکوبددیانت سے بچنا چاہیئے، یہ الزام ان کی توہین نہیں بلکہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ انسان کو خود اپنی قسمت کا مالک بننا چاہیے۔ محنت سے روزی کے نئے افق تلاش کرنے چاہیئے۔ ملازمت کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ کسی اور کو ملازمت دی جائے۔میں نے دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں کی کارکردگی اور صلاحیتوں کا مشاہدہ کیا ہے تو مجھے علم ہوا کہ دنیا بہت بڑی ہے۔اللہ نے انسان کو بے انتہاء صلاحیتیں دی ہیں۔ اسے بغیر مانگے ایسی نعمتیں دی ہیں، جس کا شکر پوری زندگی کی عبادت اور ریاضت سے بھی ممکن نہیں ہے۔ جس اللہ نے یہ کائنات انسان کے لیے بنائی ، وہ اس کی کوشش اور محنت کا صلہ کیوں نہیں دے گا۔ آپ کو صرف ہمت حوصلہ اور دوراندیشی سے کام لینا ہے۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے، نئی سوچ اور نئے کام اور نئے انداز ، آج کے دور میں ٹیکنالوجی کا حصول زیادہ ہے۔ سیکھنا انسان کا بنیادی وصف ہے۔ انسان کو اچھا انسان بننے کے لیے سادگی اور محنت کو اپنا شعار بنانا چاہیئے۔ 1946 کے آس پاس اٹلی جنگ کے باعث بہت مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ لوگوں کے پاس کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت تھی، اس زمانے میں اٹلی کا وزیر اعظم ڈیسپری تھا۔ وہ ایک کلرک سے وزیراعظم بنا۔ اس کی شب و روز محنت اور لگن اور عوام سے محبت اس کی میراث تھی۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اس کی زندگی کی سادہ تھی اور وہ اسی طرح محنت کرتا تھا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہوا تو اسے اپنی تنخواہ میں سے کچھ پیسے پیشگی لینے پڑے تھے۔
کیونکہ اسے نئے کپڑوں کی ضرورت تھی وہ اپنی صبح کا آغاز صبح سویرے سیر سے کرتا تھا اس دوران اس کا پریس سیکریٹری اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ تاکہ اس کی باتیں نوٹ کر سکے۔ اس نے بہت سی میٹھی گولیاں اپنے پاس رکھی ہوتی اور روم کی گلیوں میں چلتے چلتے اگر کوئی بچہ راستے میں ملتا تو اسے گولیاں دیتا وہ رات ساڑھے نو بجے تک اپنے دفتر میں کام کرتا رہتا۔ وہ اس کی بیوی اور ان کی چار بچیاں اس چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے جو اس نے کلرکی کے دنوں میں حاصل کیا تھا۔ہمیں اپنی زندگی میں سائے کی تلاش زیادہ رہتی ہے۔ ٹھنڈی چھاؤں جس کے تلے بیٹھ کر آرام سے زندگی گزر جائے۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ بڑے درختوں کے سائے تلے پلنے والے پودے ہمیشہ چھوٹے رہ جاتے ہیں۔سایہ مت تلاش کریں دھوپ کی تپش برداشت کریں یہی تپش ایک دن آپ کومضبوط بنائے گی۔ کمہار کچی مٹی کے برتن بناتا ہے، لیکن انھیں پائیداری، خوش نمائی دینے کے لیے انھیں آگ کی بھٹی میں چڑھاتا ہے۔ زندگی میں خوشیاں پھولوں کی خوشبو کی مانند ہوتی ہیں،لیکن یہ خوشیاں بھی گرم سر حالات سے کشید ہوتی ہیں۔ ہر حال میں خوش رہنا۔ اپنے مالک کا شکر ادا کرتے رہنا۔اس کی بے حساب نعمتوں پر شکر گزار ہونا۔ خوش رہنا بھی ایک عادت ہے۔ اور عادتیں ہمارا خود کا انتخاب ہوتی ہے، صبر کی عادت ڈالیں۔ صبر ناگزیر اور ناپسندیدہ لوگوں اور حالات کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے مثبت رویے کو برقرار رکھنے کا نام ہے۔ہر طرح کے معاملات میں صبر کریں۔تحمل ، اور مثبت رویئے اپنائیں۔آپ زندگی میں مسائل کے بارے میں، مشکلات کے بارے میں سوچیں گے تو یہ بڑھتے ہی جائیں گے۔
جب آپ مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ، تو آپ کو زیادہ مسائل نظر آتے ہیں۔ اور جب آپ حل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ، تو آپ ہر مسئلہ حل ہوتا نظر آتا ہے۔ پہاڑ کو سر کرنے کے بارے میں سوچیں مت، بس ہمت کرکے قدم اٹھائیں، چوٹیاں خود بخود سر ہوجاتی ہیں۔
خوش رہیں، زندگی بہت خوبصورت ہے۔ اس کی خوب صورتی کاانحصار بھی آپ پر ہے۔ یہ خوشیاں آپ کے اندر سے پھوٹتی ہیں۔ پھلجھڑی کی طرح رنگ برنگی ،میٹھی سلونی خوشیاں، خوشیاں دعاؤں سے ملتی ہیں۔ اس لیے دعائیں لیں،دعا لینے والے کام کریں، لوگوں میں خوشیاں بانٹیں۔ یہ باٹنے سے مزید بڑھتی ہیں۔ اپنے آس پاس رہنے والوں کو احساس کرائیں کہ آپ ان کا خیال رکھتے ہیں، ان کی خوشیاں آپ کو عزیز ہیں۔ لیکن یہ احساس لفظوں یا چیخ و پکار سے نہیں کروایا جاتا۔ یہ انسان کی فکر فوقیت اور دلچسپی پر منحصر ہے۔ اس کے لیے کچھ فکر کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ عمل کرنا پڑتا ہے۔ اور دوسروں میں دلچسپی لینی پڑتی ہے۔ اپنی زندگی میں مقصد پیدا کیجیئے۔ زندگی کے تین مراحل ضروری ہیں, ضرورت, مصروفیت اور مقصد۔اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دیں۔کوئی مصروفیت رکھیں، مقصد والی مصروفیت، مصروفیت بادشاہوں کے لیے بھی ہوتی ہے، خود اللہ روز کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے۔ خالق کائینات جب کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے تو مخلوق کو تو اس کی پیروی کرنی ہی چاہیئے۔ چرند پرند کو دیکھیں، وہ مال و دولت نہیں جمع کرتے، کھانے پینے کی اشیاء کا ذخیرہ نہیں کرتے ، بلڈنگیں اور جائیداد نہیں بناتے۔ لیکن ہر صبح اپنے رب کی حمد و ثنا ء سے اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں، اور تمام دن بھاگ دوڑ میں رہتے ہیں۔آپ کے لیے بھی ہر روز ایک نیا دن ہے۔ کل ایک تاریخ ہے اور آنے والا کل اسرار ، ایک بھید ہے، ایک پہلی ہے،جس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتہ۔تو پھر زندگی توآج ہے۔ اس آج کے بارے میں سوچیئے۔ اس آج کو خوشگوار بنائیں۔ اس آج میں لمحہ موجود میں خوشیاں بھر دیں۔ خلیل جبران نے کیا خوب کہا ہے،،زندگی میں اس سے زیادہ دشوار کوئی بات نہیں ہے کہ اپنی ذات سے کہا جائے کہ تم شکست کھا چکی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔