... loading ...
دوستو،گیلپ پاکستان کے سروے میں کہا گیا ہے کہ 65 فیصد پاکستانی تمام مسائل کے باوجود خوش، 25فیصد پریشانی کا شکار ہیں، پاکستانیوں کی خوشی کا نیٹ اسکور40فیصد رہا،پی ایم ایل ن کے دور میں نیٹ اسکور 71 فیصد کی بلند ترین سطح پر گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے پہلے سال میں 65 فیصد رہا۔ کورونا اور معاشی مشکلات کے باوجود پاکستانیوں نے اپنی زندگی سے خوش ہونے کا اظہار کردیا۔گیلپ سروے میں ایک ہزارسے زائد افراد نے ملک بھر سے حصہ لیا۔ یہ سروے 09 اکتوبر سے 02 نومبر 2020 کے درمیان کیا گیا۔گیلپ پاکستان کے سروے میں 65 فیصد پاکستانیوں نے تمام مسائل کے باوجود زندگی سے خوش ہونے کا کہا جبکہ25فیصد نے ناراض ہونے کا بتایا۔ 8? فیصد نے درمیانہ موقف اختیار کیا جبکہ 2فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔گیلپ پاکستان نے 65فیصد خوش پاکستانیوں میں سے 25فیصد ناراض پاکستانیوں کو نکال کر پاکستانیوں میں خوشی کا نیٹ اسکور 40 فیصد بتایا۔ ریسرچ کمپنی کے مطابق پاکستانیوں میں خوشی کا نیٹ اسکور پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں یعنی 2016ء میں 71 فیصد کی بلند ترین سطح پر دیکھا گیا۔ 2017ء میں یہ کم ہوکر 48فیصد ہوگیا۔ 2019ء میں اس میں اضافہ ہوا اور یہ 65 فیصد پر نظر آیا لیکن موجودہ سروے میں خوشی کا نیٹ اسکور 40 فیصد پر دیکھا گیا۔ نیٹ اسکور کے برعکس موجودہ سال میں پاکستانیوں کی رائے کا موازنہ 46ممالک کی مجموعی رائے سے کیا جائے تو عالمی سطح پر54 فیصد افراد خوش نظر آئے۔ 14 فیصد نے ناراض ہونے کا کہا۔جبکہ 31 فیصد نے درمیانہ موقف اختیار کیا۔ 1 فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔پاکستان کے پڑوسی ممالک دیکھا جائے تو وہاں 64 فیصد بھارتیوں نے خوش ہونے کا کہا۔ جبکہ افغانستان میں یہ شرح 48 فیصد نظر آئی۔
باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔لوگ ایسے خوش ہیں جیسے ان کا سال نہیں سالا بدلنے والا ہے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔۔رکھ کے چاول دم پر میں یہ سوچتا ہوں، کی دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے۔۔باباجی کا ہی تازہ تازہ کہنا ہے کہ ۔۔خان صاحب کو کئی بار یوٹرن کا طعنہ دیا، مگر آج صبح نہانے گیا تو پتہ چلا کہ یوٹرن حالات دیکھ کر لینا ہی پڑتا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کو شکوہ ہے کہ ہم نے بھی ایک دو جامعات میں پڑھا ہے مگر کہیں بھی ہم سے ٹکرا کر کبھی کسی لڑکی کی کتابیں نہیں گریں۔۔باباجی نے نوجوانوں کو پرمغزنصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔محبوبہ جب بدتمیزی کرنے لگ جائے تو سمجھ لینا کہ وہ اب بیوی بننے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوچکی ہے۔۔انہوں نے نوجوانوں کو مزید مفت مشورہ دیا ہے کہ۔۔اگر آپ سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی تو شادی کرلیں،آپ کی یہ بیماری ٹھیک ہوجائے گی۔۔ایک سوٹ پسند کرنے کیلیے دکان کا تہس نہس کرنیوالی اگر آپکو پسند کرتی ہے تو رب تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور قدر کرو اس کی۔۔
باباجی کا فرمان عالی شان ہے کہ ۔۔کمینے لوگ اگر غلطی سے امیر ہو جائیں تو ان کی بقیہ عمر رشتے داروں کو اپنی اشیاء کی قیمتیں گنوانے میں گذر جاتی ہے۔۔کہتے ہیں کہ ہر چیز پیسے سے خریدی نہیں جاسکتی، ہر بجٹ اور منی بجٹ کے بعد ایسی اشیا کی فہرست میں اضافہ ہوجاتا ہے۔۔تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ تبدیلی آگئی ہے، لیکن ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ تبدیلی سال،ہفتہ،دن ،مہینہ بدلنے سے نہیں، شادی سے آتی ہے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ میرے سارے دوستوں نے گھونگٹ اٹھالئے جب کہ میں آج تک لوگوں کو کہتا پھر رہا ہوں، دوپٹہ اٹھالیں، ٹائر میں آجائے گا۔۔پنجابی کے مشہور مزاحیہ شاعر عبیر ابوذری شاعری سنا رہے تھے، جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ’’پولیس کو چور کہیں تو کیا فائدہ۔۔بعد میں بدن پر ٹکورکریں تو کیا فائدہ‘‘۔۔ فہمیدہ ریاض نے فراز صاحب سے پوچھا ،اس کا ترجمہ کیا ہے۔فراز صاحب نے کہا ،اس کا ترجمہ نہیں، تجربہ ہو سکتا ہے۔۔ایسا ہی اک تجربہ کسی انگریزکوبھی ہوا جو پہلی بار پاکستان گھومنے پھرنے آیا۔۔ ریلوے پھاٹک بند تھا وہ رک گیا۔۔ایک سائیکل والا آیا اس نے سائیکل اٹھائی جان پر کھیل کر پھاٹک پار کیا۔۔انگریز نے سوچا کتنی محنتی قوم ہے وقت ضائع نہیں کیا۔۔پانچ منٹ بعد پھاٹک کھلا تو وہ ہارٹ اٹیک سے مر گیا۔ جب اس نے دیکھا وہی سائیکل والا بندر کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔۔کہتے ہیں کہ۔۔جس شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں اس کی صحت اور بینک بیلنس کی صورتحال نازک ہی رہتی ہے۔ اس کا بیشتر وقت ناز برداری اور نہانے میں گذرتا ہے۔
یہ قوم اتنی خوش باش ہے کہ زیادہ گرمی اور زیادہ سردی میں ان سے کام نہیں ہوتا اورجب موسم خوشگوار ہوتو ویسے ہی کام کرنے کا دل نہیں کرتا۔۔دو بوڑھے جوڑے ایک ہوٹل میں اکٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ پہلا بوڑھا بولا۔۔ ارے یار پچھلے ہفتے میں نے اپنی بیوی کیساتھ ایک بہت اچھے ہوٹل میں کھانا کھایا تھا۔ وہ میری زندگی کا سب سے اچھا ہوٹل تھا۔ دوسرا بوڑھا پوچھنے لگا۔۔ اس ہوٹل کا کیا نام تھا؟۔ پہلا بوڑھا بولا۔۔ ارے یار میری یاداشت بہت کمزور ہو گئی ہے۔ مجھے اس ہوٹل کا نام یاد نہیں آ رہا۔ م سے لڑکیوں کا کونسا نام شروع ہوتا ہے؟۔ دوسرے بوڑھے نے نام بتایا۔۔ ماریہ۔ پہلا بوڑھابولا۔۔ ارے نہیں کوئی اور نام۔ دوسرا بوڑھا پھر کہنے لگا۔۔ مریم۔ پہلا بوڑھا۔۔ ہاں وہی۔ (اپنی بیوی کی طرف مڑتے ہوئے) مریم اس ہوٹل کا کیا نام تھا جس میں ہم نے پچھلے ہفتے کھانا کھایا تھا؟۔۔۔ایک دفعہ ایک دیہاتی نے لاٹری میں ایک فلم کا ٹکٹ جیتا۔ فلم دیکھنے کے بعد اس نے اپنے دوست کو وہ فلم دکھانے کی دعوت دی۔ فلم کے دوران ایک سین میں جب ویلن ہیرو کے گھر کی طرف جا رہا تھا تو دیہاتی نے اپنے دوست سے کہا کہ میں تم سے ہزار روپے کی شرط لگاتا ہوں کہ ویلن ہیرو کے گھر کے دروازے سے واپس چلا جائے گا۔ اس کے دوست نے کہا کہ تم یہ فلم پہلے دیکھ چکے ہو، یقینا ایسا ہی ہو گا۔ لیکن دیہاتی کے بار بار ضد کرنے پر اس کے دوست نے اس سے شرط لگا لی۔ سین میں آگے چل کر ویلن ہیرو کے گھر میں دروازہ توڑ کر داخل ہوتا ہے اور اسے ہیرو سے خوب مار بھی پڑتی ہے۔ اس پر وہ دیہاتی مایوس ہو کر اپنے دوست سے کہتا ہے کہ میں نے تو سوچا تھا کہ ایک دفعہ پٹنے کے بعد ویلن دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔’’جب تم دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہو تو اچھی چیزیں خود لوٹ کر تمہاری طرف آتی ہیں۔یہ قانون قدرت ہے‘‘خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔