وجود

... loading ...

وجود

افغانستان کی جنگ ختم ہو چکی ہے!

بدھ 23 دسمبر 2020 افغانستان کی جنگ ختم ہو چکی ہے!

ایلیٹ ایکرمین

میں نے ہومر کی رزمیہ نظم The Iliad اپنے ہائی ا سکول کے زمانے میں پڑھی تھی۔ میری ٹیچر نے اس کا ترجمہ مجھے دیا تھا، جس کے کور پیج پر چھپی تصویر میں ڈی ڈے پر امریکی فوجی اوماہا بیچ پر ایک جہاز سے باہر نکل رہے تھے۔ کم عمری کی وجہ سے مجھے اس وقت تو اس کی کوئی خاص سمجھ نہ لگ سکی اور ایکلیز کے غصے، ہیکٹر کی موت اور کالے پیندے والے بحری جہازوں میں بیٹھے یونانیوں کا جنگ عظیم دوم سے کچھ لینا دینا بھی نہیں تھا۔ کئی سال بعد خود دو جنگیں لڑنے کے بعد کور پیج پرچھپی تصویر میرے ذہن میں ایک نئے انداز میں گھومنے لگی۔ اگر ایلیڈ کے اصل متن کے مطابق قدیم یونانی اپنی جنگیں اسی طرح لڑا کرتے تھے (سکندر اعظم کے بارے میں مشہور تھا کہ اپنی جنگی مہمات کے دوران وہ ایلیڈ اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سویا کرتا تھا) تو جنگ عظیم دوم نے ہماری سوسائٹی کے ساتھ بھی وہی کام کیا ہے کہ جنگ کے بارے میں ہماری توقعات کو ہمارے لیے امریکی ایلیڈ بنا دیا ہے۔ ہم ابھی تک اچھا بننے کے چکر میں ہیں۔ ہم یہ توقع کر رہے ہیں کہ اس کا ایک آغاز‘ عروج اور پھر انجام بھی ہو۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ اس وقت ختم ہوتی ہے جب فوجی اپنے گھروں میں پہنچ جائیں مگر ہماری یہ آخری توقع کہ جنگ اسی وقت اپنے انجام کو پہنچتی ہے جب سارے فوجی اپنے اپنے گھروں میں آ جائیں‘ کبھی پوری نہیں ہو سکی۔ نہ جنگ عظیم دوم میں اور نہ ہی آج۔

جو بائیڈن کی نئی حکومت کو ورثے میں ملنے والے سنگین چیلنجز میں سے صرف یہی نہیں ہو گا کہ افغانستان میں لڑی جانے والی طویل جنگ کو ختم کیا جائے بلکہ انہیں یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ جنگ کے خاتمے سے ان کی کیا مراد ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نئے صدر جو بائیڈن کو طالبان کے ساتھ نامکمل امن مذاکرات اور فوجیوں کی تعداد میں کمی کا تحفہ دیں گے مگر جو بائیڈن کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس پبلک کا سامنا کرنا ہو گا جو نہ صرف اپنے فوجیوں کی واپسی کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے بلکہ عوام سمجھتے ہیں کہ جنگ حقیقت میں اسی وقت ختم ہوتی ہے جب سارے فوجی واپس اپنے گھروں کو آ جائیں۔ اگر ہمارا ہدف افغانستان سے تمام فوجیوں کو واپس لانا ہے تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ یہ جنگ ابھی کئی سال تک جاری رہے گی اور اسے نہ صرف امریکا کی طویل ترین بلکہ امریکا کی دائمی جنگ کا اعزاز بھی حاصل ہو گا۔

اس وقت مغربی یورپ میں امریکا کے چالیس ہزار فوجی متعین ہیں اور ان کی تعیناتی کی وجہ سے ان ممالک کے عوام کی ایک نسل کو امن نصیب ہوا ہے جہاں دوسری جنگ عظیم لڑی گئی تھی۔ ہم نے جنوبی کوریا میں بھی اپنے تیس ہزار فوجی اس مقصد کے تحت بٹھا رکھے ہیں تاکہ عشروں سے انتشار کے شکار اس خطے میں بھی امن اور استحکام برقرار رکھا جا سکے۔ تشدد کے اکا دکا واقعات کے باوجود کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس خطے میں ہونے والی جنگیں ابھی تک جاری ہیں۔ لوگوں کی اکثریت یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گی کہ وہاں ہماری موجودگی علاقائی استحکام کے لیے بڑی مفید ثابت ہوئی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف دنیا بلکہ امریکا بھی پہلے سے زیادہ محفوظ اور پہلے سے خوشحال ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے حالات مغربی یورپ اور مشرقی ایشیا سے کہیں زیادہ پْرخطر ہیں مگر حالیہ برسوں کے دوران وہاں متعین امریکی فوجی نسبتاً محفوظ رہے ہیں۔ اس سال وہاں صرف چار امریکی فوجی مارے گئے مگر 2020ء کے ایک سال میں صرف کیمپ پینڈلٹن میں ٹریننگ کے دوران اس سے کہیں زیادہ فوجی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بلاشبہ 2015ء سے ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے دوران ٹریننگ حادثات میں مرنے والوں کی تعداد دنیا بھر کی جنگوں میں ہونے والی اموات کی تعداد سے بڑھ چکی ہے۔
میں نے یہ نکتہ اس لیے نہیں اٹھایا کہ میں جنگوں میں مارے جانے والے لوگوں کے بارے میں کوئی سخت رویہ رکھتا ہوں بلکہ میں اس تناظر میں بات کر رہا ہوں تاکہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی وضع کی جائے۔ 2020ء والا افغانستان کسی طرح بھی2009ء والا افغانستان نہیں ہے‘ جہاں ایک وقت تھا کہ ہم ایک جنگ جیتنے کے لیے لڑ رہے تھے مگر آج ہم وہاں ایک پائیدار امن کے قیام کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ یہی وہ فرق ہے جو صدر بائیڈن نے پورے ملک میں برقرار اور واضح رکھنا ہے۔ پہلے یہ جملہ کچھ یوں بولا جاتا تھا ’’افغانستان میں جاری امریکی جنگ‘‘ مگر اب یہ بدل کر ’’افغانستان میں مقیم امریکی فوجی‘‘ ہو گیا ہے۔

صدر بائیڈن کو اس پہلو پر زور دینا چاہئے کہ کس طرح افغانستان میں ہماری موجودگی سے امن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔ انہیں ان حالات کی بھی وضاحت کرنی چاہئے جن کی وجہ سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لیے صورت حال بالکل تبدیل ہو چکی ہے اور امریکی فوجی اس وقت وہاں جو کچھ کر رہے ہیں وہ ایک عشرہ پہلے لڑی جانے والی جنگ سے یکسر مختلف ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اب ہمارے لیے افغان جنگ ختم ہو چکی ہے۔

جو بائیڈن کا تعلق ایک فوجی خاندان سے ہے۔ بائیڈن ملٹری سروس میں تھے تو عراق میں متعین رہے اور وہ اپنی فیملی ا سٹوری کا بنیادی حصہ رہے ہیں۔ صدر بائیڈن بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک دائمی جنگ کی نفسیات بڑی معنی خیز ہوتی ہے‘ خاص طور پر سینئر اور بزرگ فوجیوں اور ان کی فیملیز کے لیے‘ جنہوں نے کسی ایسے تنازعے کے خاتمے کے لیے بھرپو رکوشش بھی کی ہو جو نہ صرف ان فوجیوں بلکہ تمام امریکیوں کی زندگیوں کی قیمت پر ہمیشہ پس منظر میں سلگتا رہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے برعکس جب تمام سینئر فوجیوں کا گھر واپسی پر ایک پریڈ کے ذریعے استقبال کیا جاتا تھا یا ویتنام جنگ کے بعد سائیگان خالی کرنے کے دل دہلا دینے والے مناظر نے ان سینئر فوجیوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس ڈرائونے خواب کے خاتمے کا اعلان کر سکیں مگر ہمارے عہد کے ان سینئر فوجیوں کو ایسا کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ صدر جو بائیڈن فی الحال امریکی قوم کو متحد کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ وقت اپنے ملک کو لگے زخم بھرنے کا ہے۔ شاید جب وہ صدارت کا باقاعدہ منصب سنبھال لیں گے تو ابتدائی مرحلے پر وہ کچھ دیر کے لیے رکیں اور پوری قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے سے پہلے سینئر فوجیوں کے زخم سینے کی طرف بھی توجہ دیں۔

یہ ان فوجیوں کو بھی سمجھانے کا وقت ہے کہ اب وہ وقت لَد چکا ہے، اب انہیں ایک دائمی جنگ کی حالت میں نہیں رہنا پڑے گا۔ آج افغانستان بھیجے جانے والے فوجیوں کو بھی یہ بتانے کا وقت آ گیا ہے کہ اب وہ وہاں کوئی جنگ لڑنے نہیں بلکہ امن کے قیام میں مدد کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ اور کون جانتا ہے کہ اگر اس مسئلے سے صحیح انداز سے نمٹا گیا تو یہ ہمارے اپنے گھر میں جاری دائمی جنگ کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ثابت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر