... loading ...
پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کررہی ہیں اور اِس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح عوام کی غالب اکثریت کو ساتھ ملا کر حکومت کو رخصت کردیا جائے لیکن پی ڈی ایم کے تمام کیے کرائے کو لسانی اور علاقائی تعصب کا شکار لوگ ناکامی سے دوچار کرنے پر تلے بیٹھے ہیں جنھیں درست روش پر لائے بنا بات نہیں بن سکتی ملک کی اکائیوں میں چند ایک ایسے چہرے ہیں جنھیں وطنِ عزیز کی بجائے اغیار کے مفادات کی فکر ہوتی ہے جن سے قوم آگاہ لیکن پی ڈی ایم شاید اِ س لیے نظر انداز کرنے پر مجبور ہے مبادا ساتھ نہ چھوڑ جائیں مگر نادان دوست کی رفاقت نفع بخش نہیں ہوسکتی پورس کے ہاتھی کا کردار ادا کرنے والوں سے دامن چھڑا لینا ہی عقلمندی ہے اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ پی ڈی ایم کے بیانیے سے رائے عامہ کو محمود اچکزئی کا شور متنفر کرسکتاہے کراچی میں اُردو پر تنقید اور اب مینارپاکستان کے سائے تلے لاہوریوں کو سامراج کا حمایتی کہنا ثابت کرتا ہے کہ نادان دوست راجہ پورس کے ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں اگر وہ پی ڈی ایم کے بیانیے سے مخلص ہوتے تو لاہور جیسے مسلم لیگ ن کے مرکزمیں انگریزوں،ہندوئوںاور سکھوں کا ساتھ دینے کی خلاف حقائق بات نہ کرتے پھربھی پی ڈی ایم ساتھ رکھنے پر ہی مُصر رہتا ہے توذہن میں بٹھا لے نقصان اُٹھائے گا۔
پنجاب میں رتی برابر لسانی تعصب نہیں انفرادی نہیں اجتماعی سوچ کو غلبہ حاصل ہے سندھ میں سندھی رائج ہے ،بلوچ بلوچی میں فخریہ بات کرتے ہیں جبکہ پختون بھی گفتگو کے دوران مادری زبان استعمال کرتے ہیں لکھائی پڑھائی میں بھی مقامی زبانیں استعمال کی جاتی ہیں لیکن پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ذرائع ابلاغ میں بھی قومی زبان اُردورائج ہے اِس لیے تسلیم کرنا پڑے گا کہ پنجابیوں کا دل بھی بڑا ہے اور وہ کردار میں بھی ایسا بڑا بھائی ہے جو سب کی کڑوی کسیلی سُن کر برداشت کرتا ہے پنجاب میں لاکھوں افغان مہاجرین کو بھائی بنا رکھا ہے اُنھیں کاروباری مواقع کے ساتھ احترام بھی حاصل ہے جب اچکزئی جیسے تاریخ سے نابلد سامراج کا ساتھ دینے کے الزامات لگا کر لسانی تعصب کی آبیاری کرتے ہیں تو ہمرکاب شخصیات کو سرزنش کرنی چاہیے ۔
لاہوریوں کو طعنے دیکر محمود اچکزئی نے دراصل پنجاب کونیچا دکھانے کی کوشش ہے حالانکہ انگریزوں کے لیے ملک میں سب سے زیادہ نفرت کا مرکز پنجاب کا دارالحکومت لاہورثابت ہوا جہاں مظاہرے اور جلسے ہوتے ذرائع ابلاغ نے بھی غیر ملکیوں کے خلاف بولااورلکھا صرف بولنے اور لکھنے کے ساتھ باقاعدہ لڑائی بھی کی جس کی رائے احمد خان کھرل روشن مثال ہے اگر رفیقانِ پی ڈی ایم درستگی میں تامل سے کام لیتے ہوئے خاموش رہتے ہیں تو یاد رکھیں پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑاصوبہ اوروطنِ عزیز کا اناج گھر بھی ہے اُسے تنقید کا نشانہ بنا کر تحریک کی کامیابی دشوارہے ویسے بھی پی ڈی ایم کا بیانیہ اور اچکزئی کا شور متضاد ہیں تو کیا یہ مناسب نہیں کہ کشتی ڈبونے کی بجائے بھاری پتھر سے چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے۔
انگرزوں ،ہندوئوں اور سکھوں کی حمایت کا لاہوریوں پر الزام لگانے والے اچکزئی کیا اِس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں کہ اُن کا اپنا گائوں بھی انگریز کے قبضے میں رہا اِس دوران مقامی طورپر کسی نے مزاحمت نہ کی اسی طرح سریاب پرہونے والی سب سے پہلی یلغار23 مارچ 1839میںبرطانیا کی بنگال رجمنٹ نے کی جس میں ایک بھی پنجابی شامل نہ تھا لیکن بنگالیوں سے تو اچکزئی کو گلہ نہیں مگر لاہوریوں کو طعنے دیتے پھرتے ہیں یا شاید انھیں بلوچستان کی بجائے افغانستان سے ہی الفت ہے انگریزوں کو مزید فتوحات کے لیے بلوچ کاکڑ قبیلے نے افرادی قوت مہیا کی کچلاک فتح کرنے والی برطانوی فوج میں بھی بنگالیوں ،پشتونوں کے ساتھ مہاراشٹر کے فوجی شامل تھے یہ قبضہ سات اپریل 1839کوہوا،اسی ماہ کی بارہ تاریخ کو قلعہ عبداللہ کے ساتھ گلستان فتح کیاگیا تما م لڑائیوں میںکوئی لاہوری فرد تو کیا ایک پنجابی تک نہ تھا اچکزئی قبیلے نے کیپٹن بوسن کوئٹ کی طرف سے فوجی بھرتی کے اعلان پر لبیک کہتے ہوئے ملازمتیں حاصل کیں اور افغانستان پر حملے کے لیے راستہ بنانے کی مُہم میں حصہ لیا خوجک پہاڑی کاٹنے میں مقامی پشتون سب سے آگے اور نمایاں رہے ایک بار نہیں برطانوی فوج نے افغانستان پر کئی حملے کیے جن میں پشتون کاکڑ اور اچکزئی قبیلوں کی نفری فرنٹ پر لائن لڑتی رہی مسلسل شکستوں پر انگریزوں کے پائوں اُکھڑنے لگے تو سردار غفورخان پانیزئی کاکڑ نے آگے بڑھکر حملہ آوراستعمار کو قبضہ برقراررکھنے کی راہ ہموار کی غفور خان کا لاہور یا پنجاب سے کوئی تعلق نہ تھا ۔
برصغیر پر حملہ آور افغانستان سے آتے رہے جنھیں ہم مذہب جان کرپنجابیوںنے ساتھ دیا اگر اہلِ پنجاب ساتھ نہ دیتے تو فتوحات کا سلسلہ دراز ہونا ممکن نہ تھا رنجیت سنگھ کے دور میں البتہ پنجابی فوج پشاور تک گئی لیکن افغانستان تک نہ پہنچ سکی استعماری انگریز فوج کی مزاحمت کرتے ہوئے پنجاب پر قبضے کی طویل عرصہ راہ روکے رکھی تبھی ہندوستان کوفتح کرنے کے بعد پنجاب سب سے آخر پر برطانوی عملدآری میں آیا تاریخ میںلاہورکے ایک انگریز دوست قزلباش خاندان کا بھی تزکرہ ملتا ہے جس نے انگریزوں کو افغانستان پر حملے کے لیے دوسوگھڑسوار دیے اور انعام میں لاہور کے نواحی علاقے ٹھوکر نیاز بیگ کے پاس بڑی جاگیرحاصل کی قزلباش خاندان بھی پنجابی یا لاہوری نہیں پختون تھا اِس بارے کوئی مدلل جواب ہے تو شور مچانے کی بجائے اچکزئی آگاہ کریں پختون ،سندھی یا بلوچ کی کبھی پنجاب میں مخالفت نہیں ہوئی بلکہ افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں نے خوشحال پنجابیوں کو لوٹنے کے ساتھ تہہ تیغ کیاپھربھی لاہوریوں کا دل اِتنا بڑاہے کہ کبھی کسی کو طعنے نہیں دیے۔ محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی نے ہمیشہ مسلم لیگ کی مخالفت کی اور کانگرس کا ساتھ دیااورتحریکِ پاکستان کی راہ کھوٹی کرنے کی کوشش کی اسی وجہ سے اکثر انتخابی میدان میںناکامیاں مقدربنتی رہیں محمود اچکزئی بھی 1993میںنواز شریف کی حمایت سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے پھرانھیں مینارِ پاکستان کے میدان میں کھڑے ہوکر لاہور یوں کو کوسنے کی ہمت کیسے ہوئی ؟بزرگ بھی اغیار کے طرفدار اور اب اولاد بھی غیروں پر فدا،ایسے اپنوں پر تہمت لگا کر غیروں سے داد لینے والوں کو پی ڈی ایم سے نکال باہر کرنا ہی دانشمندی ہے وگرنہ پی ڈی ایم کے بیانییے کو حاصل عوامی پزیرائی ضعف کا شکار ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔